نہ بھولی جانے والی داستان «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • نہ بھولی جانے والی داستان

    کراچی میں 1938 ء میں نثار مراد کے گھر وحید مراد پیدا ہوئے۔ ان کے والد فلمی صنعت کے نامورڈسٹری بیوٹرتھے ۔وحید مراد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اورمنہ میں سونے کا چمچہ لےکر پیدا ہوئے۔ تاہم اس چیز نے ان کا دماغ خراب نہیں کیا۔ انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور پھر فلم کی صنعت میں بطور پروڈیوسر قدم رکھا۔انھوں نے دو فلمیں پروڈیوس کی اور ان میں انھیں ہیرو کی مقررہ اوقات میں دستیابی کا مسئلہ رہا اور اداکارہ زیبا کے مشورے پرانھوں نے حادثاتی طور پر بطور اداکار قدم رکھا۔”اولاد”میں وہ معاون اداکار کے کردار میں آئے۔”ہیرا اور پتھر” ان کی بطور ہیرو پہلی فلم تھی۔اس کے بعد انھوں نے "ارمان”بنائی اور اس فلم نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس میں وحید مراد اور زیبا کی اداکاری اور احمد رشدی کے نغموں کا بہت ہاتھ تھا۔اس فلم نے پاکستان میں فلم اور ہیرو کا انداز ہی بدل ڈالا۔ فلمیں رومانوی و سماجی اور سبق آموز ہوئیں اور بطور ہیرو راتوں رات وہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ان کا ایک ایک انداز نقل ہوا۔ جو انھوں نے پہنا وہ فیشن بن گیا اور ان کے بالوں کا انداز اتنا مقبول ہوا کہ اس زمانے میں نوجوان وحید مراد کٹ کروانا فخر سمجھتے تھے۔دلیپ کمارکے بعد وحید مراد وہ دوسرے اداکارہیں کہ جن کے بالوں کا انداز ا س قدر نقل ہوا۔ خواتین میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ لیڈی کلر کہلاتے تھے۔وہ خواتین کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ لاہور کے لکشمی چوک میں دیگر اداکاروں کے ساتھ سیلاب زدگان کی چندہ مہم میں شریک ہوئےتو ایک خوبرو لڑکی ہجوم کو چیرتی ہوئی آئی ،نگاہیں ان کے چہرے پر گاڑھ دیں۔چند لمحوں بعد اس نے اپنے گلے سے طلائی ہار اتار کر وحیدمراد کے ہاتھ میںت ھما دیا (بشکریہ دنیا ٹی وی)۔اس کے علاوہ لوگ انھیں چالکیٹی ہیرو بھی کہتے تھے۔ و حید مراد پاکستان فلم انڈسڑی کے واحد "آئیکون” ہیں۔ان کو پاکستانی فلمی صنعت میں وہی مقام اور شہرت نصیب ہوئی جو ماضی میں بھارت میں دلیپ کمار اور راجیش کھنہ نے کمائی اور جو حال میں شاہ رخ خان کا مقدر ہے۔ وحید مراد ایک ایسے سپر سٹار تھے کہ جو شہنشاہِ رومانس بہونے کے ساتھ، درد کی عکاسی و جذبات کے اظہا ر کے ماہر تھے  سو لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کافن قدرت نے اان میں رکھ دیا تھا۔

    اگلےڈیڑھ عشرے تک وحید مراد ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں دیتے رہے ۔ ان کی فلموں کی نمایاں خوبی موسیقی اور گانے تھے۔ گانوں کی شاعری، موسیقی اور گلوکار کا چنائو نہایت باریک بینی سے کیا جاتا تھا سو گانے بہت ہی اچھے ہوتے تھے اور اس پر وحید مراد کی عکس بندی ان کو چار چاند لگا دیتی تھی۔ وہ گانے کی جزیات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عکس بندی کرواتے تھے ۔ انھوں نے سبھی قابل ذکر گلوکاروں کی آواز میں عکس بندی کروائی مگر احمد رشدی کی آواز ان پر سب سے زیادہ میل کھاتی تھی۔ ا س بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ گانے کی عکس بندی میں ان کا پورے برصغیر میں کوئی ثانی نہیں۔مزید براں ان کی جذباتی، رومانوی اور مزاحیہ اداکاری بھی بہت جاندار تھی۔ وہ ایک قدرتی اداکار تھے اور اداکاری ومبالغہ کے درمیا ن موجود باریک لکیر کو کبھی عبور نہیں کیا۔ایک سو تئیس فلموں تک یہ معیار برقرار رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ۔

