ہمارے نبی کریم ﷺ کو جب اللہ نے نبوت سے سرفراز کیا تو آپﷺ نے مکہ والوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج موجود ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے۔ سب نے کہا کہ ہاں ہم یقین کریں گے کہ ہم نے آُﷺ کو جھوٹ بولتے کبھی نہیں سنا۔ اس کے بعد آپﷺ نے انھیں اللہ کا پیغام سنایا اور ایک اللہ کو معبود ماننے کی دعوت دی۔
صلح حدیبیہ کا واقعہ کا تذکرہ بھی بہت اہم ہے۔ اس معاہدے میں ایک اہم شرط یہ تھی کہ کوئی مسلمان اگر مسلمانوں کی پناہ میں آ گیا تو وہ کفار کو واپس کر دیا جائے گا۔ معاہدے پر ابھی دستخط نہیں ہوئے تھے۔ محض زبانی رضامندی کا اظہار آپﷺ نے کیا تھا کہ ابوجندل رضی اللہ تعالٰی کفار سے بھاگ کر اور چھپتے چھپاتے وہاں آ گئے۔ ان کی حالت دیکھ کر ہر کوئی بآسانی اندازہ کر سکتا تھا کہ انھیں کن کن صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اس کے باوجود محمد مصطفٰے نے اپنے قول کا پاس رکھا اور انھیں کفار کو واپس کر دیا۔
یہ تو رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور زبان کی پاسداری کے دو واقعات ہیں۔ تاریخ پڑھتے جائیں اور جھومتے جائیں۔ ایک مرتبہ نبوت سے بھی قبل کسی تاجر سے اس کے آنے تک وہاں رکنے کا معاملہ کیا تو تین دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ یہاں تک کہ وہ واپس آیا اور معذرت کی کہ میں بھول گیا تھا۔
دیانت داری کا تزکرہ کیا جائےتو بہترین مثال ہمیں ہجرت کے موقع پر نظرآتی ہے کہ وہ لوگ کہ جو آپﷺ کی جان کے درپے تھے انھوں نے ہی اپنی امانتیں آپﷺ کے پاس رکھوائی ہوئی تھیں۔ ادھر امین ﷺ کو اس کا اتنا خیال کہ ساری امانتیں اپنے چچازاد بھائی اور شیرِ خداحضرت علی رضی اللہ تعالٰی کے سپرد کر کے آئے کہ انھیں ان کے مالکوں تک پہنچا کر ہجرت کر آنا۔
امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ محض لین دن تک محدود نہیں۔ بلکہ اپنی صلاحیتوں کا درست اور مکمل استعمال بھی امانت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حجہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ کیا میں ﷺنے تمھیں اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا؟ تما صحابہ نے جواب دیا۔بے شک آپﷺ نے اللہ کا پیغام ہمیں پورا پورا پہنچا دیا۔ اس پر آپﷺ نے اللہ کو گواہ بنایا۔ہمارے نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر ان اصولوں پر عمل کیا تو انھیں ان کے دشمن ‘صادق’ اور ‘امین’ پکارنے لگے۔ یہ آپﷺ کے دشمنوں کا آپﷺ کو بہترین خراجِ تحسین ہے اور ہم بے عمل مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز۔
آج کل ہمارے سیاستدان اور میڈیا والوں نے ان الفاظ کو مذاق بنا دیا ہے۔ ہمارے سیاستدان جو الیکشن کے دوران لوگوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور کسی اسمبلی کی سیٹ ملنے کے بعد عوام کو سالوں شکل نہیں دکھاتے۔ وعدے پورے کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ یاد دہانی پر نئی تاریخ دے دیتے ہیں۔ جو اپنے معاہدوں اس لئے کرتے ہیں کہ ان سے پھر جائیں اور کوئی یاد دلائے تو کہتے ہیں کہ معاہدہ ہی تو تھا کوئی قرآن و حدیث تو نہیں تھی۔ ادھر ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ قریب قریب سبھی کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ چند سال میں ان کے کاروبار کئی گنا ہو جاتے ہیں لیکن ٹیکس ان کا کسی سرکاری ملازم سے بھی کم ہوتا ہے۔ جو اپنے ہم وطنوں کو دوسرے ممالک کوبیچ دیتے ہیں۔ سالوں اسمبلیوں میں شکل نہیں دکھاتے اور ٹی اے ڈی اے اور تمام الائنس باقاعدگی سے لیتے ہیں۔ جو سرکاری خرچوں پر اپنےعلاوہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو سیریں کرواتے ہیں۔ جن پر ان کی پارٹیوں کے لوگ اعتراض کرتے ہیں۔جو ہر منصوبے سے اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں اور جن کی پوشیدہ جائیدادوں ، بیگمات اور اولادوں کا عوام کو ٹھیک سے علم نہیں۔ جو عوام کی خدمت کا دعوٰی کرکے سیٹیں اور وزارتیں پاتے ہیں اور اس کے بعد اسی عوام کے ٹیکسوں کی دولت سے اپنی عیاشیاں کرتے ہیں۔ وہ ایک گوشوارہ جمع کروا کے اپنے عام کو سرِ عام اور دھڑلے سے ‘صادق’ اور ‘امین’ کہتے ہیں۔ وہ گوشوارہ بھی کس طرح پر کیا جاتا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ساری جائیدادیں رقمیں اپنے گھر والوں کے نام کرو اور ان کے مقروض ہو جائو۔
اگر یہ صادق ہیں تو اپنے بیانات سے کیوں پھرتے ہیں۔ اور اگر امین ہیں تو جو پاکستان قریب سو ارب ڈالر کا مقروض ہے وہ پیسہ کہاں لگا ہے؟ کون سا صوبہ، ڈویژن، ضلع،شہر یا گائوں ترقی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مدینہ جیسا کوئی گائوں کوئی محلہ ہی دکھا دے کوئی۔ جب یہ ممکن نہیں ہے جو کہ واقعی ناممکن ہے تو اتنے خوبصورت القابات کی توہین بھی نہیں کرنی چاہیے۔جس نے گوشوارہ ٹھیک جمع کروایا اور تمام معلومات درست درج کیں اور جس پر بدعنوانی کا کوئی کیس نہیں بنا وہ یقیناً محترم ہے مگر محض اس بنا پر وہ ‘صادق’ اور ‘امین’ نہیں ہو جاتا۔ ‘صادق’ اور ‘امین’ وہ معیار ہے کہ جس تک پہنچنے میں عمریں بیت جاتی ہیں اور بڑے بڑے ولی اللہ اس کا دعوٰی نہیں کر سکتے کجا کہ ہم جیسے دنیا دار اتنا بڑا بوجھ خود پر لاد لیں۔ بقول مظفر وارثی صاحب
ہزاروں لوگ ایسے محترم ہیں
جو صاحبِ خامہ و علم ہیں
وہ خاکِ پا بھی نہیں نبی ﷺ کی
سب اکٹھے بھی اس سے کم ہیں
ایسے اچھے اور قابل لوگوں کو راست باز، راست گو اور دیانت دار اور ایمان دار کہہ کر پکاراجائے یا کوئی بھی اور الفاظ جو اہلِ زبان مناسب سمجھیں۔
ایسا بالکل ممکن ہے کہ یہ سب نادانستہ ہو اور ہمارے سیاست دان اور میڈیا اینکر آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی وجہ سے اسے استعمال کرتے ہوں مگر آئین میں تو اقتدارِ اعلٰی بھی اللہ تعالٰی کا ہے۔ اس کا بھی تو نفاذ نظر نہیں آتا۔سو اگر میں ترمیم کر دی جائے یا ایسا کچھ کہ یہ عام الفاط نہ رہیں تو یہ بہت بہتر ہو گا۔ان الفاظ کے ایسے کھلےعام استعمال سے ان کی توقیر گھٹ جائے گی اور ان کا تاثر غیر مسلموں اور آزاد خیال مسلموں پر خوانخواستہ ایسا ابھرے گا جیسا کہ مسلمان سے دہشت گرد۔جیسا کہ اسلام پر عمل کرنے والا بنیاد پرست۔ ابھی سے ہمیں اس کے تدارک کی تدبیر کرنی چاہیےاور سیاست دانوں اور میڈیا والوں کے ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: نومبر 30th, 2017
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: 2
ابنِ ریاض
بتاریخ دسمبر 10th, 2017
بوقت 6:49 صبح:
جزاک اللہ آپ کی بات سے مکمل متفق ہوں