گئے دنوں کا قصہ ہے کہ ہم عمران اعوان سے ابن ریاض بنے تھے اور اپنے نام کی معلوم نہیں کہاں کہاں سے لا کر توجیہات پیش کی تھیں جن کی بنا پر اپنے پڑھنے والوں کو باور کروا دیا تھا کہ یہ بہت اچھا اور ادبی نام ہے اور استاد ہونے کے ناطے کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے تھے مگر اندر کی بات یہ ہے کہ ہم نے یہ نام اپنی شناخت چھپانے کے لئے رکھا تھا کہ قرض خواہ خواہ مخواہ تنگ کرتے تھے۔ بھلا قرض لے کر بھی کوئی واپس کرتا ہے۔
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا
وہ قرض ہی کیا جو ادا ہو گیا
یہ تو انتہائی غیر پاکستانی عمل ہے اور ہم خودکو خود محب وطن پاکستانی سمجھتے ہیں۔ سو قرضہ لیا اور ہڑپ کرگئے اور جب کوئی قرض خواہ آیا اسے قرض دینے کی فضیلت اور مسلمان بھائی کو مہلت دینے پر اجر کا لمبا سا لیکچر دے کر روانہ کیا۔ بعض لوگ کچھ زیادہ ہی سخت دل ثابت ہوتے اور جوابی حوالہ دے دیتے تھے ۔ مزید براں دہلیز ہی نہیں چھوڑتے تھے تو ان کو کوئی قریب کی تاریخ دے کر ٹالا جاتا اور جو اس سے بھی زیادہ لالچی اور خود غرض نکلتے انھیں کسی اور سے کچھ روپے دے کر روانہ کیا جاتا تھا۔
انھی دنوں ہماری قسمت نے یاوری کی اور ہمیں سعودی عرب میں نوکری کی پیشکش ہوئی۔ تنخواہ بھی پاکستان سے دگنی تھی اور قرض خواہوں سے نجات الگ مل جاتی یعنی کہ ایک ہی تیر سے دو شکار۔ ہم نے حامی بھرنے میں دیر نہ لگائی اور کسی کو بتائے بغیر ہم سعودی عرب سدھار گئے۔یہاں آ کر کچھ سکون ہوا۔ تقاضا کرنے والوں سے ہماری تو جان چھوٹی مگر گھر والے مشکل میں پڑ گئے۔بڑی مشکل سے انھوں نے قرض خواہوں کو یقین دلایا کہ وہ ہمیں بھی بتائے بغیر گیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو کوئی آس بھی بندھی کہ شاید ریال کمائے تو ہمارا قرض اتار دے اور کچھ نے یہ سوچا کہ شاید سعودی عرب جا کر ہی شرم آ جائے۔ بھلا لوگوں کو حج عمرہ کر کے شرم نہیں آتی اور ہمیں صرف پہنچنے سے کیسے آ جاتی۔
ہمارا یہاں کچھ عرصہ سکون سے گزرا۔ سب پریشانیاں دور ہوئیں اور ہم ایک دم سے سب کو کھلے کھلے اور صحتمند دکھنے لگے مگر یہ سکون بھی عارضی ثابت ہوا۔میڈیا کتنا تیز ہو گیا ہے ہمیں اندازہ ہوا جب کسی نے ہماری ٹائم لائن پر پوسٹ لگا کر ہم سے قرض کا تقاضا کیا۔ اسے ہم جانتے بھی نہیں تھے۔ اب اتنے قرض خواہوں میں سے ہر ایک کو جاننا کوئی آسان تھوڑی ہے۔ ہم نے نظر انداز کیا مگر پھر تو یہ سلسلہ شروع ہی ہو گیا۔لوگ پوسٹ لگا دیتے یا ہمیں ٹیگ کر دیتے کہ جو جان بوجھ کر قرض ادا نہ کرے اس کا جنازہ بھی جائز نہیں۔ وقت پر قرض ادا کرنا احسن عمل ہے۔ بعض لوگ طنزیہ کہتے کہ بھائی قرضہ چاہیے تو ہم سے رابطہ کرو۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھا تو ہم نے اپنی آئی ڈی ہی تبدیل کر دی اور ابن ریاض ہو گئے۔
