تحریر: ابنِ ریاض
عبدالحفیظ کاردار پاکستان کے پہلے کپتان تھے اور ان کی قیادت میں پاکستان نے بھارت،انگلستان اور ویسٹ انڈیز کو ان کے اپنے میدانوں میں جبکہ آسٹریلیا کو پاکستان میں شکست دی۔ ان کے بعد پاکستان کو کوئی اچھا کپتان اگلے دو عشروں تک نہ ملا اور پاکستان نے کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کی۔ 1977 میں ٹیم کی قیادت مشتاق محمد کے ہاتھ میں آئی اور ان کے زیر قیادت پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی بار ان کے ملک میں ٹیسٹ میں شکسست دی جبکہ ویسٹ انڈیز میں بھی پاکستان نے ٹیسٹ جیتا مگر بلاشبہ پاکستان کا سب سے بہترین کپتان عمران خان کو مانا جاتا ہے کہ جن کی زیر قیادت پاکستان نے پہلی بار بھارت اوربرطانیہ کو ان کی اپنی سرزمین پر سیریز کی شکست دی بلکہ پہلا عالمی کپ کی ان کی زیر قیادت جیتا۔
عمران خان نے اپنی قیادت میں کئی بہت عجیب فیصلے بھی کیے۔ انھوں نے منصور اختر کو بہت کھلایا۔منصور اختر بلاشبہ بہت اچھے بلے باز تھے مگر اپنی فرسٹ کلاس کارکردگی کو بین الاقوامی کرکٹ میں نہ دھرا سکے۔ قاسم عمر ایک اور کھلاڑی تھے۔ کینیا میں پیدا ہوئے اور سیاہ رنگت کے تھے مگر بہت ہی باکمال بلے باز۔ چھبیس ٹیسٹ میچوں میں تین سینکڑے بشمول دو دوھرے سینکڑے شامل تھے۔ آسٹریلیا کی تیز پچوں کے اچھے کھلاڑی تھے اور وہاں چند ایک اچھی اننگز بھی کھیلیں مگر 1987 میں انھوں نے اپنے ہی چند کھلاڑیوں بشمول عمران خان پر بدعنوانی کا الزام لگایا اور ان کا کیریئر وہیں ختم ہو گیا کیونکہ اس کے بعد عمران خان نے انھیں کبھی ٹیم میں نہیں لیا۔
1992 میں عمران خان سعید انور کو بھی ساتھ لے کے گئے تھے۔ مگر چونکہ سعید انور تیزکھیلنے سے باز نہیں آتے تھے تو عالمی کپ میں عمران خان نے رمیض راجہ کے ساتھ عامر سہیل سے اننگز کا آغاز کروایا۔ عمران خان میں جیت کا جذبہ بہت تھا اور کچھ قسمت کے بھی دھنی تھے۔ اگر انگلینڈ کے خلاف بارش سے ایک پوائنٹ نا ملتا یا سیمی فائنل میں مارٹن کرو زخمی نہ ہوتے تو پاکستان عالمی کپ سے باہر ہو جاتا اور پھر عمران خان پر بہت تنقید ہوتی مگر عمران خان عالمی کپ جیت گئے۔ یوں تنقید سے بچ گئے۔ کپتان بننے سے پہلے عمران خان جارح مزاج کھلاڑی تھے مگر کپتان بننے کے بعد انھوں نے اپنی وکٹ کی قیمت بڑھا دی اور ان کی بلے بازی اور گیند بازی دونوں میں اوسط کپتانی سے قبل سے کہیں بہتر ہے۔ پھر ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کپتان خود کارکردگی نہیں دکھا گا تو دوسروں سے کس منہ سے کارکردگی کی امید رکھے گا۔
عظیم کپتان وہ نہیں ہوتا جس کو عالمی معیار کے کھلاڑی ملیں اور وہ ان سے جیت جائے بلکہ وہ ہوتا ہے جو اپنے دستیاب وسائل سے نتائج حاصل کرتا ہے۔ 1992 میں عمران، میانداد اور وسیم کے علاوہ کونسا عالمی معیار کا کھلاڑی تھا۔ انضمام ابھی انضمام نہیں بنا تھا۔ جبکہ اس کے مقابل 1999 دیکھ لیں۔ سعید انور، شاہد آفریدی،انضمام، عبد الرزاق، وسیم، شعیب، ثقلین مشتاق اور پاکستان ہار گیا۔ بلکہ ان تمام کھلاڑیوں کے باوجود 2003 میں ہم پہلے راؤنڈ سے ہی آگے نہیں بڑھے۔ اس کے برعکس انجہانی مارٹن کرو کو دیکھیں۔ اس نے کس ٹیم کے ساتھ نتائج حاصل کیے۔ رانا ٹنگا نے موجودہ بنگلہ دیش سے بھی کمزور ٹیم کو عالمی چیمپئن بنا دیا۔ ہنسی کرونئے کو وہ ٹیم ملی جو 1994 میں پاکستان میں چھ کے چھ ایک روزہ میچ ہار کر گئی۔ درج بالا تمام کپتانوں کی خوبی یہ کہ انھوں نے اپنی مثال سامنے رکھ کے نتائج حاصل کیے۔
