ایک تبصرہ فکاہیہ مقابلے پر «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ایک تبصرہ فکاہیہ مقابلے پر

    تحریر: ابنِ ریاض

    20 اپریل ہفتے کا دن تھا اور ہم نے کام(ہفتے بھر کا سودا او بیگم کو باہر لے جانا وغیرہ) شام پر اٹھا رکھے تھے۔ پرانے گانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور گانوں کی نسبت طبیعت پر کچھ  سوگوارانہ سی کیفیت طاری تھی۔ سلیم رضا کا ‘اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے ناں ‘ میں ہم ڈوبے ہوئے تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ  کا پیغام ملا کہ فوری تحریر چاہئیے  پانچ سو سے چھ سو الفاظ کی۔ ہم نے کہا کہ اتنا کم تو ہم نے کبھی لکھا نہیں۔ ہزار بارہ سو الفاظ تو ہمیں تحریر ختم کرتے ہوئے بآسانی ہو جاتے ہیں۔فرمایا کہ پرانی تحریر بھی چلے گی۔  یا بھی ممکن ہے کہ کسی پرانی  تحریر  کا کچھ حصہ دے دیا جائے۔ ہمیں اپنی تحریر کے ٹوٹے کرنے منظور نہ تھے۔ مہلت مانگی کہ کچھ  وقت عنایت کیا جائے تو معلوم ہوا کہ آج آخری تاریخ ہے اور رات بارہ بجے (یعنی ہمارے دس بجے)  تک تحریر ملنا ضروری ہے۔ ہم نے آئیں بائیں شائیں کی توہمیں  ایک خطرناک دھمکی سے نوازا گیا۔  یوں بھی داکٹر صاحبہ نے پہلی مرتبہ ہم سے کوئ کام کہا تھا تو ہماری دلی خواہش تھی کہ ان کو انکار نہ ہو۔  اب تحریر فوری لکھنی تھی۔ ہم نے سوچ کے گھوڑے دوڑائے کہ سامنے موجود کسی چیز یا شخص پر لکھ لیں اور ڈاکٹر صاحبہ کے بھاری بھرکم وجود ( ان کی ہمی جہت شخصیت مراد ہے یہاں) کے سامنے کس کے چراغ جل سکتا تھا سو ہم نے  ڈاکٹر صاحبہ  پر کچھ لائنیں تحریر کر دیں۔ ہم شخصیات پر لکھتے ہیں مگر خواتین میں صرف سباس گل صاحبہ پر لکھنے کا اعزاز حاصل ہے  اور وہ تحریر بھی کسی طور مزاحیہ نہیں تھی ۔  جو سمجھ آیا لکھ دیا اور ڈاکٹر صاحبہ کے حوالے کر کے ہم اپنے کاموں میں لگ گئے۔

    تحریر لگی اور اس کا انجام وہی ہوا جو آخری رات میں سارا کورس یاد کرنے والے طالب علم کا ہوتا ہے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ  اس تحریر میں واقعی کافی غلطیاں تھیں۔ سو تبصرہ نگاروں نے اس کو اچھی طرح دھو ڈالا ، جو ہمیں برا لگا اور بقول مشتاق یوسفی صاحب کے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تنقید ٹھیک تھی۔ ماسوائے ایک بات کے کہ ہم  پر غیر اخلافی جملوں کا الزام لگا دیا گیا۔ حالانکہ یہ تحریر ڈاکٹر صاحبہ پر لکھ کر انھی کے حوالے کر دی گئی تھی ۔ ابھی ایک پوسٹ سے معلوم ہوا کہ محترمہ گل ارباب کی تحریر کو بھی ہم جیسی عزت بخشی گئی ہے تو ہمیں بے طرح اطمینان محسوس ہوا کہ یہاں بھی ہم اکیلے نہیں۔ اگر مصنف کے نام کے بغیر تحاریر لگائی جائیں تو ایسا تو ہوتا ہے۔ ہمیں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک نوجوان وغیر معروف شاعر ایڈیٹر کے پاس گیا۔ انھیں کچھ غزلیں پڑھنے کو دیں  اور کہا کہ یہ کلام شائع کردیں۔  ایڈیٹرنے کلام  پڑھا اور معذرت کی کہ یہ شائع نہیں ہو سکتا کیونکہ غیر معیاری ہے۔ یہ سن کر وہ شاعر  بولا  ‘کمال ہے غالب کا کلام بھی غیر معیاری ہو گیا’۔

    ہم نے اپنی تحریر شائع ہونے کے بعد  دوبارہ پڑھی تو دس میں سے چار نمبر دئیے وہ بھی ڈاکٹر صاحبہ  کے سامنے کلمہ حق کہنے کے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا رعب اتنا ہے کہ پرندہ ان کے سامنے پر نہیں مار سکتا۔ان کے رعب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بینر پر بھی ان کی آئی ڈی والی تصویر لگائی گئی جب کہ  باقی خواتین رائٹرز کو  آئی ڈی والی تصویر کی سہولت نہ دی گئی۔ ڈرائیونگ والی تحریر کا بینر تو صاف چغلی کھا رہا تھا کہ مصنفہ کی ‘ٹھا’کے بعد والی تصویر ڈیزائنر نے استعمال کی ہے۔ سو اس تحریر پر  بعض تبصرہ نگاروں نے ہمیں نشانِ حیدر تک کا اہل قرار دیا۔  افسوس کہ تاحال ہم زندہ ہیں ورنہ  ایک اور تمغہ ہماری الماری میں سج چکا ہوتا ۔ تحریر میں ہم نے اپنا نام بھی لکھ دیا تھا کیونکہ  اس وقت ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ تحاریر بغیر شناخت کے لگائی جائیں گی۔یہ عقدہ بھی کھلا  ہمارا حقیقی نام بھی کافی لوگوں کو معلوم ہے۔انعم سجیل اور عائشہ تنویر نے ہمیں سینیئر قرار دیا مگر کیسے ؟ کیا عمر میں ؟ یقین مانیں صرف انیس برس ہوئے ہیں ہمیں اس صدی میں آئے ہوئے۔  اگرجہ ہماری تحریر پر حوصلہ افزا رد عمل نہیں آیا تا ہم اب بھی ہم  اول پوزیشن لے سکتے ہیں اگر منصف ہمیں بنا دیا جائے تو۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو جج خریدے بھی جا سکتے ہیں۔ ملک ریاض ایسا کر سکتا ہے تو ابن ریاض کیوں نہیں ؟

