تحریر: ابنِ ریاض
ہمیں ایک تصویر موصول ہوئی ہے ۔اس تصویر میں ایک صاحب کھڑے ہیں جن کی ناک پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور تصویر کے اوپر عبارت لکھی ہوئی ہے جس کے مطابق سیالکوٹ ڈسکہ کے ایک گاؤں ‘کوٹلی لوہاراں’ میں ایک استاد پر دوسرے استادوں نے اس لئے تشدد کیا کہ مذکور استاد کو تین کلاسیں دی جاتی ہیں جبکہ باقی اساتذہ کو چھ(کلاسز تصویر میں نہیں لکھا گیا بلکہ کچھ اور لکھا گیا ہے جو ٹھیک نہیں تھا اور نہ ہی لکھنا ممکن تو ہم نے کلاسز لکھ دیا) ۔ ان کے اعتراض کو سربراہ سکول نےاس لئے مسترد کیا کہ صاحبِ مذکور ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور ان کو حصولِ پینشن کے عمل کی تکمیل کے لئے جزوی رعایت دی گئی ہے تاہم مشتعل ملزمان پرنسپل کے دفتر میں ہی مذکور صاحب پر پل پڑے اور کلہاڑیوں اور چھریوں کے وار سے انھیں زخمی کر دیا۔ ملزمان کے عمل کی مذمت کی گئی ہے اور وزیر اعلٰی اور محکمہ تعلیم کو نوٹس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔
موجودہ دور ہی پروپیگنڈا کا ہے۔ جھوٹ اس قدر بولو اور اتنا بولو کہ وہ سچ محسوس ہو ہی آج کل کا اصول ہے سو سچ کا اندازہ محض یک طرفہ بیان سن کر نہیں لگایا جا سکتا۔امریکہ نے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلا مچا کر پوری دنیا کو اکٹھا کیا اور پھر کئی برس کی بمباری اور لاکھوں ہلاکتوں کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ یہ تو اسرائیل کی علاقے میں چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے ڈرامہ کیا گیا اور ساری دنیا کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا۔
ہمیں معلوم نہیں کہ تصویر میں درج بات میں کتنی صداقت ہے کہ لڑائی کی وجہ محض کلاسز کی کمی یا زیادتی ہے ؟ ویسے اگر تصویر میں کلاسز کو جو نام دیا گیا ہے اگر وہ لکھ دیں تو بالکل لڑائی بنتی ہے کہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ کیوں دی گئیں ؟ مگر ہمارا خیال ہے کہ وجہ بہرحال کوئی اور ہے جو ظاہر نہیں کی گئی ورنہ اس بات پر مار تو ان استاد صاحب کی بجائے پرنسپل صاحب کو پڑنی چاہیے تھی۔ یہ بہرحال پرنسپل کا اختیار ہے کہ وہ کس کو کتنی کلاسز دے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان استاد صاحب نے خود اپنے اوپر حملہ کروایا ہو تا کہ سکون سے تنخواہ بھی لیں اور اپنی پینشن کا عمل بھی پورا کریں کیونکہ پینشن لینی ہو یا پہلی تنخواہ، پاکستان میں دونوں کام جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔اپنے ایک ساتھی استاد کو زخمی کر کےملزمان نے اپنا ہی نقصان کیا ہے ۔ اب ہو گا یہ کہ ان کی تین کلاسز بھی ان کو ہی لینی پڑیں گی ( ممکن ہے کہ حوالات سے کلاس لینے آنا پڑے)۔
ہمارا تو خیال ہے کہ یہ واردات کسی دشمنی یا پرانے بدلے کا شاخسانہ ہے۔ان کے بیان کی صداقت جانچ تو کوئی انکوائری کمیٹی ہی کر سکتی ہے تا ہم گائوں کا نام بالکل ٹھیک ہے ‘ کوٹلی لوہاراں’ کیونکہ باہر تو کلہاڑی اور چھری جیسے فرسودہ ہتھیار اب استعمال نہیں ہوتے۔ اب تو طالب علم بھی جدید ہتھیار استعمال کرتے ہیں کجا کہ استاد کلہاڑیوں سے وار کریں۔ یہاں پرنسپل صاحب کے کردار کا بھی نہیں لکھا گیا کہ ان کے کمرے میں ملزمان اپنا کام کرتے رہے تو انھوں نے کیا کیا۔ ہمارا گمان ہے کہ ملزمان نے صرف استاد مذکور کی صرف ناک کاٹنے پر ہی اکتفا کیا کیونکہ ویسے تو استاد صاحب بالکل ٹھیک کھڑے ہیں بس ناک پر ہی پٹی ہے تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ جیسے ملالہ کو گولی سر میں لگی اور گلے سے ہوتی ہوئی کندھے میں گئی مگر انھیں پٹی کی ضرورت محض ماتھے پر پڑی اور ان کے سر کی سرجری بھی بغیر بال کاٹے ہو گئی ، ممکن ہے ایسا ہی کچھ ان استاد محترم کے ساتھ بھی ہوا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ استاد صاحب کی انا بہت زیادہ ہو اور بات بات پر اپنے اور اپنے خاندان کے حوالے دیتے ہوں تو ملزمان نے تنگ آ کر ان کی ناک ہی کاٹ دی ہو۔
