وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں  «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں 

    2006 کی بات ہے۔ جامعہ اردو میں ہماری نئی نئی نوکری لگی تھی۔ پہلے دن ہم  گئے تو ایک اور لڑکے سے بھی ملاقات ہوئی ۔ اپنا نام اس نے زین العابدین  بتایا اور اس کابھی پہلاہی دن تھا۔ چند دن بعد ایک اور لڑکا بھی ہمارے ساتھ آ شامل ہوا۔ اس کا  نام اسد علی صدیقی تھا۔ہم تینوں ایک ہی شعبے میں تھے اور ساتھ ساتھ ہی ہم تینوں نے نوکری کا آغاز کیا تھا تو ہماری جلد ہی دوستی بھی ہو گئی۔

    ہماری گھر والے بھی تب لاہور تھے اور ہم اپنی پھو پھی کے پاس رہتے تھے۔ زین ملتان سے آیا تھا اوراسد کراچی سے سو وہ بھی یہاں اکیلے ہی تھے۔ سو ہمارا زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزرنے لگا۔پھر ہمارے ساتھ شبیر صاحب اور مہر علی بھی شامل ہو گئے۔  شبیر صاحب عمر اور تجربے میں ہم سے زیادہ تھےسو ہم نے انھیں اپنا گرو مان لیا۔ ہم لوگ لیکچر کے علاوہ اکٹھے ہی ہوتے تھے۔اورجو کسی ایک کوکوئی انتظامی کام ملتا تو وہ سب مل کر کرتے تھے۔ اس طرح کام جلدی ہو جاتا اور ہماری نیک نامی الگ۔اسلام آباد میں جامعہ اردو کا کیمپس بھی زیادہ پرانا نہیں تھا۔ کیمپس کیا تھا ایک سرکاری عمارت کرائے پر لی گئی تھی۔  ملازمیں کی تعداد بھی کم تھی۔ ہمارے شعے میں ہمارے علاوہ اتنے ہی اساتذہ مزید تھے اور  ان کے علاوہ صدرِ شعبہ تھے۔ غیر تدریسی ملازمین اس کے علاوہ تھے۔

    ہماری جامعہ اردو میں شمولیت کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان انجنئرنگ کونسل کی منظوری کا معاملہ اٹھا۔ طلبہ کو داخلہ اس بنیاد پر ددیا گیا تھا کہ ان کو پاکستان انجنئرنگ کونسل سے منظوری کروائی جائےگی مگر اب تک ایسا نہیں ہوا تھا اور اختتامی جماعتوں کے طلبا اس کے متعلق مضطرب تھے۔ یہ کام پوری جامعہ کا بالعموم اور انجنئرنگ شعبے کا بالخصوص تھا اور اس میں بھی اہم ترین کام ہم دوستوں کو ہی دیئے  گئے۔ان دنوں ہم رات گئے تک اکٹھے رہتے تھے اور کھانا کھا کر واپسی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی سب فارغہوئے تو کبھی شکر پڑیاں چلدیئے تو کبھی راول ڈیم اور کبھی سیور کھانے چلے گئے تو کبھی دفتر میں منگوا لیا۔اسکے علاوہ بھی کسی کے ذمے کبھی چاٹ ڈال دی گئی اورکبھی سموسے اور چائے تو چلتی ہی رہتی تھی۔ انجنئرنگ کونسل والے کام میں بھی ہم اللہ کے کرم سے سرخ رو ہوئے۔ اس میں بنیادی کردار شبیر صاحب اور اسد علی کا ہی تھا۔ یہ ا ڑھائی برس اگر میں اپنی زندگی کا بہترین دور قرار دوں تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ زندگی دوستوں سے ہوتی ہے اور جیسے دوست مجھے ملے یہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتے ہین اور یوں بھی نوکری میں تو لوگ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ تو ایسے میں  مخلص دوستوں کا مل جانا تعمتِ  غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتے۔

    ماسٹرز کرنے کے بعدجب جامعہ اردو مین میری ترقی نہ ہوئی تو میں کامسیٹس کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ شبیر صاحب لاہور چلے گئے۔زین العابدین کو ملتان میں نوکری مل گئی اور یوں ہمارا گروپ بکھر  گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد مہر علی بھی بیرون ملک چلا گیا اور اسد علی ہی رہ گیا۔

