آج کل فیس بک پرکچھ ایسی پوسٹس آ رہی ہیں کہ جن میں بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں بچوں کی شادی جلدی اور چھوٹی عمر میں کر دینی چاہیے۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو معاشرہ بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارےہاں شادی مشکل ہے۔ جہیزاور دیگر غیر اسلامی و غیر ضروری رسموں نے اس کو مشکل تر کر دیا ہے۔ اس کے برعکس غیر ازدواجی تعلقات قائم رکھنا کہیں آسان ہے۔ گویاکہ ہم لوگ خود ہی گناہ کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ہمیں یقیناً اس طرزِعمل کو تبدیل کرنا پڑے گا اگر ہمیں اپنے مستقبل کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تا ہم جلد اور کم عمری میں شادی اس کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل میں اضافہ ہو گا۔
اس کے حق میں دلیل دینے والے آپﷺ کی حضرت عائشہ سے شادی کی دلیل دیتے ہیں۔ دلیل بالکل بجا مگر یہ بھول جایا جاتا ہے کہ وہ شادی کس مقصدکے لئے ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی نجی زندگی بھی سب کے سامنے آ جائے کیونکہ وہ بھی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اور اس کے لئے ایک نوجوان لڑکی درکار تھی کہ جس کا حافظہ بہت اچھا ہو اور اس کا نتیجہ بھی سامنے کہ خواتین میں سب سےزیادہ احادیث حضرت عائشہ سے مروی ہیں۔ اگر نفسانی خواہشات کی تکمیل ہوتا تو قریب اسی فیصد شادیاں آپﷺ نے بیوائوں سے نہ کی ہوتیں اور پہلی ہی شادی پچیس برس کی عمر میں چالیس سال کی بیوہ سے نہ کرتے۔
وقت سے پہلے شادی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے اور کامیابی کی نسبت اس میں ناکامی کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ شادی محض جسم کی تسکین کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ اسلام نے اسی لئے شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں کی بلکہ کہا کہ جب وہ شادی کے قابل ہو جائیں تو دیر نہ کرو۔ شادی کے قابل سے مطلب صرف جسمانی نہیں بلکہ دماغی طور پر بھی وہ اس قابل ہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کر سکیں۔ معاشی طور پر بھی وہ اس قابل ہوں کہ اپنی اور زوجہ کی ذمہ داریاں اٹھانے میں خود کفیل ہو۔ نہ کہ گھر کے موجودہ سربراہ پر مزید بوجھ ڈال دینے کا باعث بنے۔ ہمارے آباء و اجداد میں بچوں کی شادیاں پندرہ بیس سال کی عمر میں شادی ہو جاتی تھی مگر اس میں ایک اہم بات ہم بھول رہے ہیں کہ گزرے دنوں میں اس عمر میں عموماً لڑکے لڑکیاں گھر سنبھال لیتے تھے۔ دس بارہ سال کی لڑکیاں کھانا پکانے، صفائی ستھرائی، کشیدہ کاری اور دیگر کاموں الغرض گھرداری میں ماہر ہوتی تھیں۔ جبکہ لڑکوں کو میٹرک کے بعد بآسانی نوکری مل جاتی تھی اور جو میٹرک تک نہیں پہیچ پاتے تھے وہ اپنے خاندانی کاموں مثلاً کھیتی باڑی، مویشی چرانا یا دوکان کو سنبھال لیتا تھا۔ یوں وہ معاشی طور پر خود مختار ہو جاتا تھا اور مناسب سا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کر دی جاتی تھی۔
ہمارے معاشرے میں شادی محض میاں بیوی کا تعلق نہیں ہوتا یہ تو نئے خاندان سے رشتہ جوڑنا ہوتا ہے ۔اب اگر دیکھیں تو لڑکیاں تو گھر داری سیکھتی ہی بی اے ، ایم اے کرنے کے بعد ہیں۔ سولہ اٹھارہ سال کی عمر میں لڑکیاں اگر بیاہ دیں گے تو کیا وہ گھر سنبھال پائیں گی؟ انیس بیس سال کی عمر میں لڑکیوں کا بچپنا بھی ختم نہیں ہوتا۔ بصورتِ شادی کیا اس عمر میں لڑکیاں ساس سسر، نند دیوروں اور دیگر لوگوں سے انکےمقام و مرتبے کے مطابق برتاؤ کر پائیں گی۔ ہمارےہاں لڑائی کی وجہ اکثر میاں بیوی نہیں بلکہ ان کے خاندان ہوتے ہیں۔ سو اگر لڑکی سمجھدار نہ ہو تو گھر بننے سے زیادہ بگڑنے کا احتمال ہے ۔ادھر لڑکوں کا بھی یہی حال ہے۔ پچیس سے تیس سال کی عمر میں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ پرانے زمانے میں یہ کام اٹھارہ بیس برس کی عمر میں بلکہ اس سے بھی پہلے ہو جاتا تھا۔ محمد بن قاسم کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ سترہ برس کی عمر میں سندھ فتح کر چکے تھے۔ اب تو آرمی میں جانے کے لئے بھی ایف اے لازم اور وہ اٹھارہ سال سے پہلے خال خال ہی ہوتا ہے۔اگر لڑکوں کی شادی اس کے برسرِ روزگار ہونے سے پہلے کر دی جائے گی تو اس سے گھر کا معاشی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ نیز جو شخص دوسروں پر منحصر ہو،وہ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتا تو اپنے بیوی بچوں کے حقوق کا نگہبان کیا خاک بنے گا؟ اس تناظر میں لڑکیوں کے لئےشادی کی عمر قریب بائیس سے پچیس سال اور لڑکوں کی ستائیس سے بتیس سال ہونی چاہیے۔
اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ دور میں فتنے بہت ہیں۔ بدی کے راستے بے تحاشہ اور آسان ہیں۔ٹی وی انٹرنیٹ نے بچوں کو وقت سے پہلے جوان کر دیا ہے۔ انسان کے لئے اپنے نفس پر قابو رکھنا آسان نہیں۔ اس لئے نو عمری میں بچوں کے پھسل جانے کااندیشہ بہرحال رہتا ہے اور یقیناًکچھ لڑکے/لڑکیاں راہِ راست سے بھٹک بھی جاتے ہیں۔تاہم ان کی غلطیوں کا خمیازہ ان لوگوں کو زیادہ بھگتنا پڑتا ہے جو بے قصورہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈرون یا خود کش حملوں کا نشانہ معصوم لوگ زیادہ بنتے ہیں۔
سڑکوں پرروزانہ ہزاروں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو کیا لوگ سڑکوں پر سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بجلی ہر سال کئی جانیں لیتی ہے تو کیا اس کا استعمال ترک کر دیا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اپنے متعلقین کو احتیاط کا کہا جاتا ہے اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کو اختیار کیا جاتا ہے۔ موجودہ دورمیں والدین کو بچوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کرنی چاہیے۔ اکثر والدین بچوں کی تربیت فرسودہ طریقوں پر کر رہے ہیں کہ جن میں کہا جاتا تھا کہ بچوں کو سونے کا نوالہ کھلاؤ مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔ ہمارے ہاں سونے کا نوالہ کھلایا جائے یا نہ جائے مگر دوسری شرط اکثر و بیشتر پوری کر دی جاتی ہے۔ موجودہ دور کا نوجوان تین چار دہائی قبل کے نوجوان سے بہت مختلف ہے۔ وہ زیادہ متجسس اور عملی ہے۔ باتوں سے نہیں بہلتا۔ دلائل سے قائل ہوتا ہے۔ہمارے زمانے میں بچے والدین واساتذہ کے سامنے لب نہیں کھولتے تھے اگرچہ بڑے غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ ڈر جاتے تھے اور بات تسلیم کر لیتے تھے مگر آج کا نوجوان ڈرتا نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے اور ٹھوس دلائل سے ہی قائل ہوتا ہے سو تربیت کے پرانے طریقے بھی کارگر نہیں۔ اگر والدین سختی کریں گے تو اولاد فرار کے راستے ڈھونڈے گی اور اب تو فرار کے راستوں کی کوئی کمی نہیں۔ انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن کو آپ گھر سے شاید نکال لیں مگر معاشرے سے نہیں نکال سکتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گھر سے بھی نہیں نکال سکتے۔ بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں سو اب اولاد سے دوستی کرنی چاہیے۔ان سے ایسا تعلق بنائیں کہ وہ اپنے والدین کو اپنا بہترین دوست سمجھیں اور ہر وہ راز و نیاز ان سے کہیں اور انھی سے مشورہ مانگیں۔ کم عمری کی شادی غلط پر مزید غلط ہے اور دو غلط مل کر کبھی ایک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: نومبر 30th, 2017
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: 2