فیس بک پر اپنا صفحہ بنانا یا گروپ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر کسی نے ہی تقریبًا بنا رکھا ہے اور ہر قسم کے بنا رکھے ہیں۔ سیاست، کھیل، صحت۔ تعلیم و دیگر شعبوں پر صفحات بے تحاشا آپ کو ہر زبان میں مل جائیں گے۔ ہمیں ادب اور بالخصوص اردو ادب سے لگائو ہے۔ اردو ادب سے متعلق گروپوں اور صفحات کی بھی کمی نہیں۔ کئی گروپوں کے ہم خود رکن ہیں۔ اکثر گروپ بہت اچھے لکھنے والوں کے ہیں۔ ہم ان گروپوں میں جاتے ہیں اور اپنی تحاریر بھی وہاں لگاتے ہیں۔ تا ہم جعلی گروپوں کی بھی کچھ کمی نہیں بلکہ ہمیں تو حقیقی سے بھی زیادہ جعلی گروپ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں کہ کبھی ایک تحریر نہیں لکھی مگر خود کو مصنف لکھنا شروع کر دیا اور اپنا سرکاری صفحہ بھی بنا دیا۔بعض شاعر بن بیٹھے اور لگے شاعری کی ٹانگیں توڑنے۔ نہ ردیف ہے اور نہ قافیہ۔ پھر بھی ہر گھنٹے بعد آمد ہو وہی ہے اور واہ واہ اور مقرر کرنے والے بھی بآسانی دستیاب ہیں۔ کسی کے من میں تنقید نگار بننے کی خواہش ابھری تو بس جو بھی سامنے آیا اس کا تیہ پانچا کر کے اپنے مذموم عزائم کو سکون بخشا۔ یہ سب کرنا بہت آسان ہے کہ فیس بک پر آپ خود کو کچھ بھی ظاہر کر دیں وہ مشرقی بیوی کی طرح تسلیم کر لیتی ہے، آپ سے ثبوت نہیں مانگتی کہ بڑے ادیب بنے پھرتے ہو ذرا اپنی کوئی تصنیف تو دکھائو۔ تا ہم ہمارے ساتھ فیس بک نے بھی سوتیلی ماں کا سا سلوک ہی کیا اور جب بھی ہم نے اپنا قلمی نام ‘ابن ریاض’ رکھنا چاہا روکھا سا جواب دے دیا کہ یہ نام نہیں رکھا جا سکتا۔
اس سب کے باوجود ہمارے ذہن میں اپنا گروپ یا پیج بنانے کا وسوسہ کبھی نہیں آیا۔ ایک بار ایک صاحبہ نے صفحہ بنانے کا کہا مگر ہم نے ٹال دیا کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔جب زیادہ اصرار کیا تو ہم نے کہا کہ چلو سو کالم تو ہونے دو پھر بنا لینا۔ پھر ہم نے کہا کہ اچھا چلو اگلی سالگرہ پر یہی صفحہ یا گروپ بنا کر تحفہ دے دینا۔ یہ بھی اس وقت ٹالنا ہی تھا۔ ایک سردار جی کو گارڈ کی نوکری ملی کہ تم نے کسی کو عمارت میں نہیں آنے دینا۔ وہ گیٹ پر گیا اور سو گیا۔ سب بلا روک ٹوک اندر جاتے رہے۔ ایک شریف آدمی نے دیکھا کہ گارڈ موجود ہے مگر اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہا تو وہ سردار جی کے پاس گیا اور کہا کہ سردار جی میں اندر جا سکتا ہوں۔ سردار نے ترت کہا۔ بالکل نہیں، اس کی اجازت نہیں ہے۔ وہ بندہ حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ یہ جو سب لوگ اندر جا رہے ہیں۔ سردار نے بے نیازی سے جواب دیا۔ انھوں نے کون سا اجازت لی ہے۔سو ان صاحبہ کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ اس نے ہم سے اجازت لینے کی غلطی کر لی۔
