گزرے دنوں کی بات ہے کہ انعام کسی کارکردگی کا مرہون منت ہوتا تھا۔ لوگ بادشاہِ وقت کا سہرہ کہتے تھے اور خلعت فاخرہ کے مستحق قرار پاتے تھے- بادشاہ کے لئے کوئی نایاب اور حیران کن نذرانہ پیش کرنے والے کا دامن موتیوں سے بھر دیا جاتا تھا۔ جب کوئی سرپھرا بادشاہ کے احمقانہ اور حقیقت سے بعید سوالات و فرمائشوں کو پورا کر پاتا تھا تو بادشاہ سلامت اس جرم کی پاداش میں اپنی اکلوتی اور لاڈلی شہزادی کی شادی اس نوجوان ( اگر ایسی مہم کے بعد وہ نوجوان رہ پاتا تھا) سے کر دیتا تھا۔
اب نیا زمانہ ہے۔لوگ سہل پسند ہو گئے ہیں۔ کون اتنا تردد کرتا پھرے۔ لوگ کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کی پخ میں پڑتے ہی نہیں۔ سیدھا سیدھا انعام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بات بھی جائز ہے کہ کام کے بعد انعام دیا تو کیا دیا۔ یہ تو حق ہو گیا۔ مزا توجب ہے کہ انعام چھپر پھاڑ کے ملے۔ٹی وی والوں نے تو یہ رمز پہلے ہی سمجھ لی ہے۔ چنانچہ ناظرین کو ان کے چینل میں داخلے پر ہی ان کے حق سے نواز دیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی کسی وجہ سے چینل پر نہ بھی جا پائیں تو بھی ان کا انعام ان کے گھر پہنچا دیا جاتا ہے۔
عید رمضان کے بعد اللہ کا انعام ہے۔ دنیاوی انعامات کا اثر اب عبادات پر پڑنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ روزہ رکھے نہ رکھے لیکن عید منانا ہر ایک کا حق ہے۔ اس بار تو روزے بھی خاصے سخت تھے۔ہماری شامت آئی اور ہم سعودی عرب سے یہاں آ گئے۔سعودی عرب بھی کوئی یورپ نہیں مگر عمارات کے اندر توسکون ہوتا ہے۔ اے سی ہرآن رواں اور کے الیکٹرک اور واپڈا بھی ابھی وہاں نہیں پھٹکے۔ ہمارے بہی خواہوں نے ہمیں سمجھایا کہ رمضان کے بعد آنا ورنہ کباب بن جائو گے۔ مگر ہمارے سر پر تو سودا سوار تھا۔ ویسے بھی ہمیں گرمی سے زیادہ ڈر نہیں لگتا کہ وہ ہماری رنگت پر تو کوئی اثر نہیں ڈال سکتی کیونکہ ہمارا رنگ پہلے ہی کباب مانند ہے۔ تاہم رمضان والی بات مشکل تھی مگر دل کڑا کر کے ہم آ ہی گئے۔یہاں آتے ہی ہمیں اپنی حکومت کی بے مروتی کا احساس ہوا۔ جب دار الحکومت کے ہوائی اڈے پر ہمارے استقبال کے لئے کوئی حکومتی نمائندہ موجود نہیں تھااور نہ ہی بعد میں کوئی ملنے آیا۔ ہم بھی وضعدار ہیں ہم بھی نہیں ملے۔
رمضان میں گرمی خوب تھی اور کچھ روزے تو ایسے کہ صبح سات آٹھ بجے ہی پیاس محسوس ہونا شروع ہو جاتی۔ اس گرمی اور مشکل روزے کا ثواب بھی یقینًا زیادہ ہوتا ہے۔ مستزاد یہ کہ محکمہ پانی و بجلی کی پوری کوشش تھی کہ کسی صورت روزے داروں کے ثواب میں کمی نہ وہ جائے۔ آزاد خیال لوگوں نے تو اس بار روزے ہی نہیں رکھے۔ جو ہم جیسے ذرا کمزور دل ہیں انھوں نے کبھی سفر کا سہارا لیا اور کبھی بیمار پڑ گئے۔ سارا رمضان تیس سے الٹی گنتی گن گن کے گزرا۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ
رمضان گزرا خدا خدا کر کے
ان سب مشکلات اور تکالیف کے باوجود ہم نے کبھی افطار میں ناغہ نہیں کیا۔ جب جہاں کسی نے بلایا اس کی دل آزاری نہیں کی۔ روزہ ہو نہ ہو افطاری ڈٹ کر کی۔ ہمارے بہت سے اقارب ہمین بلا نہیں پائے اور بعض کے ہاں ہم نہیں پہنچ سکے۔ اس کی وجہ ہمارا مجبوری کہ ہم بیک وقتایک سے زائدمقامات پر موجود نہیں ہو سکتے تھے۔ ہمارا ان تمام احباب کو مشورہ ہے کہ وہ عید کے بعد بھی ہماری واپسی تک ہمیں دعوت پر بلاتے رہیں۔ ہم ان کا دل نہیں توڑیں گے۔
اب جبکہ عید کی آمد آمد ہے ہماری خوشی و سکون کا ٹھکانہ نہیں۔گذشتہ دو عید الفطر ہماری سعودی عرب میں گزریں۔ ان میں سے ایک میں ہم نماز عید اد ا کرنے مدینہ گئے( نماز ادا کر پائے یا نہیں یہ الگ سوال ہے) جبکہ دوسری عید القصیم میں گزری۔ اس بار پاکستان کے نصیب میں یہ اعزاز آیا۔
عید خواتین اور بچوں کی ہوتی ہے۔ہمارے لئے تو وہ دن بھی خرچ کا ہی ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹوں کو تو عید دینا بنتا ہے مگر اس روز بلکہ اس سے چند روز پہلے ہی صفائی والے، سکیورٹی گارڈ، سحری کے لئے ڈھول نہ بجانے والااوراللہ کے نام پر لینے والے آ موجود ہوتے ہیں۔ سب ہی اللہ والے ہوتے ہیں ہمیں تو سمجھ نہیں آتی کہ کس کس کو دیں ایک محدود سی رقم۔ ٹرانسپورٹ۔ پولیس، دکاندارکے علاوہ بجلی، پانی اور گیس کے محکمے تو عوام سے پہلے ہی عیدی نکلوا لیتے ہیں اور وہ بھی ببانگ دہل۔ بڑی عید پر اگر عوام کی قربانی ہوتی ہے ( اسی لئے اسے عید قربان کہتے ہیں) تو چھوٹی عید پر عوام کی فرنی بنا دی جاتی ہے۔
عید کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ عید باطنی کیفیت کا نام ہے۔ اگر کوئی فرد خوش اور مطمئن ہے تو اس کی روز ہی عید ہے ہر رات شب برات ہر روز روزِ عید اسی لئے کہا جاتا ہے۔ بصورت دیگر کچھ لوگوں کی عید پریشانی و اداسی اور ماتم میں بھی گزرتی۔ ایک صاحب کے ہاں چاند رات میں چوری ہو گئی۔ چور گھر کا سرا سامان لے گئے۔ پریشان بیٹھا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔ کہ دروازہ کی گھنٹی بجی۔ دیکھا کہ کوریئر والا ہے۔ ایک لفافہ پکڑایا اس نے۔ کھولا تو دیکھا کہ اس میں عید کارڈ تھا۔ اس پر لکھا تھا۔”خدا آپ کو ایسی ہزاروں عیدیں نصیب فرمائے”۔