کچھ روز قبل ایک چینل پر خبر نظر سے گزری کہ فیصل آباد میں میاں اپنی بیگم کو لینے سسرال گیا تو سسرال والوں نے اس کی خوب تواضع کی۔ یہ تواضع کھانے پینے کی نہیں تھی۔ بلکہ مرمت کی صورت میں تھی۔ چینل پر اس کی تصویر بھی چل رہی تھی۔ کسی ستم ظریف نے اس کی ویڈیو بنا دی اور اس میں کئی لوگ اس پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کرتے دکھائی دیئےہمیں۔ بیس پچیس کے قریب تمام لوگ خاتون کے رشتہ دار یقینًا نہیں ہوں گے۔ محلے والوں اور راہگیروں نے بھی بہتی کنگا میں ہاتھ دھوئے ہوں گے اور ثواب داریں حاصل کیا ہوگا۔
غالب گمان ہے کہ میاں بیوی میں کسی وجہ سے ناچاقی ہو گئی ہو گی۔ اور بیگم لڑ جھگڑ کر میکے آ گئی ہوگی۔ اب کچھ عرصے بعد میاں کو بیگم کی یاد ستائی ہوگی، اپنی غلطی کا احساس ہوا ہوگا یا پھر گھر والوں نے بھیجا ہونا کہ جا کر بیگم کو لے آئو۔دوسری طرف بیگم نے ایک کی چار لگا کر گھر والوں کو بتائیں ہونی میاں کی زیادتیاں اور پھر ٹپ ٹپ آنسو۔ گھر والے بھرے پڑے ہونے کہ اس ظالم انسان نے ہماری پھول سی بیٹی کا کیا حال کر دیا اور اس کے بعد وہی ہونا تھا جو ہوا۔ یہ خاتون تو میاں سے محبت کرتی تھی جبھی میاں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس کے بغیر ہی اس کی خوب دھلائی کروا دی۔ میاں بیوی کو اپنے مسائل اپنے تک ہی محدود کونے چاہییں اور خود ہی حل کرنا چاہیے۔ دوسروں کو ان میں شامل کرنے کا انجام یہی ہوتا ہے۔ اب کسی کو بیگم سے ملنے جانا ہو تو زرہ اور ہیلمٹ پہن کر جائے اور مناسب تعداد میں اپنے ہمنوائوں کو ساتھ لے جانا مفید ہے۔
کچھ دن پہلے ایسا ہی کچھ واقعہ گوجرانوالا یا اس کے نواح میں پیش آیا کہ جہاں عدالت میں ہی ایک شخص کی سابقہ بیوی اور اس کی ساس نے سر عام اس کی پٹائی کر دی ۔ہم نے یہ دو واقعات درج کیے مگر ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس دنیا کی ہمیں تو سمجھ نہیں آتی۔اس کے عجیب ہی رنگ ہیں۔ہر قانون الٹا، ہر رواج نرالا۔ جو باہر ہونے چاہییں وہ اندر ہیں اور جو اندر ہونے چاہییں ان کے ہاتھ عنان حکومت ہے۔جس کو صرف ستر ڈھانپنے کی اجازت ہے وہ تھری پیس سوٹ میں ملے گا اور جو کل ستر ہے وہ سر عام جسم کی نمائش کرتا پایا جائے گا۔ حقوق اس کے جو استحصال کرے۔ مظلوم کے کوئی حقوق نہیں۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات سرعام ہوئے اور کیمرے کی نظر نے انھیں محفوظ کیا مگر مجال ہے کہ کسی این جی او، کسی سرکاری و نیم سرکاری تنظیم یا کسی سیاسی جماعت پر جوں تک رینگی ہو اور اس نے اس کی مذمت کی ہو۔ خدانخواستہ ایسا واقعہ کسی خاتون کے ساتھ پیش آتا تو این جی اوز تو کیا، یورپ، امریکہ بلکہ اقوام متحدہ تک میں واویلا مچ گیا ہوتا۔
جب سے عورت مرد برابر برابر کی تحریک شروع ہوئی ہے تب سے مرد مظلوم ہے۔اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مرد گھریلو تشدد کا شکار ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی کوئی تنظیم نہیں جو ان کے حقوق کا تحفظ کر پائے۔ عورتوں اور خواتین کے تحفظ کی تنظیمیں آپ کو ہر شہر میں مل جائیں گی ۔ مردوں کی کوئی ایسی تنظیم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ ان کے مسائل کو سمجھ نہیں پاتے اور شادی شدہ کو خود گھر واپس جانا ہوتاہے –
