کچھ کرکٹ سے متعلق «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • کچھ کرکٹ سے متعلق

    کرکٹ کا جادو ان دنوں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ عالمی کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جاری ہے اور ہماری قومی ٹیم کوارٹر فائنل میں میزبان آسٹریلیا سے مد مقابل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آسٹریلوی کھلاڑی میزبانی نبھاتے ہوئے ہمیں سیمی فائنل میں جانے کا موقع دیں گے۔

    پیوستہ رہ آسٹریلیا سے امید ہار رکھ

    اس وقت یہ نہایت مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے کرکٹ کے تجربات سے اپنے عزیز قارئین کو مستفید کریں۔ کرکٹ ہم نے کب شروع کی، ہمیں یاد نہیں اور نہ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کیوں ہمارے دل میں گھر کر گئی تاہم یہ قصہ کم و بیش تین عشرے پرانا ہے۔شائد جب ہم نے سکول جانا شروع کیا۔ہمیں کرکٹ کھیلنے سے بھی زیادہ دیکھنے کا شوق تھا۔ کھیل کے متعلق تو ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ تا ہم دیکھنا بھی انھی دنوں شروع کر دیا۔ کرکٹ کے قوانین بکثرت ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیڑھے بھی ہیں۔ ہمیں  سمجھ نہیں آتی کہ دو بلے بازوں کے مقابل گیارہ کھلاڑیوں کی کیا تُک ہے۔بات تو جب ہے کہ ایک کے مقابل ایک آئے۔ ایک اور سوال جس کا جواب ابھی تک حل طلب ہے کہ اگر زندگی چار روزہ ہے تو ٹیسٹ میچ پانچ روزہ کیسے اور کیونکر؟

    بچپن میں ٹی وی پر میچ دیکھنا بھی ایک عجیب تجربہ تھا۔ ہمارے زمانے کے بچے آج کل کے دور کے بچوں کی مانند افلاطون نہیں ہوتے تھے۔ ہم اکثر ٹی وی کو آگے پیچھے سے دیکھتے تھے کہ یہ لوگ آخر ٹی وی میں داخل کہاں سے ہوتے ہیں۔ اس وقت میں ہمیں’ ری پلے’ کی بھی سمجھ نہیں تھی۔  اشتہارات اور وکٹ گرنے یا چوکا اور چھکا لگنے پر جب’ ری پلے’ آتا تو ہم ہکا بکا رہ جاتے کہ اصل اور نقل میں انیس بیس کا بھی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ہم سے تو دو گیندیں کبھی ایک جگہ نہیں گریں اور نہ ہی کبھی اسی مقام پر شارٹ لگی یا دو بار ایک ہی جگہ وکٹ کو گیند نے چھوا ہو۔ ہم کھلاڑیوں کی اہلیت کے قائل ہو گئے۔

    ایسے ہی جب سرفراز نواز کی ریٹائرمنٹ کی خبر ہم نے پی ٹی وی کے خبرنامے میں سنی اور دیکھی تھی۔ ان کی بائولنگ کی ویڈیو بھی ساتھ چل رہی تھی۔ حیرت کا ایک اور جھٹکا ہمارا منتظر تھا کہ وہ ہر بال پر وکٹ لے رہے ہیں۔ گیند یا تو وکٹ سے جا ٹکراتی ورنہ بلے باز کے یپڈز سے۔ اگر اتفاق سے بلا لگا بھی تو گیند وکٹ کیپر یا کسی اور فیلڈر کے ہاتھوں میں محفوظ ہو گئی۔ یعنی کہ کمال گیند باز تھا کہ بلے باز کے پاس جائے پناہ ہی نہ تھی۔ ہمیں تو وکٹ کے حصول کے لئے پرلے درجے کے ترلے کرنے پڑتے تھے۔ آسٹریلیا میں 1985 میں ہونے والی ورلڈ چیمپئن شپ کا پاک بھارت فائنل وہ پہلا میچ ہے جو ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔ یہ میچ پاکستان ہار گیا تھا مگر اس میچ میں عمران خان کی گیند پر وسیم راجہ نے سری کانت کا کیچ پکڑا تھا۔  جب وہ واپس پویلین جا رہا تھا تو سکرین پر لکھا تھا ۔۔۔ کیچ وسیم راجہ بولڈ عمران خان۔ ہم پھر حیران کہ انڈے سیوے فاختہ اور کوے بچے کھائیں۔ اتنا بھاگ کے وسیم راجہ نے کیچ کیا اور مزے عمران خان کے ہو گئے۔