ابن ریاض بننے کے بعد جہاں ہم نے قرض خواہوں سے نجات پائی وہیں اپنے نام کی لاج کرنے کو لکھنا بھی شروع کر دیا۔ ہمیں بھی چند لوگ پہچاننے لگے اور اور ہم فکرِ ماضی سے بھی آزاد ہو گئے۔سوا بلکہ ڈیڑھ سال یوں ہی گزر گیا۔ تاہم کل کی شام ہم پر بہت بھاری ثابت ہوئی۔ ہم نے فیس بک آن کی تو ہم سے پاس ورڈ مانگا گیا حالانکہ ہمارے موبائل اور لیپ ٹاپ دونوں پر محفوظ ہے یہ۔سوکچھ سمجھ نہ آیا کہ ایسا کیوں ہوا مگر ہم نے لگا دیا۔ اس نے اس کے بعد ہم سے ہمارا نام پوچھا تو ہم نے پہلے نام میں ‘ابن’ لگایا اور درمیانے میں’ریاض’ تو کمپیوٹر پر لکھا ابھرا کہ جھوٹ مت بولو اپنا اصلی نام بتائو۔ ہم حیران پریشان کہ اس کو کیا ہوا کوئی تمیز ہی نہیں کہ سامنے ایک معزز شخص موجود ہے مگر غصے کو پی گئے۔ ہمیں ایک دم خیال آیا کہ یہ کھاتا گیا تو دوسرا بن تو جائے گا مگر ہمارے جو اتنے احباب ہیں ان کو ہم اس میں کیسے جمع کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم اتنے گروپس میں ہیں کہ اکثر ہم جب اپنی تحریر لگاتے تو کسی گروپ میں لگاہی نہیں پاتے اور کہیں دو دو بار لگا دیتے سو ان کا ہم کیا کریں گے۔ پھر ضروری نہیں کہ نئے کھاتے میں جس کو ایڈ کریں وہ ہو جائے۔شک ایک بار بیٹھ جائے تو پھر نکالنا بہت مشکل بلکہ ناممکن۔ ہم نے کہا کہ کوشش کرنی کہ یہی کھاتا ہمیں دوبارہ مل جائے۔ سو اس بار ہم نے اپنا دستاویزی نام لکھا تو فورًا مان گیا کمپیوٹر۔ لگتا ہے کہ فیس بک کا کہیں نہ کہیں نادرہ سے منسلک ہے۔ نہ صرف کمپیوٹر مان گیا بلکہ اس نے ہمارا نام من و عن ہمارے کھاتے پر چسپاں کر دیا۔ ہم نے نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تو لکھاآیا کہ دو ماہ تک اب اسی نام پر گزارا کرو۔ نام تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا، عمل تو ہمیں کرنا ہی تھاکر لیا مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ہم نہیں بلکہ کوئی اور ہے ہماری جگہ یا ہم کسی اور کی آئی ڈی استعمال کر رہے ہیں۔
ہم نے سن رکھا ہے کہ دنیا گول ہے یعنی کہ اگر آپ لڑھکیں تو واپس اپنے مقام پر پہنچ جائیں بلکہ اکثر مواقع پر ایک گانا بھی چلتا کہ
سب گول مال ہے
مگر ہمارا تو خیال ہے کہ ہمارا نام بھی گول ہے کیونکہ ہم عمران اعوان سے ابن ریاض ہوئے اور فیس بک نے ہمیں ابن ریاض سے دوبارہ عمران اعوان کر دیا۔حساب کی زبان میں ایک سو اسی درجے کے زاویئے پر گھما دیا۔