معرکہ ہلواڑہ (حب الوطنی) «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • معرکہ ہلواڑہ (حب الوطنی)

    وہ اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ شادی کے اٹھارہ سال بعد ماں باپ کی جھولی اللہ نے بھری تھی۔ اس کا نام یونس حسن رکھا گیا۔ والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھا اور بہت منتوں مرادوں سے پایا تھا سو اس کی پروش بہت ناز و نعم میں ہوئی۔ اس کےلڑکپن میں ہی پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعرے سن کر وہ جوان ہوا۔
    نوزائیدہ ملک کو اندرونی و بیرونی مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ اپنے ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔اس نے دفاعِ وطن کے لئے پاک فضائیہ منتخب کی۔ اپنی تربیت مکمل کر کے وہ جنگجو پائلٹ بن گیا۔ اب اسے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا مقدس مشن سر انجام دینا تھا۔ اسے اپنے انتخاب پر فخر تھا۔
    تربیت مکمل کرنے کے فوراً بعد اس کی شادی ہو گئی۔ اللہ نے اسے دو بیٹوں سے نوازا۔ چھوٹا بیٹا ابھی محض دو ہفتے کا تھا کہ بھارت نے اپنی ازلی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ بھارتیوں کا خیال تھا کہ پاکستان تر نوالہ ہے اور چند گھنٹے یا چند دنوں میں وہ پاکستان کو دوبارہ بھارت میں ضم کر لیں گے مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھوں نے شیروں کی کچھار میں ہاتھ ڈال دیاہے۔ پوری قوم کے دل غصے سے لبریز تھے۔کیا بڑھے کیا جوان ، کیا فوجی اور کیا عوام سب کا ارادہ تھا کہ بھارت کو وہ سبق سکھانا ہے کہ آئندہ وہ ایسی حرکت کا سوچ بھی نہ سکے۔ یونس کے جذبات بھی اس سے مختلف نہ تھے۔ اسے اپنے بوڑھے والدین، بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچے سب بھول گئے۔اسکے دماغ پر ایک ہی دھن سوا ر تھی کہ دشمن کو سبق سکھانا ہے ۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے جلد موقع ملے اور اللہ نے اس کی سن لی۔ جنگ کے پہلے ہی دن بھارت کے ایک انتہائی اہم ترین فضائی اڈے پر حملہ کرنے والی ٹیم میں اس کا انتخاب ہو گیا۔ وہ اپنی قسمت پر پھولا نہیں سمایا اور اللہ باری تعالٰی کا شکر اداکیا کہ جس نے اس کی خواہش پوری کر دی۔
    شام کے ملگجی اندھیرے میں تین شاہین دشمن کے ایک اہم مرکز پر حملہ کرنے روانہ ہوئے۔ ان کا لیڈر سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی تھا جو دلیریمیں اپنی مثال آپ تھا۔اس کے ساتھی فلائٹ لیفٹننٹ یونس حسن اور فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری تھے۔ ان تینوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ موت کے منہ میں ہاتھ دینے جا رہے ہیں کہ دشمن نہ صرف تعداد میں کئی گنا زیادہ تھا بلکہ اس کے جہاز اور اسلحہ بھی کہیں زیادہ بہتر تھا۔ بظاہر یہ شاہین اور ممولہ کا مقابلہ تھا تبھی تو دشمن کا خیال تھا کہ یہ سر زمین ان کے چند حملوں کی مار ہے۔ تاہم ہواباز پرسکون تھے۔ وہ دشمن کے جدید طیاروں سے مرعوب تھے اور نہ ہی اسلحہ کی زیادتی سے فکرمند ، انھیں تو دشمن کو اس کی ناپاک جسارت کا دندان شکن جواب دینا تھا۔ وہ نیچی پرواز کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں جا گھسے تاہم اندھیرے اور بلیک آئوٹ کے باعث اپنا ہدف نہ ملا۔ انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا مگر ابھی پلٹے نہ تھے کہ ان کے مقابل دشمن کے نصف درجن طیارے آ گئے۔ سیسل چودھری نے لیڈر کو اطلاع دی کہ لیڈر دشمن ہمیں گھیر رہا ہے۔ سرفراز رفیقی نے کمال سکون سے جواب دیا۔’ فکر نہ کرو ہم ان سب کو چن چن کر ماریں گے۔’ ان کی بات نے ان کے ساتھیوں کے حوصلے بلند کر دیئے اور جنگ سے پہلے جو ایک انجانا اعصابی دباو تھا وہ جوش و جذبے میں بدل گیا۔انھوں نے واپسی کا ارادہ ترک کیا اور دشمن سے یہیں دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا کہ مقصدتو دشمن کی قوت کم کرکے اس کو جانی مالی اور بالخصوص نفسیاتی نقصان پہنچانا تھا۔ پاکستانی شاہینوں نے ابھی دو طیارے گرائے تھے کہ دشمن کے مزید مزید آٹھ طیارے اپنے ساتھیوں کی مدد کے لئے آ پہنچے۔ پاکستانیوں کے تین قدیم سیبرز طیاروں کے مقابل دشمن کے درجن سے زائد جدید ترین مگ تھے۔ چند منٹ بعد آسمان بھی حیرت میں تھا کہ سیبرز نے مگز کو آگے لگایا ہوا تھا اور تاک تاک کر نشانہ لے رہے تھے کہ پاکستانی دستے کے لیڈر رفیقی کے جہاز کی گنیں جام ہو گئیں۔ اس موقع پر وہ واپس چلا جاتا تو وہ حق بجانب تھا مگر وہ پاکستانی شاہیں تھا۔اپنے ساتھیوں کو مشکل میں چھوڑنا اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔ یاد رہے کہ لڑائی میں دوسرے پر حملہ کرنے کی نسبت اپنا دفاع کرنا اور جہاز بچانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ وہ سیسل چودھری کے جہاز کے عقب پرآ گیا تا کہ کوئی اس پر بے خبری میں حملہ نہ کر دے اور انھیں ہدایات دینا شروع کر دیں۔ باقی ساتھیوں نے ایک ایک کر کے جہازوں کو نرغے میں لے کر گرانا شروع کر دیا ۔ اسی لڑائی میں لیڈر پیچھے رہ گیا اور دشمن طیاروں کا نشانہ بن گیا۔ دونوں ہوابازوں نے اپنے لیڈر کو شہید ہوتے دیکھا تو وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔انھوں نے پھر دشمن طیاروں کو گھیر گھیر کر گرانا شروع کر دیا۔ نصف درجن سے زیادہ جہازوں کا صفایا کیا۔اسی دوران دشمن کا ایک بم خواجہ یونس کے طیارے کو لگا اور وہ بھی مادرِ وطن پر نثار ہو کر اپنے لیڈرسے جا ملے۔ فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اکیلے ہوئے تو دشمن کو جل دیتے ہوئے واپس آ گئے۔ دشمن سرزمین پاکستانی شہیدوں کے لہو سے سرخ ہوئی۔
    شہیدوں کا لہو رائیگاں نہیں گیا۔ 6 ستمبر کی شام کا یہ معرکہ فضائی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ جہاں سیبرز نے مگ جہازوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور نصف درجن سے زائد طیارے زمین بوس بھی کیے۔ اس سے پاکستان ائیر فورس کا رعب دشمن پر قائم ہو گیا اور رہی سہی کسر اگلے روز چند سیکنڈ میں پانچ طیارے مار کر ایم ایم عالم نے پوری کر دی۔اس کے بعد فضا میں پاکستان کی بالا دستی آخر تک قائم رہی اور پاک فضائیہ نے بری افواج کی بھی بوقت ضرورت مدد کی۔

    ٹیگز: , , , , , , , , , , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