ابن نیاز بقلم ابن ریاض «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ابن نیاز بقلم ابن ریاض

    گئے دنوں کا قصہ ہے کہ دو کلاسیکی گلوکار سلامت علی  اور نزاکت علی تھے۔  یہ دونوں بھائی شام چوراسی گھرانے کے تھے اور یک جان دو قالب تھے۔ ان کی بہترین ریکارڈنگ وہ ہیں جو انھوں نے مل کر گائیں۔ بعد ازاں یہ جوڑی ٹوٹ گئی اور اس کے کچھ عرصے بعد نزاکت علی انتقال کے گئے۔

    بھارت کے جب ہم گانے سنتے تو اکثر معروف گانوں کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لعل ہوتے۔ ہم انھیں ایک ہی شخصیت سمجھتے تھے اور ان کے طویل نام پر حیران ہوتے تھے۔ یہ راز بعد میں افشا ہوا کہ وہ دو مختلف افراد ہیں مگر مل کر کام کرتے ہیں۔

    یہی عالم اس وقت ابن ریاض اور ابن نیاز کا بھی ہے۔لوگ ہمیں بھائی سمجھتے ہیں۔حالانکہ یہ بات تو واجبی سی سمجھ بوجھ والا بھی جان سکتا کہ اگر ہم سگے بھائی ہوتے تو وہ بھی ابن ریاض ہوتے۔زیادہ ذہین لوگوں کا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا آپ دونوں کزنز ہیں تو جی ہاں یہ بات بالکل درست ہے۔ابن نیاز ہمارے دور کے کزن ہیں۔ زیادہ دور کے نہیں یہی کوئی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر دور کے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ وہ ہمارے اسلامی بھائی ہیں اور ایک معروف قلم کار۔ یہ ایک ایسی دوستی ہےجس پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔

    ابن نیاز کو ہم جب سے جانتے ہیں جب یہ صرف  لودھی تھا۔ اپنے نام کے ساتھ لودھی یوں لگاتا ہے کہ جیسے اس کے اجداد جنگ ہارے نہیں بلکہ انھوں نے مغلوں کے چھکے چھڑا دیے ہوں۔اس کو دیکھ کر ہمیں یونس خان یاد آ جاتا ہے کہ وہ صفر پر آئوٹ ہو کر بھی یوں قہقہے لگاتا واپس جاتا ہے کہ جیسے سینکڑا سکور کر کے جا رہا ہو۔ آپس کی بات ہے کہ اپنے پیارے ملک میں جینے کا یہی طریقہ رائج ہے۔ابن نیاز اگر چاہتا تو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو کیش کروا کر سیاست میں بھی نام پیدا کر سکتا تھا مگر اس کی طبیعت اس سے نفور ہے۔

    سالوں پہلے کا قصہ ہے کہ ہماری ایک فورم پر  بات چیت ہوئی۔ ان صاحب کو بھی علم و ادب سے لگائو تھا ۔اس کے علاوہ ہم دونوں ایک دوسرے کے اکلوتے قاری تھے۔ ہم لکھتے اور ابن نیاز پڑھتا اور سر دھنتا(اپنا ہمارا نہیں) پھر وہ لکھتا اور ہم حساب چکا دیتے یوں ہماری آپس میں جلد ہی گاڑھی  چھننے لگی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ  خود بہت بے ادب ہے۔ کتاب  پڑھنے کا اسے جنون ہے۔ اتنی فضول اور بیزارکن کتابیں یوں مزے لے لے کر پڑھتا ہے جیسے کہ چھوٹے بچے من پسند کھلونے سے کھیلتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں۔ مگر ادب پر اس کی گرفت اور معلومات قابل رشک ہیں۔ جب یہ کسی مضمون یا افسانے پر تبصرہ کرتا ہے تو کوزے کو دریا میں بند کر دیتا ہے۔کیونکہ کوزے میں دریا بند کرنا کسی مائی کے لال کے بس کی بات نہیں۔

