قصّہ ہماری منگنی کا(چھٹی و آخری قسط) «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • قصّہ ہماری منگنی کا(چھٹی و آخری قسط)

    تحریر: طاہرہ ناصر

    خدا خدا کر کے فوٹو سیشن ختم ہوا۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا ۔ مجھے میرے کارندوں نے خبر دے دی تھی کہ دولھا میاں اپنی فوج کے ہمراہ تشریف لاچکے ہیں ۔ میرے اسکول کے طلبا بھی آئے تھے جس کی مجھے دولھے کے آنے زیادہ خوشی تھی۔( ہائے کل جاکر اسکول میں بتائیں گے کہ مس کی منگنی میں گئے تھے کتنا مزا آئے گا ۔میں کتنی پاپولر ہوجاؤں گی) ۔اب ان بچکانہ سوچوں کے حوالے سے سوچوں تو بہت ہنسی آتی ہے لیکن شاید یہ اس عمر کا تقاضا تھا۔
    کچھ دیر بعد میری بہنیں مجھے لینے آپہنچیں
    ” شرافت سے سر جھکا کر چلنا۔آس پاس دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔اور خبردار جو دانت نکالے” بڑی بہن کی ہدایات پر تاؤ تو بہت آیا مگر بات ان کی صحیح تھی۔حفظِ ما تقدم کے طور پر مجھے یہ ہدایات دینا بہت ضروری تھیں ورنہ میری جیسی سیماب فطرت لڑکی سے کچھ بعید نہ تھا۔ کیا ایکٹنگ کی تھی میں نے واہ واہ! اس کا اندازہ مجھے منگنی کے بعد تصویریں دیکھنے سے ہوا ۔ جس میں ،میں کوئی بہت ہی نازک اندام ، شرمیلی اور نہایت گریس فل سی دلھن لگ رہی تھی۔
    مجھے اسٹیج پر لے جا کر بٹھا دیا گیا ۔ لوگوں کے تبصروں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انھیں میرا لباس ،میک اپ اور منگنی کا اہتمام سب بہت پسند آرہا تھا۔
    بالآخر اس شخص کی آمد کا نقارہ بجا جس نےمیری زندگی کو بدل کر رکھ دیا ۔ یہ کوئی ڈائیلاگ نہیں بلکہ سچ بات ہے ۔ چلیں منگنی کی ہی بات کرتے ہیں ۔ میری بہن میرے برابر بیٹھی تھی جب دولھا میاں آکر میرے ساتھ۔۔۔ نہیں میرے شرارے کے دوپٹے پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور کھچاؤ کے باعث میں ایک جانب کو جھُک گئی۔
    کیا مصیبت ہے ۔ہٹیں بھئی! میں غصے سے بڑ بڑائی ۔اور یہ بڑ بڑاہٹ اتنی بلند ضرور تھی کہ ناصر میاں کے کانوں کی لو سرخ کر گئی۔گھبراہٹ میں وہ اچانک کھڑے ہوگئے۔
    خیر ہے بیٹا؟ میری ساس صاحبہ نے استفسار کیا
    جی جی وہ وہ اصل میں ۔۔۔عامر کہاں ہے ۔؟ گھبراہٹ میں وہ اپنے بھائی کو پکار بیٹھے جو ساتھ ہی کھڑا تھا ۔دولھے میاں کی اس حالت سے میں خوب لطف اندوز ہورہی تھی ۔ میں نے اطمینان سے اپنا دوپٹہ سیٹ کیا اور ذرا کھسک کر بیٹھ گئی۔دولھے میاں جھجھکتے ہوئے دوبارہ میرے برابر بیٹھ چکے تھے مگر ان کا اطمینان غارت ہو چکا تھا۔(یہ بعد میں بتایا انھوں نے) ۔سب بلاوجہ ہی فضول فضول سے مذاق پر ہنس رہے تھے ( یہ مجھے لگ رہا تھا حالانکہ سب بہت خوش تھے) اور میرا بھوک سے برا حال تھا۔ سر شام کچھ کھایا تھا اس وقت سے لے کر رات کے 11 بج چکے تھے ۔خدا خدا کر کے دونوں ساسوں نے بہو اور داماد کو انگوٹھیاں پہنائیں ۔( لو جی ساتھ بٹھا کر رسم کر سکتے ہیں پر ایک دوسرے کو انگوٹھی نہیں پہنا سکتے ۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ) سچ میں اگر سہیل وڑائچ میرے ساتھ ” ایک دن جیو کے ساتھ ” کر لیتے تو یہ جملہ ضرور بولتے۔ بہر حال رسمیں مکمل ہوئیں اور کھانے کا اعلان ہوا ۔اس دوران دولھے میاں بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر دوستوں کی جانب چل دیے۔ لوگ کھا پی رہے تھے اور میں کھول رہی تھی۔ اشارہ کر کے اپنی چھوٹی بہن کو بلایا” سنو کھانے میں کیا ہے؟ ” میں نے سرگوشی سے پوچھا جواب میں اس نے باآواز بلند امی کو پکارا ” امی ، باجی کھانے کا پوچھ رہی ہیں ۔کہہ رہی ہیں کہ انھیں کچھ کھانے کو لادوں بڑی بھوک لگی ہے۔” اس کے اعلان پر قریب کی میزوں پر بیٹھے کئی لوگ بے ساختہ ہنس پڑے اور میرا دل چاہا کہ اسے زمین میں زندہ گاڑ دوں۔ امی کی خشمگیں نگاہوں کا سامنا کرنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔ اس لیے اپنا دل مار کر سر جھکائے بیٹھی رہی۔
    کھانا ختم ہوا ۔لوگ آہستہ آہستہ کر کے ہال سے نکلنے لگے۔ میرے ہونے والے سسرال نے بھی اجازت چاہی اور وہ بھی روانہ ہوئے۔ اب ہال میں صرف گھر کے لوگ رہ گئے تھے۔ یہاں وہ نکلے وہاں میں سکون کا سانس لیتے ہوئے سب سے پہلے اپنے گلے میں پڑا موتیے کے پھولوں سے گندھا ہوا خوبصورت ہار اتار کر میز پر پھینکنے کے انداز میں رکھا ۔مانو جیسے میری جان میں جان آئی ہو ۔پھر اپنے دونوں پاؤں کو اونچی ہیل سے آزاد کیا اور صوفے کے سامنے پڑی میز کے اوپر دونوں پیر رکھ کر اپنی پشت صوفے سے ٹکا لی۔
    ” ظالمو! تم لوگوں کا پیٹ بھر گیاہو تو اس غریب کو کچھ کھانے کو دے دو” ۔عجیب فقیروں والے انداز میں بہنوں کو طعنہ دیا گیا۔ چھوٹے بھائی نے اپنی آدھی پی ہوئی بوتل میری جانب بڑھائی جسے میں نے اسی پوزیشن میں جس میں ،میں صوفے پر نیم دراز تھی ،اپنے منہ سے لگا لیا۔اچانک میری نظر ہال کے دروازے پر پڑی جو میری نظروں کے عین سامنے تھا۔ کوئی تھا جو مجھے بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنی جانب تکتا دیکھ کر وہ واپس پلٹ گیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا نہ ہی میں نے ایسی کوئی کوشش کی۔ گھر پہنچ کر جب میں اپنے ہاتھ میں ایک نقلی پلک لیے گھوم رہی تھی تب بڑی بہن نے مجھے بلا کر کہا کہ دولھے میاں کا فون ہے ۔میرے دل میں ایک جلترنگ سی بجی ” اوہ صبر نہ ہوا اب میرے حسن کی تعریف کریں گے” پہلا یہ ہی خیال آیا
