میں بوڑھی بنجر آنکھوں کے ساتھ جوان تھی جن میں اب خوابوں کی فصل نہیں اگتی تھی اور وہ ہمیشہ کہتا تھا:
"آنکھیں بوڑھی نہیں یونی چاہیے، وجود چاہے بوسیدہ کیوں نہ ہو جائے”
وہ سچ کہتا تھا کیوں کہ اس کے خواب حقیقت کا رستہ پا لیتے تھے جب کہ میرے ہر خواب نے مجھے دشت الم میں صدیوں تھکایا تھا، رلایا تھا۔
وہ اب بھی میرے سامنے بیٹھا یہی کہہ رہا تھا:
"دیکھو! انسان کو روشن خواب دیکھتے رہنے چاہیے ورنہ انسان اندھیروں کے گردابوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے”-
"میری آنکھیں تو خوابوں نے ہی اندھیری کی ہیں۔”میں دھیرے سے بولی ۔
"نہیں تم نے خود کو خود شکست خوردہ کیا ہے، ہر خواب اپنی تعبیر کا رستہ خود ہی ڈھونڈ لیتا ہے؛ لیکن تم نے کبھی تعبیر کا گمان ہی نہیں کیا! "
"گمان!میرے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، زہن میں خیالوں کے جھکڑ چلنے لگے۔
"گمان”؟
"ہاں ساری بات گمان کی ہی تو ہے!”وہ دوبارہ گویا ہوا۔
"اور اللہ تمہارے لیے ویسا ہی ہے جیسا تم اس کے بارے میں گمان کرتے ہو! "میرے زہن میں جھماکا ہوا۔
"بتاؤ مجھے تم نے کبھی اپنے خوابوں کی تعبیر پا لینے کا گمان کیا؟ کامل گمان؟ جس میں کسی قسم کے شک و بے یقینی کی کوئی آمیزش نہیں ہوتی؟ "
وہ میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے سوال کرنے لگا۔
"نہیں؛ مجھے تو ہمیشہ ایسا لگا کہ میرے خواب کبھی تعبیر کا رستہ نہیں پا سکتے، کبھی نہیں”
"یہیں پر آ کر تمہارے خوابوں کی روشنی تاریکی میں بدل گئی اور تمہاری آنکھیں اندھیری ہو گئیں”۔
اب کی بار وہ بلند آواز سے بولنے لگا۔
"میں اور کیتھی اکھٹے گئے تھے ناں کے ٹو سر کرنے، پر چوٹی تک صرف میں پہنچا تھا، جانتی ہو کیوں ؟کیوں کہ ہمارے پاس اضافی آکسیجن نہیں تھی؛ وہہار گئی، اس نے یہ کہہ دیا کہ اب وہ چوٹی تک نہیں پہنچ سکتی، اب بالکل بھی نہیں؛ لیکن مجھے میرے گمان کی طاقت نے چوٹی تک پہنچا دیا۔”
میرے آنسوؤں میں شدت آتی گئی، میں نے تیزی سے وہیل چیئر آگے بڑھائی اور اسکا گریبان تھام لیا۔
"تم جو ہر شے کے حصول کی بنیاد گمان کو قرار دے رہے ہو، مجھے بتاؤ اگر میں گمان کروں کہ میں اپنے پیروں پر چل سکتی ہوں تو کیا میں چل سکوں گی”؟
میں نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
"yes u can!”