    ایسے ہی ہمارا خیال یہ تھا کہ بلے باز کی ٹانگوں کو گیند لگ جائے تو وہ آؤٹ قرار پائے گا  خواہ کہیں بھی کھڑا ہو وہ۔  عرصے بعد یہ عقدہ کھلا کہ وکٹ کے سامنے ہونا شرط ہے، باؤلر کی نظر میں نہیں بلکہ امپائر کی دانست میں۔ ایک بار آسٹریلیا اور برطانیہ کے مابین میچ کی جھلکیاں دیکھ رہے تھے کہ ایک بلے باز نے جان بوچھ کے وکٹ پر جاتی گیند سے فٹبال کھیل لی۔ ہمارے خیال میں تو وہ آئوٹ تھا مگر دیکھا تو منصف صاحب بھی مسکرا رہے ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ بال پہلے بلے سے ٹکرائی تھی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کسی کو غلطی سے وکٹ کے سامنے گیند لگ جائے تو وہ آؤٹ اور جو جان بوجھ کر گیند سے پنگا لے ( خواہ بلے سے ٹکرانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو) وہ ناٹ آؤٹ۔

     اس زمانے میں میچ سے پہلے ایک خاتون سکرین پر نمودار ہوتی تھی اور اعلان کرتی تھی ‘ ناظرین پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دوسرےکرکٹ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کے کھیل کا آ غاز ہوا چاہتا ہے۔ اس میچ کے لئے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے ولز کنگ سگریٹ بنانے والے ادارے پاکستان ٹوبیکو کمپنی لمیٹڈ نے۔۔۔۔۔ دیگر اشتراک میں شامل ہیں ڈنٹونک ٹوتھ پائوڈر، بناکا ٹوتھ پیسٹ، کیوی شو پالش اور اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی والوں نے۔۔۔ اب ہم آپ کو قومی نشریاتی رابطے پر قذافی اسٹیڈیم لئے چلتے ہیں جہاں ہماری پروڈیوسر ہیں منشانت اور شاہدہ شعیب رضوی۔’ اس کے بعد ایک تصویر آتی جس میں برقی لہریں خلائی سیارے سے ٹکراتی دکھائی دیتیں اور کچھ ہی دیر بعد میچ شروع ہو جاتا۔ اب اتنی لمبی تمہید کو چھوٹا بچہ کیا سمجھے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ جیسے ڈرامے پروڈیوس ہوتے ہیں ، یہی عالم میچ کا بھی ہوتا ہے۔اور اول الذکر  دونوں پروڈیوسر میچ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اب اتفاق سے رمیض راجہ ہمارے پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ لیکن عمومًا جاوید میانداد ہی زیادہ اسکور کرتے تھے۔تو ہمیں ان پروڈیوسر مرد و زن پر بہت غصہ آتا کہ ہمارے پسندیدہ کھلاڑی کو فوراً آؤٹ کروا دیتے ہیں اور دوسروں سے سینکڑے کرواتے رہتے ہیں۔ ہم نے بار ہا انھیں بےنقط بھی سنائیں جس پر اب ہم ان سے معذرت  خواہ ہیں۔ تب تو وہ پروڈیوسر میچ کو قابو نہیں کر پاتے تھے مگراب ایسا نہیں ہے۔ اب میچ قابو کرنے کے بہت سے شواہد بھی ملے ہیں تاہم وہ پروڈیوسر نہیں ہیں بلکہ کچھ کھلاڑی اور کچھ جواری ہیں۔

    کرکٹ پر اچھے برے دور آئے۔ اب کرکٹ 1980 والے عشرے سے بعد زیادہ مختلف ہے۔ٹی 20 کی وجہ سے بلےباز بہت جارح مزاج ہو گئے ہیں۔ اب تو اکثر ٹیسٹ میچ بھی تیسرے  چوتھے دن ختم ہو جاتے ہیں۔ اک روزہ میچوں میں پہلے ڈھائی سو بڑا اسکور ہوتا تھا اب تو ساڑھے تین سو بھی محفوظ اسکور نہیں۔ مستزاد یہ کہ قوانین ایسے کہ گیند بازوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر یوں بلے بازوں کے آگے ڈال دیا گیا ہے کہ جیسے بھوکے شیروں کے سامنے شکار ڈال دیا گیا ہو۔

    کرکٹ سے ہماری بچپن کی محبت ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ایسی محبت کتنی طوفانی ہوتی ہے۔ اب اس محبت کو تین عشرے گزر چکے۔ بہت سے سرد و گرم دیکھے۔ امتحان، نوکری، آنا جانا، خوشی غمی کسی بھی حال میں اس کھیل سے دور نہیں ہوئے۔ دیکھ نہ پائے تو بھی  تازہ ترین صورت حال سے باخبر رہنے کی کوشش کی۔ ہم جب ٹی وی پر میچ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ ہمار نانی مر حومہ فرماتی تھیں کہ عمران ( ہمارا حقیقی نام) میچ پر ایسے بیٹھتا ہے جیسے سانپ بین پر۔

     

    ٹیگز: , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