    ہیلو جی: میں نے حتی الامکان خود کی آوازمیں دنیا بھر کے سُر ڈالنے کی کوشش کی
    ”جی! یہ آپ اسٹیج پر کیا کر رہی تھیں ۔آپ سے ذرا بھی برداشت نہ ہوا کہ ہم مہمان چلے ہی جاتے ۔ آپ کیا گھر آکر اپنے جوتے اور ہار نہیں اتار سکتی تھیں ۔مجھے کس قدر شرمندگی ہوئی اپنے دوستوں کے سامنے ! اور تو اور میز کے اوپر پیر کون سی دلہن رکھتی ہے؟ آپ اس گھر کی بڑی بہو ہیں ۔یہ طور طریقے بدلنے ہوں گے۔ کیوں کیا آپ نے ایسا؟”
    ایک کے بعد ایک تابڑ توڑ حملوں نے میرا دماغ ماؤف کر دیا تھا۔ ایک ہاتھ میں نقلی پلک ،آنکھیں آنسووں سے لبریز اور دل غم و غصے سے بھرپور ۔۔۔۔ پہلے تو مجھے کوئی جواب نہیں سوجھا پھر دوبارہ پوچھا گیا
    میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ فون کے دوسری طرف وہ تھا جس کے ساتھ میری منگنی ہوئے ابھی گھنٹہ نہیں گزرا تھا۔ میری فطری ضدی طبیعت نے میرے دماغ میں قبضہ جمایا
    میری مرضی! میں ایسی ہی ہوں ۔ آپ کو صحیح لگتا ہے تو ٹھیک ورنہ آکر اپنا جوڑا اور انگوٹھی لے جائیں۔ میں نے چبا چبا کر جواب دیا
    دوسری طرف شاید اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ میں فون بند کر چکی تھی۔ گھر میں سناٹا طاری تھا ۔ امی نے ہمیشہ کی طرح مجھے ڈانٹا مگر میں نے کسی کو صفائی نہیں دی ۔
    رات میں دولھے میاں معذرت کے فون کرتے رہے تاہم میں نے باوجود باجی کی ضد کے بات نہیں کی۔ اگلے دن گھر آکر سوری کہا اور یہ بھی کہ میں اصل میں ڈر گیا تھا کہ میں گھر کا سب سے بڑا بیٹا اور تم سب سے بڑی بہو۔تو مزاج کی یہ غیر سنجیدگی ہمارے رشتے کو کس موڑ پر لائے گی۔میں نے سوری قبول کر لی کیوں کہ ساتھ میں ایک خوب صورت سا پھولوں کا گلدستہ اور کیک بھی لائے تھے۔اور میٹھا میری کمزوری ہے۔
    الحمدللہ ! شادی کو 23 سال گزر چکے ہیں ۔ 17 مئی کو میری منگنی ہوئی تھی ۔ وہ جو حسرت تھی نا کہ میری بہت ساری عیدیاں آئیں وہ تو پوری نہیں ہوئی کیوں کہ عید کے بعد منگنی ہوئی اور 6 ماہ میں شادی ہوگئی تو درمیان میں کوئی عید آئی ہی نہیں ۔آج بھی ہم اس واقعے کو یاد کر کے خوب ہنستے ہیں ۔میں دو خوبصورت بچوں کی ماں ہوں ۔ ان 23 سالوں میں زندگی نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ۔ اچھا وقت بھی اور برا وقت بھی۔اگر محبت اسے کہتے ہیں کہ جب آپ کی دعاؤں میں کوئی آپ سے پہلے ہو تو ہاں مجھے اس دولھے میاں سے محبت ہے دل و جان سے۔ میری زندگی میں رنگ بھرنے والا اور مجھے زندگی جینے والا کوئی اور نہیں یہ ہی وہ شخص ہے ۔اللہ اسے خوش رکھے اور لمبی صحت مند زندگی عطا کرے آمین۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