    اس گیا۔سانولی رنگت، درمیانی قد۔ دلکش نقوش اور عینک کے پیچھے سے جھانکتی شرارتی ذہین آنکھیں۔ یہ تھا اسد۔۔ کم گو تھا مگرمخلص اور دوسروں کا بھلاسوچنے والا۔ اسلام آباد سے ہی اس نے ماسٹرز کیا اور اب پی ایج ڈی کر رہا تھا۔ سندھ  کی ڈگری کے متعلق ہمارےہاں عام رائے یہی ہے کہ ان لوگوں کو زیادہ نہیں آتا اور بس ایسے ہی ڈگری لے لیتے ہیں مگر اسد اس  کلیے سے مستثنٰی تھا۔ بہت ہی با صلاحیت اور ذہین تھا بلکہ ہم نے ملکر جو دو پیپر لکھے اس مین اصل کمال اسی کا تھا۔ طلبا اس کے لیکچر  سے مطمئن  ہوکے نکلتے  تھے ۔ ہماری طرح وقت ضائع نہیں کرتا تھا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وقت اسکے پاس کم ہے سو کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا۔ این ٹی ایس اوردوسرے اداروں کو سوال بنا کر دیتا تھا اور اس سے کچھ رقم کمالیتا تھا۔اس کے علاوہ اخلاق میں بھی وہ بلند  مقام پر تھا۔ گیارہ  بارہ  سال میں ہماری تو تکرار  نہیں ہوئی اور  نہ ہی اسے کسی دوسرے کے ساتھ  بد تمیزی کرتے دیکھا۔

    اسکے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا۔ بڑا بھائی کاروبار کرتا تھا سندھ میں ہی۔ ہماری اردو یونیورسٹی میں نوکری کے دوران ہی اسدکا ایک بھائی بیماری سے وفات پا گیا تھا۔

    میری شادی میں اس کا بڑا ہاتھ تھا کہ اس نے ہی رشتہ کا بتایا تھا اور پھر میں نے گھر بات کی اور رشتہ چلا۔ میری شادی کے سال بعد اس نے بھی شادی کر لی۔ شادی کے بعد جب وہ بیگم کو اسلام آباد لے کر آیا تو میرے کرائےوالے گھر کے پاس ہی گھر لے لیا۔ یوں ہم دوسرے اداروں میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ہرروز مل لیتے،اس کی شادی کے فوراً بعد اوپر نیچے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ان سے وہ بے حد پیار کرتا تھا۔ جب ہمارا گھر بنا اور ہم اس نے اس میں رہائش رکھی تو سامان رکھوانے بھی ہمارے ساتھ آیا۔ اس کے کچھ ہی ماہ بعد میرے سعودی عرب میں نوکری لگ گئی اور میں پاکستان سے سعودی عرب منتقل ہو گیا۔اب ہماری ملاقات میرے پاکستان آنےپرہی ہوتی تھی۔ کبھی میں اس کے گھر چلا جاتااورکبھی اردو یونیورسٹی میں ملنے کا پروگرام بنا لیتے ہم لوگ- گذشتہ برس اس نے بی 17 میں ایک پلاٹ لیا اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ملکر اس پر اپنا گھر تعمیر کر لیا۔ پھر اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو بھی سندھ سے اسلام آباد بلوا لیا۔ بڑا بھائی ابھی وہیں ہے جو  کاروبار کو ٹھکانے لگانے تک وہیں رہنا چاہتا ہے۔ باقی سب اسدکےساتھ تھے۔ ان سب کا خرچہ وہی برداشت کرتا تھا۔

    اس مرتبہ ہماری مختصر سی دو ملاقاتیں ہوئیں۔ میں اپنےسسرال تھا اور اسے فون کیا کہ  آج تمھاری طرف آئوں گا مگر دوپہرکے بعد۔  ہم لوگ عصر کے بھی بعد گئے ۔اس نے اس دوران کئی فون کیے اور جلد آنے پر اصرار کرتا رہا۔ میں ہنستارہا کہ بھائی سسرال ہوں اب ان کی اجازت کے بغیر کیسے نکل سکتا ہوں۔ گھنٹا ڈیڑھ اس کے ساتھ رہے۔ اس نے نیا گھر دکھایا اور مجھے بھی کہاکہ یہیں پلاٹ لے لو۔ میں نے کہا کہ کوئی ڈھونڈ دو مناسب سی قیمت میں۔ اسدنے حامی بھر لی مگر وعدہ وفا ہی نہیں کر پایا۔ دوسری اور آخری ملاقات عید کے روز ہوئی۔ہم آدھا دن گزار کر سسرال گئے تو وہ وہاں موجود تھا۔معلوم ہوا کہ اس نے میرے سسرال والوں سے کہہ کر ہی قربانی میں حصہ ڈالا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پھر مجھے کہاکہ جاتے ہوئے میرا گوشت دیتے جائو گے کہ مجھے اسکے گھر کے قریب سے گزرنا تھا۔میں نے کہاکہ اگر بن گیا تو دے جائوں گا۔اس نے مصافحہ کیا اور چلا گیا۔ اس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ اپنےدوست اپنے بھائی کوآخری مرتبہ دیکھ بیٹھا ہوں اور اب کبھی وہ دوست وہ چہرہ مجھے دوبارہ نہیں ملنا۔اس نے بی 17 میں اپنا گھر بہت چاہ سے بنوایا تھا مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا ابدی گھر بھی وہیں بننے والا ہے۔   پچھلے دنوں ہی اللہ نے اسے بیٹےسے نوازا تھا مگر اس کی خوشیاں اس کے نصیب میں ہی نہیں تھیں۔ کل اسد لیکچر لے کر گھرآیا۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک اس کی  طبیعت خراب ہوئی۔ گھر والے ہسپتال لے کر گئے مگر وہ جانبر نہ ہو سکا ۔سانسوں کی ڈورکیا ٹوٹی  ‘ ساڑھے گیارہ سال کا ساتھ خواب ہو گیا۔ایک دوست کہ جس کے لئے میں ابنِ ریاض نہیں تھا عمران اعوان تھا اپنی  عمر  کا سفر اختتام پذیر کر کے   راہی سفرعدم ہو گیا۔ میرا دوست میرا بھائی آج بعد دوپہر بی 17 کے قبرستان میں آسودہء خاک ہو گیا۔