    ہم اسلام آباد میں رہتے تھے اور وہ اسی شہر میں برسرروزگارہے۔ باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ہم سے  ہمارے گھر کا پتالیا اور بغیر بتائے ہمارے گھر  آ پہنچا اور فون کر کے پوچھا کہ کہاں ہو؟ہم نے سچ بولا کہ گھر ہیں تو کہنے لگا کہ دروازے پر آئو۔ موت، مصیبت اور ابن نیاز کسی وقت بھی نازل ہو سکتے ہیں۔ مرتے کیا نہ کرتے ہم باہر گئے اور مصافحہ کیا۔۔اندر لائے اور گفتگو شروع ہوئی۔۔ کچھ ہی دیر میں بیزاری پر شوق غالب آ گیا کیونکہ ابن نیاز کی گفتگو میں معلومات اور دلیل کے ساتھ ساتھ خلوص کی کمی نہیں۔ اس کے بعد ہم نے اس سے وٹے سٹے کا تعلق بنا لیا۔ کبھی وہ ہمیں اپنے دفتر بلا لیتا کبھی ہم اس کے دفتر چلے جاتے۔یہ تعلق پاکستان سے آنے تک برقرار رہا۔ اس کے بعد اب ہم فیس بک اور سکائپ کے ذریعے اک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

    کالم نگاری کا سفر بھی ہم دونوں کا ایک ساتھ شروع ہوا اور اس ناچیز کے مشورے پر ہی لودھی ابن نیاز ہوا۔ہماری سی سی پی(کلمسٹ کونسل آف پاکستان) کی  فیس کے پیسے بھی ابن نیاز نے ہ دیے جو کہ اب واپس کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں۔  ہمارا اور ابن نیاز کا ممبر شپ کارڈ بھی ایک ہی دن جاری ہوا۔ ان دنوں ہماری آنکھ میں تکلیف تھی جس کا احوال آپ پڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں ہم نے اپنی وحشت میں لودھی کی  رکنیت والے کارڈ پر لوگوں کے تبصروں پر شکریہ کہنا شروع کر دیا اور خود  کو مبارک باد دے دی۔ مگر

    اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

    اب بھی ابن نیاز کے کالموں کے اکثر لنک ہمیں دیے جاتے ہیں۔ ہم ان پر یہ ظاہر کر کے کہ یہ ہمارا کالم نہیں ہے دل آزاری کے مرتکب نہیں ہوتے۔ الٹا ہم ان صاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہیں مگرساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پذیرائی کا شکریہ  ورنہ من آنم کہ من دانم۔ امید ہے کہ اگر ابن نیاز کو بھی ہمارے کالموں کا لنک کوئی نادانستگی میں بھیج دے تو وہ بھی اسی وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں گے۔

    ہمارے اور ابن نیاز کے درمیان ایک ان کہا معاہدہ ہے کہ من ترا حاجی بگوئم تو  مرا حاجی بگو۔ ہم نے ایک دوسرے کی تعریف ہی کرنی ہے خواہ ہم کتنی ہی فضول تحریر کیوں نہ لکھیں۔ جوںہی ان کا کوئی کالم ہماری نظر سےگزرے ہم نا صرف اظہار پسندیدگی کرتے ہیں بلکہ اپنے الفاظ میں ابن نیاز کی مدح بھی کرتے ہیں۔ کس مہارت سے موضوع کو قلم بند کیا ہے۔انداز بیان کیا خوبصورت ہے اور کیا خوب آپ نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ابن نیاز کا بھی یہی معمول ہے۔ابن ریاض موجودہ دور کا ابن انشا ہے۔ خوبصورت مزاح۔ لکھتے رہو اور ہمیں محظوظ کرتے رہو۔

    پہلے ہم ایک دوسرے کے کالموں کی تعریف کرتے تھے۔ اب ہم نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ابن نیاز کی مدح میں پورا کالم لکھ دیا۔ اور ان کا شمار اب ان نایاب لوگوں میں کروا دیا کہ جن کی ثنا ان کی زندگی میں ہوئی ورنہ ہمارے پیارے ملک میں یہ کام بعد از مرگ کیا جاتا ہے۔ اب ابن نیاز سے بھی ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری اس کاوش کا مثبت جواب دیں گے اور ہمیں اگر اپنے کسی اگلے کالم میں مزاح کے نئے اسلوب کا بانی یا مزاح نگاری کا اقبال یا غالب قرار دیں تو آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں( ہم البتہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے)۔ اسے بس ایک کالم سمجھیے گا اور یہ جانئے گا کہ دوست نے دوست کا قرض اتار کے حق دوستی ادا کیا ہے۔

     

    ٹیگز: , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