تحریر: ابنِ ریاض
بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ موت کا ذائقہ سبھی کوچکھنا ہے نیز یہ کہ موت ایک حیات سے دوسری حیات کی جانب منتقلی کا نام ہے۔جب کوئی اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو دنیاوی ساز و سامان اس کا یہیں رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کے اعمال جاتے ہیں۔ اچھے اعمال کا بدلہ اچھا اور برائی کا بدلہ برا۔ کسی کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہوتی۔ وفات کے بعد انسان کے اپنے اعمال ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے کوئی نیکی یا بدی نہیں کر سکتا۔اگر اس نے کوئی صدقہ جاریہ کیا ہو تو اس کا اجر اسے بعد از وفات بھی ملتا رہتا ہے۔ نیک و صالح اولاد صدقہ جاریہ ہے ۔ اس کے علاوہ درخت لگوانا، مسافروں کے لئے کوئی کنواں کھدوانا اور دیگر ایسے ہی امور جس سے بنی و نوع انسان کا فائدہ ہو، صدقہ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں باقی رہنے والے بھی اس کے لئے دعا کر کے یا اس کے نام کا عمرہ و حج کر کے یا اس کے نام سے کوئی بہبود بنی و نوع انسان کے لئے کوئی ادارہ بنا کر اس کو ایصال ثواب پہنچا سکتے ہیں۔
عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے متعلق سب آگاہ ہیں کہ یہ انھوں نے یہ اپنی والدہ کی کینسر کے ہاتھوں وفات کے بعد ان کے ایصال ثواب کے لئے بنایا۔ بعض اور مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ گلوکار ابرار الحق کا صغرٰی شفیع ہسپتال بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔کچھ لوگ مساجد اور مدرسے بھی بنواتے ہیں۔ کسی ہسپتال میں کوئی وارڈ بنوانا یا آلات مثلًا ایکسرے مشین،وہیل چیئر عطیہ کر دینا بھی صدقہ جاریہ ہے۔ کچھ مزید مثالیں بھی یقینًا ہیں۔ یہ بہت ہی اچھی مثالیں ہیں اور قابلِ تقلید بھی۔ مگر
اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
ہسپتال و دیگر ادارے بنانا کوئی آسان نہیں۔
اپنا وقت دینا پڑتا ہے۔ خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اپنا محبوب پیسہ لگانا پڑتا ہے۔اگر آپ معروف شخصیت ہیں تو چندہ لینا پڑے گا اور اس میں بھی بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔ بنانا توپھر آسان ہو ان کو چلانا اس سے بھی زیادہ مشکل۔ اب یہ کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔تاہم یہ عوام کا مسئلہ ہے۔یعنی وہ لوگ جن کا کام صرف ووٹدینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ووٹ لے کر ایوانِ اقتدار میں آتے ہیں اور پھر عوام کے پیسوں سے عوام کی اپنی (ذاتی خدمت زیادہ) کرتے ہیں وہ اگر وفات پا جائیں یا نہ بھی پائیں ان کے لئے عوام کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹیکسوں کی رقم سے ان کے لئے اجر کا انتظام کرے۔ چنانچہ حکومت ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کے پیسوں سے ان کے عظیم الشان مقبرے بنواتی ہے اور پھر ان کے لئے صدقہ جاریہ کا بندوبست کرنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکومت اس کا حل یہ نکالتی ہے کہ جاری منصوبوں پر ان شخصیات کے نام کی تختی لگا دیتی ہے۔ منصوبے ایک ترقی پذیر ملک میں کتنے منصوبے چلا سکتی ہے؟ بہت ہی کم۔نابغہ روزگار اور معروف شخصیات کی تو کمی نہیں، ایک ڈھونڈوہزار ملتی ہیں۔ اس کا حل حکومت نے یہ نکالا کہ پہلے سے موجود عمارات، شاہراہوں اور میدانوں کو ان مشاہیر کے نام سے منسوب کر دیا۔
ملک کا نام روشن کرنے اور اپنے شعبے میں مہارت اور مقام حاصل کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے حکومت مختلف اداروں میدانوں اور شاہ رائوں کے نام ان کے نام سے منسوب کر دیتی ہے۔پطرس بخاری روڈ، فیض احمد فیض روڈ،نور خان ایئر بیس، رفیقی ایئر بیس اور ارفع کریم انفارمیشن ٹیکنالوجی پارک کچھ مثالیں ہیں۔ یہ تمام نام ان عظیم شخصیات کو بالکل مناسب خراج تحسین اور ان کا کام زندہ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سو اگر لاہور سٹیڈیم کا نام قذافی اسٹیڈیم رکھ دیا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا کہ لاہور کی یادگاریں اور بہت بلکہ خود لاہور سلامت ہے۔