گروپ نہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے بہت سےگروپوں کو ٹوٹتے دیکھا ہے۔ وہ جو یک جان دو قالب ہوتے ہیں کبھی وہی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ کسی کی کوئی بات بری لگی بالخصوص اپنے پسندیدہ لکھاری یا ادیب کی تو اسے ثریا سے زمیں پر دے مارا ۔پھر ایسے گروپ اس ادیب کی زندگی تک ہی چلتے ہیں۔ بہت سے گروپ بھی گروپ کے مالک کے ساتھ ہی تہہ خاک چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سب فانی ہے تو یہ گروپ یہ پیجز بھی کسی قبر پر لگے کتبے بن جاتے ہیں پھر۔ سو سوچا تھا کہ اگر ہمارا کچھ کام رہا تو کوئی جانے کے بعد بنا ہی دے گا ورنہ گروپ ہو نہ ہو سب ایک برابرہے۔
اب آمنہ اور ثنا نے مل کر بنا دیا ہے اور چالاکی یہ کی کہ ہم سے پوچھا ہی نہیں کہ پوچھا تو کورا سا جواب مل جانا۔انھوں نے بنا کر ہمیں اطلاع دی ہے۔ اب گروپ بن چکا ہے اور وہ محنت کر چکی ہیں اسےبنانے میں اور اس میں اراکین لانے میں تو یہ ظلم ہو گا کہ ہم کہیں کہ آپ لوگوں نے خواہ مخواہ زحمت کی۔ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ یہ گروپ کسی اور کے نا م کر دیں۔ ہماری نظر میں یہ تکبر، غرور، خود پرستی میں بھی شمار ہے اور کفرانِ نعمت میں بھی۔ ہم آمنہ اور ثنا کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں اس قابل جانا اور اتنا پیارا گروپ بنایا ورنہ من آنم کہ من دانم۔
ہمارے اک نا نا(یعنی کہ نانی کے بھائی) قومی اسمبلی میں کام کرتے رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو تقریر بہت جوش وجذبے اور گونجتی آواز میں کرتے تھے۔ اک بار وہ اپنی تقریر میں اپنی جماعت پیپلز پارٹی کا بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے ‘ یہ پارٹی میرا پارٹی نہیں ہے۔ یہ عوام کی پارٹی ہے، یہ آپ کی پارٹی ہے۔ لفظ پارٹی میں انگریزی میں ‘آر’ اور اردو میں ‘ر’ جب بندہ جوش میں اور تیزی سے بولتا ہے تو وہ ساکن یعنی کہ سائلنٹ ہو جاتا ہے۔ ان کے اس قول کو ان کی پارٹی آج بھی نبھا رہی ہے کہ یہ پارٹی عوام کی ہی پارٹی رہے۔ اچھی بات کوئی بھی کہہ سکتا ہے اور ا سکی تقلید ہونی چاہیے سو ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ گروپ ہمارا نہیں یہ آپ کا ہے۔ آپ یہاں آئیں، اچھی اچھی پوسٹ کریں۔ لوگوں می مسکراہٹیں اور خوشیاں بانٹیں کہ آپ کی اپنی زندگی بھی ان سے منور ہو جائے۔یہ وہ دولت ہے جو بانٹنے سے ہی ملے گی۔ یوں بھی یہ کسی سرکاری رائٹر کسی کالمسٹ کسی مزاح نگار کا گروپ نہیں، یہ فن گروپ ہے اور آپ یہاں محظوظ ہوں اس سے بڑھ کے کیا سعادت کیا خوشی ہو سکتی۔
اس گروپ میں آپ سب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید۔ یہ گروپ آپ ہی نے چلانا ہے۔ ہمارا تو وہ عالم ہے کہ
ہم تو فقط عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جون 27th, 2018
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: 3
ٹیگز: group, Ibn e Riaz, Shagufa e seher
عینی
بتاریخ جولائی 8th, 2018
بوقت 9:49 شام:
بہت شگفتہ تحریر ابن ریاض بھائی
عنواں بہت اچھا ہے?
ابنِ ریاض
بتاریخ جولائی 9th, 2018
بوقت 8:39 صبح:
جزاک الہ عینی