استادوں کے متعلق ہم کیا کہیں کہ وہ ہمارے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہیں۔ انھیں ہم اچھا ہی کہیں گے ۔ برا کہنا بھی چاہیں تو نہیں کہ سکتے۔یہ قوم کے معمار ہیں سو قوم کی تربیت کرتے ہیں۔ انھیں بتاتے ہیں کہ آئندہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔ چنانچہ پنجاب کے قریب قریب تما م دیہات کے اسکولوں کے اساتذہ نے پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے امتحانات میں اپنے اپنے طالب علموں کو خوب نقل کروائی ۔ کئی علاقوں میں تو اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر بھی اس کارِ خیر میں پیش پیش تھے۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ اساتذہ کی زیادتی ہے کیونکہ دیہات کے لڑکوں میں پڑھائی کا جذبہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا معیار شہری لڑکوں جیسا ہوتا ہے مگر امتحان دونوں کا ایک جیسا۔ اس میں مضائقہ نہیں مگر نتیجہ ٹھیک نہ آنے کی صورت میں استاد پر انکوائری کی تلوار گرا دی جاتی ہے تو انتہائی دیانت دار اور محنتی اساتذہ بھی بچوں کو نقل کروانے پر مجبور ہیں۔ یہ ہمارے نظام کی کمزوری ہے مگر اس کا نتیجے میں طالب علم نقل کرنا ہی سیکھ رہا ہے۔ اس میں بھی مثبت پہلو یہ ہے کہ ایسا چلتا رہا تو چند ہی سالوں میں پاکستان چین کے ہم پلہ ہو جائے گا۔ ہم بھلے اچھے سیاستدان ، انجینئر اور ڈاکٹر نہ بنا سکیں مگر اچھے نقال ضرور پیدا کرلیں گے اور پھر وہ نقال دنیا کی ہر چیز کی ایسی نقل بنائیں گے کہ اصل کی پہچان مشکل ہو جائے گی۔چین والے معاشی میدان میں ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں اور ہمارے اساتذہ کی تربیت سے ہماری اگلی نسلیں بھی دنیا پر چین کی مانند چھا جائیں گی۔
انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ پہلے مستحق بنو اور پھر خوہش کرو۔ یقیناً حملہ کرنے والے استاد بھی اس رعایت کے مستحق ہیں جو ریٹائر ہونے والے استاد کو دی گئی۔ پاکستان بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں بے تحاشہ بھوت اسکول ہیں۔ مراد ایسے سکول جو صرف حکومت کے کاغذوں میں ہیں جبکہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ ان بھوت اسکولوں کے اساتذہ کو گھر بیٹھے تنخواہیں اور مراعات مل سکتی ہیں تو پڑھانے بلکہ نقل سکھانے والے اساتذہ کا حق تو ان سے کہیں زیادہ ہے۔
پہلے محکمے دوسرے محکموں سے دست گریبان رہتے تھے۔انجینئر ڈاکٹروں سے لڑتے تھے اور وکیل سیاست دانوں سے۔ دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال تھا۔مگر اب کچھ عرصے سے تبدیلی آ چکی ہے۔ پچھلے سال ڈیڑھ سے ہم نے ڈاکٹروں ،وکیلوں ،تاجروں اور دیگر شعبوں کے ماہرین کو آپس میں ہی الجھتے بلکہ ہاتھا پائی کرتے دیکھا ہے۔ اساتذہ کے بارے میں ہم نے ایسا نہیں دیکھا تھا ۔خواہش تھی کہ فلک یہ نظارا بھی دکھائے سو الحمد للہ یہ ہوس بھی پوری ہوئی۔ ہم ڈاکٹروں کو اکثر قصائی کہتے ہیں کہ وہ کیسے اتنی بے دردی سے انسانوں کی دوران آپریشن چیر پھاڑ کرلیتے ہیں تاہم ان کا بھی ماننا ہے کہ اپنوں کے آپریشن ان سے نہیں ہوتے۔ استاد قوم کی تربیت کرتا ہے سو ان اساتذہ کو دیکھ کر بچے آپس میں لڑنا بھی سیکھ لیں گے۔ لڑتے تو پہلے بھی تھے مگر اس معیار کا نہیں لڑتے ہوں گے ۔ اب اسی معیار کا لڑیں گے بلکہ مستقبل قریب میں شاید جدید ہتھیاروں سے بھی لڑنے کے بھی قابل ہو جائیں۔ جو بچے اور قوم اپنوں سے لڑ سکے وہ غیروں کے لئے کتنی سخت ہو گی اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ۔آپس میں لڑنے سے ہی دشمن کا مقابلہ کرنا سیکھیں گےسو اساتذہ نے نادانستگی میں اپنے بچوں کو جہاد کی تربیت بھی دے دی ہے جس کو روکنے کی غیر اقوام کب سے کوشش کر رہی ہیں اور ہماری حکومتیں بھی ان اقوام کا دست و بازو بنی ہوئی ہیں۔ ایسے عظیم اساتذہ کی موجودگی میں بھلا جہاد جیسا فرض ہمارے بچوں میں اجاگر نہ ہو،یہ کیسے ممکن ہے۔ انھوں نے عملی جہاد کر کے اس کا ثبوت دیا۔ حکومت اب ان کو اب اس نیک عمل پر سزا دے گی مگر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ اساتذہ ہمارے ہیرو ہیں۔ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