    کل نفس ڈائقہ الموت ۔ موت ایک  حقیقت ہے اور اس سے کسی کو مفر نہیں مگر بعض اموات ایسی ہوتی ہیں کہ جو دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔  دماغ  قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے مگر قبول کیے بنا چارہ ہی نہیں ہوتا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ہماری ہے اور معمول پر آنے میں کچھ وقت درکار ہے۔ میرے بھائی میرے دوست کے لئے دعائے خیر و  مغفرت ضرور کیجیے گا۔

    ابنِ انشاء نے جو لکھا شاید ہمارے لئے ہی لکھا۔ ابنِ انشاء کے ایک دوست 20 دسمبر 1958 میں 30 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ اپنی زندگی میں انشاء جی نے ایک ہی مرثیہ لکھا جو کہ صحافی محمد اختر کے لئے تھا۔اسد بھی کراچی کا ہی تھا اور کل 20دسمبر نہیں تھی مگر 21 تو تھی۔
    اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر ٹھانی ہے
    یہ بارش ،کیچڑ ، سرد ہوا اور راہ کٹھن انجانی ہے
    اے دور نگر کے بنجارے گر چھوڑ کے ایسا جا نا تھا
    کیوں چاہ کی راہ دکھانی تھی کیو ں ُپیار کا ہاتھ بڑھانا تھا

    ہے دنیا کے ہنگاموں میں رنگینی بھی رعنائی بھی
    ہر چیز یہا ں کی پیاری ہے محرومی بھی رسوائی بھی

    سب لوگ یہا ں پر قسمت کے بے طور تھپیڑے سنتے ہیں
    پر جیتے ہیں ا ور جینے کی آ س سے چمٹتے رہتے ہیں

    ا ور تو تو ایک کھلاڑی تھا کیوں کھیل ہی سے منہ موڑ لیا
    کیوں جان کی بازی ہار گیا کیوں عمر کا رشتہ توڑ لیا

    گو جانے کے مشتاق یہا ں سے ہمم جیسے لاکھ بچارے ہوں
    وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں

     

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    2 تبصرے برائے “وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں ”


    1. ابیہا مقبول
      بتاریخ دسمبر 27th, 2017
      بوقت 6:31 شام

      گھر،بیوی،بچے،دوست،یار سب ملیں۔خوب مہمان نوازی ہو ان کی اللہ پاک ان کی قبر کو کشادہ کر دیں روشنیوں سے بھر دیں۔آپ کی یہ تحریر ان کے حق میں گواہی ہے۔آگے کی تمام منازل آسان ہوں۔آمین،ثم آمین۔۔
      آپ نے میرے رشتے پوسٹ پرجب بتایا تو تبھی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیا تھے آپ کے لیے۔۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں۔
      سانسوں کی ڈورکیا ٹوٹی ‘ ساڑھے گیارہ سال کا ساتھ خواب ہو گیا۔
      ایک دوست کہ جس کے لئے میں ابنِ ریاض نہیں تھا عمران اعوان تھا۔
      میرا دوست میرا بھائی ۔بعض اموات ایسی ہوتی ہیں کہ جو دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
      وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں۔ سر آج اتفاقاََ یہ تحریر سامنے آ گئی اور اس کو پڑھ کراپنی اک خوبصورت دوست بھی ذہن میں آگئی جو اب ساتھ نہیں ہے۔میری دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ خوبصورت من زیادہ دیر زمین پر نہیں رہتے اوپر ان کی ضرورت ہوتی ہے وہ جلد چلے جاتے ہیں،سو اب جب بھی کوئی پیارا ،من کا سچا جاتا ہے تو غم اپنی جگہ لیکن یہ سوچ کر اک گونہ اطمینان رہتا ہے کہ اپنے خالق کے پاس پہنچ گئے ہیں یقیناََ بہتر معاملہ ہو گا۔۔
      اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ رکھیں اور آپ کو ان کے لواحقین کو صبرِجمیل عطا کریں آمین۔۔


    2. ابنِ ریاض
      بتاریخ دسمبر 28th, 2017
      بوقت 4:31 شام

      بس اللہ کے حکم کے آگے کس کی چلتی ہے۔۔۔۔اللہ درجات بلند کرے اور بالکل ٹھیک کہا کہ اچھے لوگ واقعی کم عمری میں ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