ہوش والوں کو خبر کیا «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ہوش والوں کو خبر کیا

        تحریر:  اریبہ بلوچ

    زندگی مجھ سے ملی تھی دسمبر کی طرح اور ابھی میں خود کو سنبھال پایا ہی نہیں تھا کہ دسمبر پھر سے لوٹ آیا ہے اسکی آمد کے  ساتھ ہی من مندر کے تہہ خانوں میں یادوں کی کتابوں کے اوراق پھڑپھڑانے لگے تھےاور لاحاصل محبتوں کی گور پہ چڑھی چادر کے کونے اڑنے لگے تھے!!

    میں دسمبر کی یخ بستہ رات میں جھیل کنارے بیٹھا تھا کہ اندر جو یادوں کے بھانبھڑ اس دسمبر نے جلائے تھے انہیں اسکی برفباری بھی بجھانے سے قاصر تھی!! ..نیلگوں جھیل میں ڈولتا چاند مجھے میری بدرالجمال کی گال میں پڑنے والے ننھے‎ ‎‏ گڑھے میں اپنے ڈولتے دل سا محسوس ہو رہا تھا..رات کے اندھیرے میں جھیل کے پانیوں میں چاندنی کی بہتی روشنیاں اسے اہرام مصر کی سی پراسراریت سے دو چار کر رہی تھی– میں اس جھیل کو ہمیشہ جھیل سیف الملوک کہتا تھا؛ کیونکہ مجھے بھی زندگی یعنی میری بدرالجمال بچھلے دسمبر کی طرح پچھلے دسمبر میں ہی اسی جھیل کنارے ملی تھی..جھیل کنارے ایستادہ بے ثمری اور دور زوال کے کرب جھیلتے وہ اشجار کہ دسمبر نے جنکی رنگین ردائیں و پوشاکیں نوچ کر انہیں بیوگی کا سفید پیراہن پہنا ڈالا تھا اور جن  پر چاندنی بال بکھرائے بین کر رہی تھی!عجیب یاسیت کا منظر پیش کر رہے تھے..فضا کی مانگ بھی سونی تھی کہ دسمبر کی برفباری نے اسکا بھی سیندور دھو ڈالا تھا!..میرے قریب ہی وہ ہرنی تھی کہ جسکی چال کا ایک عالم دیوانہ ہے؛ لیکن پچھلے دسمبر کے بعد سے اسکی چال لڑکھڑا سی گئی تھی- اسکا اور میرا غم ایک جیسا تھا؛ میری زندگی بھی مجھے دسمبر میں ملی اور بچھڑی تھی اور اسکی زندگی بھی..!میں درد ادھیڑنے میں محو تھا کہ کتوں کے بھونکنے  کی آواز آنے لگی؛آواز کا تعاقب کیا تو جھیل پار وہی شکاری اور وہی شکاری کتے تھے کہ جنہوں نے تخلیق کا کرب جھیلنے والی اس ہرنی ماں کی زندگی اسکے قلانچیں بھرتے بچے چیر پھاڑ ڈالے تھے اور مجھے بھی یہ شکاری اس دیو جیسے لگتے تھے جو سیف کو اسکی بدر سے دور کرنے کی چاہ رکھتا ہو لیکن اب کے بار داستان کا انجام میں خود تحریر کروں گا-میرا وجدان کہتا ہے اس بار کے دسمبر میں بھی آج کی چاندنی رات میں میری بدرالجمال اس جھیل کنارے ضرور آئے گی اور پھر دیو کتنے ہی ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہی کیوں نہ آ جائے ،محبت سے طاقتور کوئی ہتھیار نہیں!! لیکن اسکی واپسی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا!.. میں نے ہرنی کی جانب دیکھا وہ وہیں موجود تھی گویا برف کے موسم میں برف کی ہو گئی ہو!،وہ اپنی زندگی کے کھو جانے کے بعد سے ان شکاریوں کو دیکھ کر کبھی نہیں چھپی تھی کیونکہ اسکا زندگی سے خالی وجود اب زندگی سے مفر چاہتا تھا..اسکا اور میرا غم ایک جیسا تھا !!..فرق صرف اتنا تھا کہ میری زندگی اپنی مرضی سے  گئی تھی اور اسکی زندگی شاید ایک حادثے سے!قسمت کے حادثے سے !!آہ….یہ دسمبر صرف دن و رات کی رگوں ریشوں میں ہی رچتا بستا نہیں بلکہ ضبط کے سکندروں کو بھی بسمل کر دیتا ہے۔۔!!جھیل پار موجود برف سے ڈھکے ایک گھر کی بالائی منزل کے کمرے کی بتی رات کے اس سمے تک روشن تھی اور دو گھڑی سی آنکھیں جن میں انتظار کی سوئیاں گردش کر رہی تھیں کھڑکی سے لگی دور اپنی زندگی کی راہ تک رہی تھیں..نظر بے ساختہ دوبارہ ہرنی کی طرف ہو لی …انتظار !ہاں انتظار !اسکی آنکھوں کی پتلیوں کے پیچھے انتظار ابھی بھی سانسیں لیتا تھا..ایک مسلسل لاحاصل انتظار !!میں نے زرا گردن جھکائی ،جھیل کے پانی میں اپنا عکس ٹٹولنا چاہا ،دو زرد رنگ خالی آنکھیں مگر جن میں آہنی سلاخیں ہیں؛ اور میں نے دیکھا ان آہنی سلاخوں کے پیچھے انتظار مقید تھا!!..ہوا میں سردی بڑھ رہی تھی لیکن میری درخت جاں پہ تو صدیوں سے یہی سردیوں کا موسم ہے..ہوا میرے بالوں کو بکھیرتی سرسراتی ہوئی گزری تو یوں لگا جیسے زندگی نے اپنی ریشمی مخروطی انگلیاں میرے بالوں سے گزاری ہوں یونہی آنکھوں کی پتلیوں پر پچھلے دسمبر کے ہیولوں کا رقص بسمل شروع ہو چکا تھا!!..رات اب تخلیق کے درد سے کراہنے لگی تھی کہ کچھ ہی گھنٹوں میں اک نیا دن جنم لینے والا تھا

    "سیف "!

    یوں لگا جیسے زندگی نے میرا نام پکارا ہو

    آہ…میں نے سر جھٹکا..درخت کے ساتھ ٹیک لگا کے آنکھیں موند لی

    "سیف” !!

    اب کے آواز قدرے بلند تھی ..میں دونوں ہاتھوں سے اپنی کنپٹیوں کو دبانے لگا..

    "سیف”!!!

    میں چونک کے اٹھ بیٹھا ..

    یہ آواز…یہ آواز تو زندگی کی ہے !

    "یا خدا !یہ اگر وہم ہے تو یہ وہم کبھی نہ ٹوٹے میں زندگی کے اس وہم کے سنگ ہی جی لوں گا”

    آواز بہتی جھیل سے آئی تھی..میرے قدم بے ساختہ آگے ہو لیے

    اک طلسم تھا جسکی پیروی میں میرے قدم بڑھتے چلے جا رہے تھے اور میں جھیل میں کود گیا؛آخری منظر جو میری آنکھوں نے دیکھا ہرنی کی آنکھوں سے انتظار آنسو کا روپ دھار کے ڈھلک گیا تھا اور سامنے والے گھر کی کھڑکی میں دو انتظار سے سلگتی آنکھیں لاحاصلی کے بوجھ سے بند ہوئی جاتی تھیں ،بتی گل کر دی گئی تھی اور کھڑکی بند ہو گئی تھی…

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