یہاں ایک پہلو نظر سے اوجھل ہو جاتا ہےکہ کچھ عمارات مقامات تاریخی اہمیت کے ہوتے ہیں۔ ان کے نام کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ مگر مسلمان کا مقصد صرف اسلام کا فروغ ہوتا ہے اور جو بھی اس کی راہ میں آئے اس کو مسلمان بنانا بھلے خود بنے نہ بنے۔ اب ہمارے کردار ایسے نہیں کہ اسے دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہوں ۔سو ہم چیزوں کو مسلمانوں سے منسوب کر کے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔غیر مسلموں کو کونسا جنت میں جاناسو ان کو صدقہ جاریہ کی کیا ضرورت۔ وہ وفات پا گئے یو ان کا جہنم ٹھکانہ ہو گیا۔ سو ان سے اگر کوئی رفاع عامہ کا کام منسوب بھی ہو تو ان کو کیا فائدہ ہونا۔اگر فائدہ ہو بھی رہا ہو تو مسلمان کو نفع پہنچانا اس سے زیادہ افضل۔ سو ان کا نام کسی اپنے ہیرو کے نام منسوب کر کے اسے خراج تحسین بھی پیش کر دیتے اور دائمی فوائد اس کے علاوہ۔ اس سے پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے اور ہمارے مردوں کو صدقہ جاریہ بھی مل جاتاہے۔ اب ہمارے عمل سے کوئی مسلمان ہو نہ ہو مگر ہم ان یادگاروں کو تو مسلمان کر سکتے۔ سو یہی ہم نے کیا۔جس کو مسلمان نہیں کر سکے اس کا بھی نام ایسا کر دیا کہ کم از کم نام غیر مسلم تو نہ لگے۔ ہمارا یہ خطہ جسے پاکستان کہا جاتا ہے کئی تہذیبوں کا مسکن رہا ہے اور اس میں ہر مذہب اور ہر قوم بسی ہے۔ سو جوقوم بسی اس نے اپنے آثار چھوڑے اور وہ اس خطے کا تہذیبی ورثہ ہے۔
جیمز لائل نام کے ایک انگریز نے پاکستان کے موجودہ مانچسٹر یعنی کہ فیصل آباد کی بنیاد رکھی تھی۔ سو وہ لائل پور کہلاتا تھا۔ اس کو شاہ فیصل کے نام سے منسوب کر کے مسلمان کیا گیا۔اب اس شہر کا حال بھی آج کے مسلمانوں جیسا ہی ہے۔ ۔منٹگمری صاحب کے نام پر جو شہر تھا وہ ساہیوال ہو گیا۔ راولپنڈی کا جنرل ہسپتاج جو ہماری جائے پیدائش بھی ہے ، بے نظیر بھٹو کے ایصالِ ثواب کا ذریعہ بن گیا۔تاہم ابھی تک جائیداد میں ہمارے حصے پر وہ آئیں بائیں شائیں کر جاتے ہیں۔ اس کے قریب موجود ایئر پورٹ بھی بینظیر بھٹو ایئر پورٹ بن گیا۔ ہمارا آبائی علاقہ ‘کیمپبل پور’ سے اٹک ہو گیا۔
باقی شہروں کی نسبت لاہور میں یادگاریں بھی زیادہ ہیں اور مشرف بہ اسلام کرنے میں بھی لاہور باقیوں سے آگے ہے۔ منٹو پارک اقبال پارک ہوا اور لارنس باغ باغِ جناح قرار پایا۔ ‘کرشن نگر’ اسلام پورہ ہوا اور ‘دیو سماج’ ‘سنت نگر’۔
‘میو کالج آف آرٹس’ ‘نیشنل کالج کو آرٹس’ بن کر ابھرا۔’ٹیمپل سٹریٹ’ کو نوائے وقت کے بانی ‘حمید نظامی’ کا نام دے دیا گیا۔ ‘لارنس روڈ’ کا نام ‘ لیفٹننٹ ریٹائرڈ غلام جیلانی روڈ’ کر دیا گیا۔ ‘منٹگمری ھال’ بھی قائد اعظم لائبریری ہو گیا۔
ایسی بہت سی مثالیں ہمارے قرب و جوار میں موجود ہیں۔ ہمارے ذہن میں اس وقت گلاب دیوی ہسپتال، لیڈی ولنگٹن ہسپتال،میو ہسپتال، سر گنگا رام ہسپتال ، کینز ہسپتال، کوئین میری کالج، کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج، دیال سنگھ کالج اور ایچی سن کالج ذہن میں آتے ہیں۔ لاہور سے باہر جیکب آباد، مانسہرہ ایبٹ آباد اور دیگر کئی مقامات ابھی تک غیر مسلم ہیں۔ جلد ہی ہم انھیں مختلف مشاہیر کے نام سے مشرف بہ اسلام کر کے اپنے اسلاف کا حق ادا کریں گے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بنسبت یہ کہیں زیادہ آسان ہے۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اپریل 14th, 2019
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Gulab Devi, Ibn e Riaz, Shagufa e seher