۔سارا مہینہ کام کر کے تنخواہ لا کے بیگم کو دے دیتے اور پھر اپنی ضرورتوں کے لئے ان سے پیسے مانگتے پھرتے۔ اور یہ پیسے بھی انھوں نے اڑانے تھوڑی ہوتے۔گھر میں ہی خرچ کرنے ہوتے۔ گھر میں ملازمہ نہ آئے تو یہ ذمہ داری بھی نبھاتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے چند دوست جن کے ہاتھ میں ذائقہ ہے، انھیں ہی ہم نے اکثر امور خانہ داری میں مشغول پایا ہے۔ جب ہم کالج میں تھے تو ہمارے انگریزی کے استاد محترم کی بیگم بھی وہیں تاریخ پڑھاتی تھیں۔ اللہ دونوں کو خوش رکھے۔ہوتا یوں کہ جب ہمارے استاد محترم ہم سے خوش ہوتے تو ہمیں ایک روپیہ( کبھی ایک روپیہ بھی ہوتا تھا پاکستان میں) کے نوٹ پر اپنے دستخط کر کے دیتے تھے۔ ہم مزید کی فرمائش تو کر نہیں پاتے تھے مگر کوئی اور طالب علم وہ روپیہ جیتنے کے لئے مزید سوال کی فرمایش کرتا تو وہ ہاتھ کھڑا کر دیتے کہ آپ کی میڈم ہمیں روز کا ایک ہی روپیہ دیتی ہے۔ آج کی تنخواہ ہم پہلے ہی خرچ کر چکے ہیں۔
بعض قسمت کے مارے ایسے بھی ہیں کہ جو اچھی خاصی تعلیم کے باوجود بے روزگار ہیں۔ اتفاق سے ان کی بیگم صاحبہ خاتونِ روزگار ہیں اور ان کی آمدن سے ہی گھر چلتا ہے۔ مرد کا کام گھر میں بچوں کو سنبھالنا اور امورِ خانہ داری انجام دینا ہے۔ان کی حالت تو اور بھی نازک ہوتی ہے۔ کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ عورتیں جو کام کرنے کے بعد گھر داری کرتی ہیں، زندگی ان کی بھی ایسی آسان نہیں ہوتی جتنی کہ دور سے دیکھنے والوں کو نظر آتی ہے۔
تشدد کی ایک اور قسم ہمارا خاندانی نظام بھی ہے۔ تاہم یہ اکثر ذہنی تشدد ہوتا ہے مگر کبھی کبھی بات پار پیٹ پر بھی آ جاتی ہے۔ ایک لڑکا جو شادی سے پہلے ایک اچھا بھائی بیٹا ہوتا ہے اپنی شادی کے چند دن بعد ہی خوبئی قسمت سے بہنوں اور والدہ کو ‘رن مرید’ نظر آنے لگتا ہے اور اس کی پچھلی ساری نیکیاں یوں رد ہو جاتی ہیں جیسے شیطان کی عبادت۔ ادھر بیگم سے بھی برداشت نہیں ہوتا کہ میاں اتنے گھنٹے دفتر میں گزارنے کے بعد گھر داخل ہو تو والدہ یا بہن کے پاس کچھ منٹ گزار دے۔وہ الگ سے جلی کٹی سناتی ہے ۔ دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی سمجھوتے پر اور مرد کو کچھ رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتا۔دونوں اپنے اپنے مورچوں میں بیٹھی یہ دیکھ رہی ہوتیں کہ
ادھر جاتا ہے یا دیکھیں ادھر پروانہ آتا ہے
مرد اس ذہنی تشدد سے تنگ آ کر گھر سے باہر بھی وقت بتانے لگتا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر آرام کا مشورہ دے تو وہ گھر کی بجائے دفتر کو ترجیح دیتا ہے۔
سب سے زیادہ لطیفےشادی اور میاں بیوی پر ہی بنے ہیں اور ان میں میاں کو مظلوم پیش کیا جاتا۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ بنانے والا/والے یقینًا کوئی دل جلے ہوں گے جو دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہوں گے۔
اس معاملے میں مردوں کے ظرف کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔گھر میں ان پر جو بھی بیتے،کیسا ہی گھمسان کا رن کیوں نہ پڑا ہو،بیلنا کمر کی زینت بنا ہو یا ناخنوں نے چہرے پر نیل ڈالے ہوں، آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔ ہر بات کا ان کے پاس مدلل جواب ہو گا جبکہ دل میں طوفان مچل رہے ہوں گے۔
آہ نہ کر لبوں کو سی
یہ ‘شادی’ ہے دل لگی نہیں
جنجال شادی شدہ کئی شادیوں کا تجربہ رکھتے ہیں اورہر شادی سے ان کا تجربہ مختلف ہے اپنی ازدواجی زندگی کو اقبال کے شعر کی زمیں میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں
‘بیگم’ سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ شادی اپنی فطرت میں چنگی ہے نہ ماڑی ہے۔