    وحید مراد پاکستان کے وہ اولین اداکار ہیں کہ جن کی شہرت بھارت بھی گئی۔ بھارت کے کئی اداکاروں خاص طور پر جتیندر نے وحید مراد کے اسٹائل کی نقل کی۔ وحید مراد کے متعلق دیو آنند نے  کچھ یوں کہا تھا ” وحید مراد ایک اچھوتے اسٹائل کے فنکار ہیں۔ وہ اتنی پرکشش شخصیت کے مالک ہیں کہ جی چاہتا ہے گھنٹوں انھیں دیکھتے رہیں”۔

    ڈاکٹر عادل عمر کا فرمانا ہے اور بالکل بجا ہے کہ وحید مرادکی کامیابی اتفاقی یا حادثاتی نہیں تھی۔ وہ فلم انڈسٹری کے پس منظرسے ہی تعلق رکھتے تھے اور وہ پہلے شخص تھے کہ جنھوں نے فلمی صنعت کو کچھ دینے کا ارادہ کیا اور دیا۔وحید مراد پڑھے لکھے شخص تھے۔ سیٹ پر بھی وہ فارغ وقت میں کتابیں پڑھتےرہتے تھے ۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان میں موسیقی کا بہت ذوق تھا۔ جب کسی گانے کی دھن بنتی تھی اور وہ ان کو ناگوار گزرتی تھی تو وہ اسے برا یا ناپسندیدہ کہنے کی بجائے کتاب پڑھنے لگ جاتے تھے جس سے ان کے ساتھی سمجھ جاتے تھے کہ ابھی کمی بیشی کی گنجائش باقی ہے۔ اس کے علاوہ نظم و ضبط اور وقت کی پابندی بھی ان میں بدرجہء اتم موجود تھی۔علاوہ ازیں تہذیب اور دھیما پن بھی ان کی پہچان تھی۔ جب پنچابی فلموں میں بڑھک اور گنڈاسہ کا دور آیا اور ایسی فلمیں کامیاب ہوئیں تو وحید مراد سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنا لہجہ بلند کریں مگر انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
    اپنے اختتامی دنوں میں وہ اس بات پر افسردہ تھے کہ ان کی ڈگری ان کے پیشے میں استعمال نہیں ہوئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس دنیا سے جانے کے بعد کیسے یاد رکھا جانا پسند کریں گے تو انھوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میری فلم دوراہا کاگانا "بھولی ہوئی ہوں داستان” زندہ رہے تو میرے لئے یہ کافی ہے۔اس وقت چونکہ وہ اپنے زوال کے دور سے گزر رہے تھے اور کافی افسردہ تھے تو یہ جواب ان کی ذہنی کیفیت کاعکاس تھا ۔ تاہم انھیں شاید معلوم نہیں تھا کہ وہ جوکچھ فلمی صنعت کو دے چکے ہیں وہ ان کو کبھی بھی بھولی ہوئی داستان نہیں بننے دے گا۔پاکستان فلمی صنعت کا جب بھی تذکرہ ہو گا وہ وحید مراد کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔وحید مراد کی مشہوری کا عالم دیکھیے کہ اس ملک میں کہ جہاں مرنے کے آدھ گھنٹے بعد مرنے والے کو بھلا دیا جاتا ہے وہ اپنی وفات کے کئی عشروں  کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں دوسری کوئی ایسی شخصیت نہیں جو اس قدر دلعزیزہو۔
    23 نومبر 1983 کو وحید مراد اپنے ابدی سفر پرروانہ ہوئے۔وحید مراد کا دور ِ عروج پاکستان کا بھی دور عروج تھا۔ پاکستان کی ایشیا میں بالخصوص اور عالمی برادری میں بالعموم ایک معروف حیثیت تھی۔ پاکستان امن و امان کا گہوارہ تھا۔ کراچی روشنیوں کا شہر تھا۔ ملک اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے ایک مثال تھا ۔ جب وحید مراد کا زوال آیا تو پاکستان افغانستان کی جنگ میں گھر چکا تھا۔ یہ علاقہ مختلف طاقتوں کی آماجگاہ بن گیا اور وہ دہشت گردی شروع ہوئی کہ جس کی فصل ہم ابھی تک کاٹ رہے ہیں۔ وحید مراد تو اب واپس آنے والے نہیں مگر دعا ہے کہ اللہ پاکستان کے حوالے سے وحید مراد کا دور واپس لے آئے اور ان کے درجات بلند کرے ۔

    ٹیگز: , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