اب بیس برس بعد آفریدی ایک مضبوط کپتان ہے۔محدود اوورز کی کرکٹ اس کی طاقت ہے۔اور یہاں اس کے مقابل کوئی کپتان بھی نہیں۔ بورڈ بھی اس کی مانتا ہے۔ کوچ نے احمد شہزاد کو ٹیم سے نکالنا چاہا مگر آفریدی نے اس کی حمایت کی اور یوں وہ ایک دو سیریز اور کھیل گیا۔ عمر اکمل پر نظم و ضبط کا مسئلہ بنا جو کہ بنتا ہی رہتا ہے مگر کپتان کی حمایت کی وجہ سے وہ زیرِ قالین دب گیا اور اسے ٹیم میں ڈالا گیا۔ عالمی کپ سے پہلے سلمان بٹ کو ٹیم میں شامل کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں مگر آفریدی کی مخالفت کی وجہ سے اسے ٹیم میں نہیں ڈالا گیا۔
اب اگر ٹیم نیوزی لینڈ میں ہارتی ہے اور متحدہ عرب امارات کی اپنی وکٹوں پر برطانیہ پاکستان کو تین صفر سے ہراتا ہے تو کپتان پر اعتراض تو بنے گا ہی۔ عمر اکمل سکور نہ کرے یا احمد شہزاد برا کھیلے کپتان پر ہی اعتراض ہونا۔ کرکٹ میں کپتان کا بہت اہم کردار ہوتا۔ لگاتار شکستوں سے عوام کی امیدیں ٹوٹ جاتیں اور پھر وہ کھیل دیکھنا چھوڑ دیتے۔ جب وہ دیکھنا چھوڑ دیں گے تو نئی نسل کھیلنا چھوڑ دے گی اور کوئی نیا آفریدی نہیں آئے گا۔ یاد رکھیں کہ آفریدی بھی تو کسی کو کھیلتا دیکھ کر اس کھیل میں آیا۔ کبھی لوگ عمران خان کے ایسے دیوانے تھے۔ یہ نسل آفریدی کی دیوانی ہے تو اگلی نسل کو بھی کوئی ہیرو ملنا چاہیے اور یہ تب ہی ہو گا کہ اگر ٹیم اچھا کھیلے۔ اچھے کھیلے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ہر میچ جیتے۔مگر ہر مقابلے میں جیت کے جذبے سے اترنا اور اس کے لئے جان لڑا دینا ہی اچھا کھیلنا ہے۔
1980 اور 1990 کے عشروں میں ہاکی بھی پاکستان میں ایک مقبول کھیل تھا۔ پاکستان عالمی کپ، اولمپکس اور چیمئنز ٹرافی میں عموماً ابتدائی چار نمبروں پر ہوتا تھا۔ یہ تمام ٹورنامنٹ پاکستان ٹی وی براہِراست نشر کرتا تھا مگر پھر کھیل سیاست اور کوتاہ بینوں کی نظر ہوا۔ پاکستان ہاکی تنزلی کا شکار ہوئی اور اب یہ حالت ہے کہ اس سال پہلی بار اولمپک میں ہماری ہاکی ٹیم نہیں ہوگی۔ کیا اب ہمیں علم ہے کہ اس وقت ہاکی کا عالمی اور اولمپک چیمپئن کون ہے؟ اس کی وجہ مسلسل ہاریں اور لوگوں کا دل ہی اٹھ گیا اس کھیل سے۔ کوئی بھی اس کو سپانسر نہیں کرتا کہ مرے ہوئے گھوڑے پر کون رقم لگائے۔ شہباز سینئر یا سہیل عباس کا کوئی متبادل نکلا حالانکہ وہ عالمی معیار کے کھلاڑی تھے اور انھوں نے انفرادی اعزاز(مردِ بحران/مردِ ٹورنامنٹ، سب سے زیادہ گول) بہت حاصل کیے مگر جب ٹیم ہی نہ جیتے تو ان کے اعزاز نئے کھلاڑی نہ دے سکے۔ اب محدود اوورز کی کرکٹ میں ہماری درجہ بندی ساتویں اور آٹھویں نمبر پر ہے۔ ایک جھٹکا لگنے کی دیر ہے کہ ہم کوالیفائنگ رائونڈ کھیل رہے ہوں گے اور یہ ہوا تو پھر کرکٹ بھی ہاکی ہی بن جائے گا(خدانخواستہ)۔
یوں بھی پاکستان ٹیم کی کپتانی کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ کیا مصباح الحق سے بہتر کوئی جان سکتا ہے اس بات کو؟ جو بھی میچ پاکستان ہارتا ان کی سست بلے بازی ہی کو اس کا جواز بنایا جاتا جبکہ اکثر تو اس کی وجہ سے ہی ہماری ٹیم پچاس اوورز کھیل پاتی تھی۔ جبکہ اس کو جو ٹیم ملی تھی اس میں تین عالمی معیار کے کھلاڑی پابندی کا شکار تھے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ تنقید برائے تنقید کرتے ہیں مگر کچھ لوگ تنقید برائے اصلاح بھی کرتے ہیں اور اس کا مقصد صرف اس کھیل کی محبت ہوتا جو ان کے بچپن کی یادگار بلکہ پاکستان کا واحد زندہ کھیل ہے۔
مارچ 2016ء