تحریر: ابنِ انشاء
پرسوں ایک صاحب تشریف لائے،
ہے رند سے زاہد کی ملاقات پرانی
پہلے بریلی کو بانس بھیجا کرتے تھے۔ یہ کاروبار کسی وجہ سے نہ چلا تو کوئلوں کی دلالی کرنے لگے۔ چونکہ صورت ان کی محاورے کے عین مصداق تھی، ہمارا خیال تھا اس کاروبار میں سرخ روہوں گے۔ لیکن آخری بار ملے تو معلوم ہوا نرسری کھول رکھی ہے۔ پودے اور کھاد بیچتے ہیں۔ پھولوں کے علاوہ سبزیوں کے بیج بھی ان کے ہاں سے بارعایت مل سکتے ہیں۔ آتے ہی کہنے لگے، ’’دس روپے ہوں گے؟‘‘
ہم نے نہ دینے کے بہانے سوچتے ہوئے استفسار کیا، ’’کیا ضرورت آن پڑی ہے؟‘‘ فرمایا، ’’اپن ادبی ذوق کے آدمی ہیں، اپن سے اب گھاس نہیں کھودی جاتی۔ کھاد اور پود نہیں بیچی جاتی۔ اب ہم ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس سے قوم کی خدمت بھی ہو۔‘‘ ہم نے کہا، ’’دس روپے میں اسکول کھولیے گا؟‘‘ بہت ہنسے اور بولے، ’’اچھی رہی۔ بھلا دس روپے میں بھی اسکول کھولا جا سکتا ہے۔ دس روپے میرے اپنے پاس بھی تو ہیں۔ دیکھیے سیدھا سیدھا حساب ہے۔ ایک دس روپے کا تو بورڈ لکھوایا جائے گا۔ بورڈ کیا کپڑے پہ نام لکھوانا ہی کافی ہوگا اور دوسرے دس روپے سے جو آپ مجھے دیں گے، میں شہر کی دیواروں، پلیوں، بس اسٹینڈوں وغیرہ کے چہرے پر کالک پھیروں گا۔ یعنی اپنا اشتہار لکھواؤں گا کہ اے عقل کے اندھو۔ گانٹھ کے پورو آؤ کہ داخلے جاری ہیں۔‘‘
ہم نے کہا، ’’یہ جو تم لوگوں کے لپے پتے گھروں کی دیواروں کو کالی کوچی پھیر کر خراب کروگے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تمہیں۔ کارپوریشن نہیں روکتی، پولیس نہیں ٹوکتی؟‘‘ بولے، ’’پہلے یہ لوگ ملاوٹ کو تو روک لیں۔ عطائیوں اور گداگروں کو تو ٹوک لیں۔ شہر سے گندگی کے ڈھیر تو اٹھوا لیں۔ کتے تو پکڑوا لیں اور مچھروں مکھیوں کے منہ تو آلیں۔‘‘ ہم نے کہا، ’’آپ بھی سچے ہیں۔ ان لوگوں کی مصروفیت کا ہمیں خیال ہی نہ رہا تھا۔ اچھا اگر یونین کمیٹیوں کو خیال آگیا کہ ان کا محلہ اجلا ہونا چاہیے۔‘‘ ٹھٹھا مار کر بولے، ’’یونین کمیٹیاں؟ یہ کون لوگ ہوتے ہیں۔ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
ہم نے کھسیانے ہوکر پوچھا، ’’آپ کے پاس اسکول کے لیے عمارت بھی ہے۔ خاصی جگہ درکار ہوتی ہے۔ آپ کاگھر تو جہاں تک ہمیں معلوم ہے ۱۳۳ گز پر ہے۔‘‘ فرمایا، ’’وہ ساتھ والا پلاٹ خالی ہے نا؟ جس میں ایک زمانے میں بھینسیں بندھا کرتی تھیں۔ بچوں سے تین تین ماہ کی پیشگی فیس لے کر اس پر ٹین کی چادریں ڈلوالیں گے۔ فی الحال تو اس کی بھی ضروت نہیں۔ گرمیوں کے دن ہیں۔ اوپن ایئر ٹھیک رہے گا۔ سنا ہے شانتی نکیتن میں بھی کھلے میں کلاسیں لگتی تھیں۔‘‘
ہم نے کہا۔ ’’آپ کی بات کچھ ہمارے جی نہیں لگتی۔ بارشیں آنے والی ہیں۔ ان میں اسکول بہ گیا تو!‘‘ سوچ کر بولے، ’’ہاں یہ تو ہے۔ جگہ تو اپنی نرسری کے سائبان میں بھی ہے بلکہ اسکول کھولنے کا خیال ہی اس لیے آیاکہ کئی والدین نرسری کا بورڈ دیکھ کر آئے اور کہنے لگے۔ ہمارے بچوں کو اپنی نرسری میں داخل کرلو۔ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ یہ وہ نرسری نہیں بلکہ پھولوں پودوں والی نرسری ہے۔ لیکن وہ یہی زور دیتے رہے کہ اسکولوں میں تو داخلہ ملتا نہیں، یہیں داخل کر لو ہمارے بچوں کو، کم از کم مالی کا کام سیکھ جائیں گے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’کس درجے تک تعلیم ہوگی؟‘‘ فرمایا، ’’میٹرک تک تو ہونی ہی چاہیے۔ اس کے ساتھ کے۔ جی اور منٹگمری اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’مانٹیسوری سے مطلب ہے غالباً۔‘‘ فرمایا، ’’ہاں ہاں۔۔۔ مانٹیسوری۔ میرے منہ سے ہمیشہ منٹگمری ہی نکلتا ہے۔‘‘