اس نے مسکراتے ہوئے مکمل اطمینان سے کہا۔میں اس کے چہرے پر چھائی طمانیت کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
"اپنی آنکھیں بند کرو”
اس نے مجھے شفقت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
میں نے اپنے ہاتھ اس کے گریبان سے ہٹائے اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
"اللہ کو پکارو تین بار اپنے دل میں، مکمل یقین کے ساتھ کہ تم اسکے سامنے ہو اور وہ تمہیں سن رہا ہے”۔
"اللہ، اللہ، اللہ! میں اسے پکارتی گئی اور میرے پورے وجود میں سکون پھیلتا چلا گیا۔
اللہ تمہیں سن رہا ہے ناں، تم اس کے سامنے ہو ناں سو مکمل یقین کے ساتھ کہو کہ تم چل سکتی ہو! کہ تمہارے سامنے اس وقت وہ ذات ہے جو تمہیں تمہارے پیروں پر چلا سکتی ہے! "
"ہاں میں چل سکتی ہوں کیوں کہ میرا ہاتھ میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے”چند سیکنڈز کے وقفے کے بعد میرے لبوں سے یہ الفاظ ادا ہوئے۔
"بالکل”وہ مسکرایا۔
"اب اٹھو اور چلو! تمہارا ہاتھ اس ہاتھ میں ہے جو قدموں کو ڈگمگانے نہیں دیتا۔”
"اللہ”!۔۔۔میں اٹھنے لگی؛ اور میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔”اللہ”میں نے وہیل چئیر کو پیچھے دھکیلا۔۔۔”اللہ”۔۔میں نے پاؤں اٹھانا چاہا اور وہ اٹھ گیا اور میں چلنے لگی اپنے پاوؤں پر۔۔۔”اللہ! "۔۔میں نے آنکھیں کھولیں اور میرا چہرا آنسوؤں سے تر ہوتا چلا گیا ۔میں خوشی سے چیخنے لگی اور وہ مجھے اپنی میٹھی مسکان سے تکتے ہوئے کہنے لگا:
"دیکھا! ساری بات گمان کی ہی تو ہے! "
"بابا۔۔۔بابا”۔
میں خوشی سے مسلسل بابا کو آوازیں دیے جا رہی تھی۔
"ارے میری بیٹی!”۔انہوں نے مجھے میرے پیروں پر کھڑے دیکھا تو”سبحان اللہ” کا ورد کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور محبت سے مجھے سینے لگا لیا اور میرے ماتھے پر بوسہ دے کر میرے آنسو پونچھے اور ساحر کا ہاتھ تھام کر کہنے لگے:
"آئی ایم پراؤڈ آف یو بیٹا! تم نے کر دکھایا”۔
اور مشہور سائیکاٹرسٹ ساحر آفنندی نے الحمدلله کہنے پر اکتفا کیا کہ اللہ نے انکی لاج رکھی۔
"جانتی ہو بیٹا یہ ساحر صرف تمہارا کالج فیلو کلائمبر دوست ہی نہیں ،بلکہ یو ایس کا مشہور ماہر نفسیات ساحر آفنندی بھی انہی کو کہتے ہیں۔تمہارے بلڈنگ سے گرنے کے بعد ،جب تم اپنے پاوؤں پر چلنے کے قابل نہ رہی تو علاج کے کچھ ہی عرصے بعد ڈاکٹرز نے ہمیں یہ کہی دیا تھا کہ یہ چل سکتی ہے، بات صرف اور صرف قوت ارادی کی ہے، آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں اور ساحر میاں آٹھ سال بعد یو ایس سے پاکستان اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر تمہارا پرپوزل لے کر آیا تھا اور ہم نے اسے تمہاری حالت بتائی تو اس نے کیا کہ وہ کچھ دنوں میں ہی ایک دوست کے طور پر تمہیں ٹھیک کر لے گا۔”
اور میں شدید حیرت سے بابا کی باتیں سنے جا رہی تھی۔
"اور شکر ہے کہ ان آٹھ سالوں میں انہیں یہ نہیں بھولا کہ انکا ایک کلاس فیلو ساحر نام کا بھی تھا ورنہ تو اب بہت مشکل ہو جاتی”-
اب وہ میری حیرت دیکھتے ہوئے دبی دبی ہنسی کے ساتھ بولا۔
"تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا کہ تم سائیکاٹرسٹ بھی ہو”؟۔
میں اپنے غصے والے مخصوص انداز سے بولی۔
"یار اگر میں تمہیں بتا دیتا تو تم نے میری کوئی بات نہیں سننی تھی، یاد ہے ناں تم کالج میں کہا کرتی تھی کہ یی ماہر نفسیات تو خود ہی نفسیاتی مریض ہوا کرتے ہیں۔”
آٹھ سال پرانی یہ اپنی کم عقلی کی بات سن کر میں بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھی۔بابا اور ساحر مجھے ہنستا دیکھ کر نہال ہونے لگے اور میں نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے” الحمداللہ” کہا۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 17th, 2018
زمرہ: اریبہ بلوچ تبصرے: 2
اریبہ
بتاریخ مئی 18th, 2018
بوقت 7:56 صبح:
جزاک اللہ
گل
بتاریخ مئی 21st, 2018
بوقت 2:42 شام:
بہت خوب۔۔۔