    دو دن پہلے ہم امتحانات سے فارغ ہوئے تو ارادہ کیا کہ ہم بھی  باقی ماندہ تحاریر  پر کھل کر اور جائز وو ناجائز تنقید کریں گے کیونکہ ساس اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بدلہ بہو سے ہی لیا کرتی ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ جب ہم  فارغ ہوئے تو پہلا ہی تبصرہ ہاشمی صاحب کا آ گیا۔ اب اس کے بعد ہمارارنگ کیا جمتا سو ہم  اپنی تنقید اگلی کسی سرگرمی کے لئے موخر کرتے ہیں۔

    تبصروں کے دوران تنقید برائے تنقید نظر آ ئی۔مثبت  اور حوصلہ افزائی والی تنقید کی کمی رہی اور  اس کی ادب پسند دوستوں سے امید نہیں تھی۔ شروع میں یہ کام مرد حضرات نے کیا اور دیکھا دیکھی خواتین نے بھی  ناجائز تنقید کے تیر چلائے۔ اچھی طرح تنقید کے بعد نیک تمنائوں کا تڑکا لگا کر زخموں پر نمک چھڑکا جاتا رہا۔ تاہم دو بہت اچھے تنقید نگار بھی سامنے آئے۔ سخاوت حسین اور ماہم علی۔ ان دونوں افراد کی تنقید انتہائی معیاری موضوع سے متعلق تھی۔اچھے ادیب تو دونوں  ہیں ہی مگر ان کی تنقید سے ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ ان کی یہ صلاحیت مزید نکھر کر سامنے آئے گی۔

    ہماری رائے اس سرگرمی کے دوران بدلتی گئی۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ یہ سرگرمی مکمل  بدنظمی کا شکار ہے۔  کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں کیونکہ ہمیں کہا گیا تھا کہ پرانی تحریر بھی دی جا سکتی ہے۔کچھ تحاریر کے متعلق کہا بھی گیا کہ یہ پہلے لگ چکی ہیں مگر ظاہر ہے کہ انتظامیہ ہر تحریر پر نظر نہیں رکھ سکتی کچھ اخلاقی ذمہ داری مصنفین پر بھی عائد ہوتی ہے۔کچھ تحاریر الفاظ کی مقررہ حد سے باہر تھیں۔  انھیں بھی مقابلے میں ڈال دیا گیا۔ لکھنے والوں نے یقیناً محنت کی تھی مگر ان کی تحریر ضوابط پرپوری نہیں اترتی تھی تو مقابلے میں شامل نہیں ہونے چاہیے تھی۔ البتہ   ان کی تحاریر گروپ میں لگا کر سب کو مینشن کر دینا  ان کی محنت تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا۔ہم نے اپنا نام تحریر میں لکھ دیا کیوںکہ اس وقت ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ تحریر بغیر نام کے شائع ہو گی مگر آدھ درجن سےزائد  منتظمین میں سے کسی نے وہ جملہ ایڈٹ نہیں کیا۔ مانا کہ املا کی بہت غلطیاں تھیں مگر وہ ہمارا قصور ہے سو وہ تو ایسے ہی پیش ہونی چاہییں تھیں جیسے ہم نے لکھ کر دیں تھیں مگر نام والا جملہ حذف کیا جا سکتا تھا ۔

    آج معلوم ہوا کہ یہ پوری سرگرمی تین لوگوں کی مرہون منت ہے۔ رخ پرانی ایڈمن ہیں اور سر کے گروپ میں روح رواں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اویس باوا ہمارا دوست ہے اور مزاح اور شرارتیں پسند کرتا ہے مگر اچھا سلجھا ہوا انسان ہے۔سمجھ داری کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ہمیں خود تحریر کا نہیں کہا بلکہ ڈاکٹرصاحبہ سے حکم  دلوایا۔اور عفت علی سے ہمارا تعارف یہ سرگرمی ہے۔ دن میں دو پوسٹ تو وہ لگاتی ہی رہی ہیں۔ پس پردہ بینر بنوانے تحاریر لینے اور دیگر کاموں میں بھی ان کا یقیناً حصہ ہو گا جو کسی کی نظروں میں نہیں آئے گا ۔ آپ تینوں کو بہت مبارک باد ایک  مثبت سرگرمی  کامیاب انداز سے کروانے پر۔ اس کے لئے اس سرگرمی میں کچھ نئے ( نئے سے مراد لکھنے میں  نئے نہی بلکہ  وہ لوگ ہیں  جن سے ہم  زیادہ متعارف  نہیں تھے)  لوگوں سے بھی  تعارف ہوا سو ہم تو کسی صورت گھاٹے میں نہیں رہے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