’’پڑھائے گا کون؟‘‘ ہم نے دریافت کیا۔ بولے، ’’میں جو ہوں اور کون پڑھائے گا۔ اب مشق چھٹی ہوئی ہے، ورنہ مڈل تو بندے نے بھی اچھے نمبروں میں پاس کر رکھا ہے۔ اے بی، سی تو اب بھی پوری آتی ہے۔ سناؤں آپ کو؟‘‘
’’اے۔ بی۔ سی۔ ڈی۔ ای۔‘‘
ہم نے کہا، ’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ آپ کی اہلیت میں کسے شک ہے۔ لیکن آپ تو پرنسپل ہوں گے پھر آپ کی دوسری مصروفیات بھی ہیں۔ یہ پھول پودے کا کاروبار بھی خاصا نفع بخش ہے۔ یہ بھی جاری رہنا چاہیے۔‘‘ بولے، ’’ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ خیر ساٹھ ستر روپے میں کوئی بی اے، ایم اے پاس ماسٹر یا ماسٹرنی رکھ لیں گے۔ جب تک چاہا کام لیا۔ چھٹیاں آئیں نکال باہر کیا۔ بلکہ ہمارے اسکول میں تو تین کے بجائے چھ ماہ کی چھٹیاں ہوا کریں گی تاکہ بچوں کی صحت پر پڑھائی کا کوئی برا اثر نہ پڑے۔‘‘
’’نام کیا رکھا ہے اسکول کا؟‘‘ ہم نے پوچھا، ’’مدرسہ تعلیم الاسلام اقبال ہائی اسکول وغیرہ۔‘‘ بولے، ’’جی نہیں۔ نام تو انگریزی چاہئے۔ فرسٹ کلاس کا ہو جس سے معلوم ہو کہ ابھی ابھی انگریزوں نے آکر کھولا ہے۔ کسی سینٹ کا نام تو اب خالی نہیں سینٹ جوزف، سینٹ پیٹرک، سینٹ یہ سینٹ وہ۔۔۔ سب ختم ہوئے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’سینٹ سائمن ٹمپلر ہوسکتا ہے۔‘‘ غور کر کے کہنے لگے، ’’نہیں ہمارے اسکول میں جاسوسی کی تعلیم نہیں دی جائے۔‘‘
’’پھر آکسفورڈ کیمبرج وغیرہ کے نام پر رکھیے۔‘‘ فرمایا، ’’یہ بھی بہت ہوگئے بلکہ لٹل فوکس اور چلڈرن ہوم اور گرین وڈ وغیرہ بھی کئی ایک ہیں۔ میرا ارادہ ’’ہمپٹی انگلش اسکول‘‘ نام رکھنے کا تھا۔ لیکن وہ بھی کسی نے رکھ لیا۔ آج سارے ناظم آباد کی پلیوں پر یہی لکھا دیکھا۔‘‘ اس پر ہمارے ذہن میں ایک نکتہ آیا۔ ہم نے کہا، ’’ہمپٹی ڈمپٹی دو بھائی تھے۔ بھائی نہیں تھے تو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تو تھے ہی۔ آپ نہلے پہ دہلا ماریے۔ ’’ڈمپٹی انگلش اسکول‘‘ نام رکھیے۔ اس میں بچت بھی ہے۔ نیا اشتہار لکھوانے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ از راہِ اشتیاق پوچھنے لگے۔ ہم نے کہا، ’’پینٹر سے کہیے کہ رات کو کوچی لے کر نکلے۔ ہمپٹی کی ’’ہ‘‘ پر کوچی پھیرتا جائے اور اسے ’’ڈ‘‘ بناتا جائے۔ سفیدی برائے نام خرچ ہوگی۔ دو تین روپے سے زیادہ نہ دیجیے گا پینٹر کو۔‘‘ بولے، ’’بات تو آپ بھی کبھی کبھی ایسی کرجاتے ہیں، دانا اندر آں حیراں بماند۔ مفت اور مفید مشورے کا شکریہ۔ لیکن وہ دس روپے تو دلوائیے اور ایک پان کھلوائیے۔ ڈبل کتھے چونے کا۔‘‘
یوں اسکول کھل گیا اور یوں اسکول کھل رہے ہیں۔ جس کا لکڑیوں کا ٹال نہ چلا اس نے اسکول کھول لیا اور جس کی نرسری کے پودے نہ بکے اس نے بھی اسکول کھول لیا۔ اسکول بڑھتے جاتے ہیں تعلیم گھٹتی جاتی ہے۔ خیر اس میں نقصان بھی کچھ نہیں۔ آج تک کسی کا تعلیم سے کچھ بنا بھی ہے؟
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جنوری 20th, 2023
زمرہ: ابنِ انشاء تبصرے: کوئی نہیں