تحریر: ابنِ ریاض
کل یوم اقبال تھا اور ہم چاہ کر بھی کچھ نہ لکھ سکے۔ بزرگ صحافی جناب حسن نثار سے متعلق ایک ویڈیو نظر سے گزری جو کہ کامران شاہد کے پروگرام کی تھی۔ اس میں وہ کچھ ارشادات علامہ صاحب کے متعلق فرما رہے تھے اور یہ کوئی ڈھائی تین منٹ کی ویڈیو تھی۔
اس بات سے قطع نظر کہ ان کی باتیں کس حد تک ٹھیک اور ہمارے نظریے سے کس قدر مماثل ہیں، میرا خیال ہے کہ ماں بہن کی گالی نکالنا اور غدار کہنا وہ بھی ان کی ذاتی رائے پر بالکل بھی جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ غلط کے مقابل غلط کرنا ٹھیک کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
پہلی بات جو کہ حسن نثار صاحب نے فرمائی وہ یہ کہ ممولے کو شاہین سے لڑا دینا شاعرانہ مبالغہ ہے۔ ورنہ ممولے کی یہ فطرت ہی نہیں کہ وہ شاہین کو زیر کرے یا اس کے مقابل آئے۔ ہمارا تجربہ تو اس کے خلاف ہے۔ چھوٹے چھوٹے ممولوں کو ہم نے شاہین سے لڑتے دیکھا ہے۔ اپنے پیارے وطن میں ہی دیکھ لیں۔ تحریک طالبان، بلوچستان لبریشن آرمی اور سندھ کی ایک سیاس جماعت تو ایٹم بم کے مالک شاہین سے نہ صرف لڑتے ہیں بلکہ انھوں نے تو شاہین کو ہی ادھ موا کر رکھا ہے۔ ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ شاہین کی کھال میں بھی ممولہ ہی ہو۔اور دوسرے ممولوں کو اس کی حقیقت معلوم ہو۔ اس دور کا شاہین ہی صلح پسند ہے کہ ممولوں کو سبق نہیں سکھاتا اور عدم تشدد کا پرچار کرتا رہتا ہے۔
پھر جو حسن نثار نے فرمایا کہ” نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر” بھی محض ایک بات ہے اور اس کی حقیقت کوئی نہیں۔ہمیں تو یہ بھی حق ہی معلوم ہوتی ہے۔ بھلا جو قوم حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنھما کے زمانے میں ایک نہ ہو سکی اس سے آج کے دور میں ،جب کہ آج اس دور کے جیسے مسلمان ہیں اور نہ ہی ایمان، اییسی توقع رکھنا تو زیادتی والی بات ہے۔
مزید حسن نثار کہتے ہیں کہ اقبال ایک مقامی شاعر ہیں۔ یہ بھی خدا لگتی کہی انھوں نے۔ جس زبان کو ٖصرف دو ارب افراد سمجھتے ہوں اس کا شاعر عالمی تو بالکل نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے انھیں عالمی معنوں میں ہی مقامی کہا ہو کونکہ آج کل دنیا ایک عالمی گائوں ہے۔ ہم تو خود اس بات کے خواہشمند ہیں کہ کوئی ہمیں مقامی ادیب ہی تسلیم کر لے۔
ان کا پہلا فرمانا یہ تھا کہ اقبال کو لوگوں نے خواہ مخواہ ہیرو بنا رکھا ہے۔ وہ ایک عام شاعر تھے ۔ اسلام کا پیغام چودہ سو سال پہلے پورا ہو چکا ہے تو علامہ نے کون سی نئی بات کہی؟ مجھے تو انھیں شاعرِ مشرق کہنے پر بھی اعتراض ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ شاعر تھے اور یقینًا اانھوں نے کوئی نیا پیغام بھی نہیں دیا۔ ان کا نیا کام صرف اسلام کی تعلیمات کو شاعری میں ڈھال کر عوام الناس تک پہنچانا ہے ۔ چونکہ ہمارا اسلام سے متعلق علم اتنا وسیع نہیں ہے تو ہمیں ان کی شاعری کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ اقبال کی زیادہ شاعری تو ویسے بھی فارسی میں ہے جو کہ ہمیں آتی ہی نہیں۔ٓ
ہمین ہیروز کی ٖضرورت تو ویسے بھی نہیں ہے۔ جب ہمارے پاس شاہ رخ خان، سلیمان خان، علی ظفر،شاہد آفریدی، سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور دیگر ہیروز کی کمی نہیں تو ہم کیونکر اک دقیانوسی اور قدامت پسند شخص کو اپنا ہیرو مان لیں۔ اگر ہم بالفرض مان لیں تو کسی نے ہم سے پوچھ لیا کہ اپنے ہیرو کی کیا خوبی پائی جاتی ہے آپ میں تو ہم لاجواب ہو جائیں گے۔ اس لئے حسن نثار صاحب نے علامہ صاحب کو ہیرو نہ مان کر قوم کو مستقبل میں شرمسار ہونے سے بچا لیا ہے۔ جس کے لئے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ ان کے خلاف محاذ بنا لینا چاہیے
ہماری ناقص رائے میں تو حسن نثار جیسے لوگ ہمارے محسن ہیں کہ وہ ہمیں کنویں کا مینڈک بننے کی بجائے ہمیں لئے نئے در وا کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔ یہی تو لوگ ہیں جو ہمیں زمانے کے ساتھ چلنے کا درس دیتے ہیں اور دقیانوسی خیالات کو ترک کرنے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔
اس ویڈیو کو دیکھ کر مجھے بھی اپنے خیالات میں ترمیم کرنی پڑ رہی ہے اور میں سوچ رہا ہوں ‘ اقبال صاحب ہم نے عمل تو کبھی کیا ہی نہیں مگر آپ کے خیالات کی بہت قدر کرتے تھے اور آپ کو مسلمانوں کا سچا خیرخواہ سمجھتے تھے۔ مگر ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ آپ تو محض شاعرانہ تخیل اور مبالغوں کے ذور پر اپنی شاعری کرتے رہے۔ ورنہ باتیں تو آپ کی تمام ناقابل عمل ہیں۔ ہم اندھی تقلید میں آپ کو مسلمانوں کا ہیرو گردانتے رہے۔ ہم حسن نثار کے ممنون ہیں کہ انھوں کے ہماری آنکھوں پر پڑی پٹی اتار دی۔ ہمیں آپ کے جیسا ہیرو نہیں چاہئے۔ ہمارے پاس ہیروز کی کوئی کمی نہیں اور کبھی بالفرض ایسی ضرورت پڑی تو حسن نثار ہی ہمارا ہیرو ہے۔’