گنگا رام 1851 میں ننکانہ صاحب کے ایک گائوں میں ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دولت رام منگٹاوالا کے پولیس اسٹیشن میں جونیئر سب انسپکٹرتھے۔ دولت رام کا بعد ازاں امرتسر میں تبادلہ ہو گیا۔ وہاں وہ عدالت میں کاپی رائٹر مقرر ہوئے۔ سر گنگا رام نے میٹرک امرتسر سے کی اور پھر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ بعد ازاں انھیں تھامس انجینئرنگ کالج روہڑکی بھارت میں وظیفے پر داخلہ مل گیا۔ یہاں انھوں نے اختتامی امتحان طلائی تمغے کے ساتھ پاس کیا۔ان کا تقرر بطور اسسٹنٹ انجینئر ہوا۔
پی ڈبلیو ڈی پنجاب میں مختصر ملازمت کے بعد وہ عملی کاشتکاری کی طرف متوجہ ہوئے۔انھوں نے منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کے قریب پچاس ہزار ایکڑ زمین ٹھیکے پر لی اور تین سالوں میں بیابانوں کو گل و گلزار میں تبدیل کر دیا۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے پن بجلی کے ذریعے آب پاشی کی جس کا تمام خرچ ان کا اپنا تھا۔ انھوں نے اس زمین سے لاکھوں کمائے مگر زیادہ رقم خیرات کر دی۔
لاہور کے لئے ان کا کام بے مثال ہے۔ جنرل پوسٹ آفس لاہور ، عجائب گھر، ایچی سن کالج، میو کالج آف آرٹس(موجودہ نیشنل آرٹس کالج)، گنگا رام ہسپتال لاہور، لیڈی میکلیگن گرلز ہائی اسکول، گورنمنٹ کاج یونیورسٹی کا کیمیا کا شعبہ، میو ہسپتال کا البرٹ رکٹر ونگ’ سر گنگا رام ہوئی سکول(موجودہ لاہور کالج برائے خواتین)’ہیلے کالج آف کامرس( موجودہ ہیلے کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس)، معذوروں کے لئے راوی روڈہائوس، مال روڈپر سر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ اور لیڈی مینارڈ صنعتی سکول کے نہ صرف نقشے بنائے بلکہ ان کی تعمیر بھی کی۔ ماڈل ٹائون اور گلبرگ کی تعمیر بھی انھی کے ہاتھوں ہوئی جو آج بھی لاہور کے بہترین رہائشی علاقوں میں شامل ہوتے ہیں۔ رینالہ خودر کا بجلی گھراور پٹھانکوٹ اور امرتسر کے درمیان ریلوے لائن بھی انھی کا کارنامہ ہے۔
لائل پور کے جڑانوالاتحصیل میں انھوں نے سفر کا ایک منفرد طریقہ پیش کیا۔ انھوں نے ریلوے اسٹیشن سے اپنے گائوں گنڈاپور تک ایک تنگ ریلوے لائن بنائی۔ اس پر دو سادہ ٹرالیاں انجن کی بجائے گھوڑے کی مدد سے چلائیں قیام پاکستان کے بعد بھی عشروں تک یہ ذریعہ سفر مستعمل رہا۔۔بع ازاں مرمت نہ ہونے کے باعث یہ متروک ہو گیا تاہم 2010 میں فیصل آباد کی ضلعی انتطامیہ نے اسے بحال کیا اور ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ ساہیوال کے بعد انھوں نے لائل پور میں بھی انھوں نے ہزاروں ایکڑ زمین ٹھیکے پر لی اور اسے بھی زرخیر کر دیا۔
گنگا رام کے نام پر دہلی میں بھی ہسپتال ہے اورلاہور اور دہلی کے یہ ہسپتال اس شخص کو بہترین خراج تحسین ہیں جس نے اپنی تمام عمر انسانیت کی خدمت میں گزار دی۔ مسلمان اپنی تاریخی عمرات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں مگر شاید ہی کوئی مسلمان ہوجس نے اس قدر عمارات بنوائی ہوں۔ جتنی اس ایک اکیلے شخص نے۔ اگر گنگا رام نہ ہوتے تو لاہور آج لاہور ہوتا اور نہ ہی پنجاب پورے ملک کو گندم فراہم کر رہا ہوتا کیونکہ پنجاب کے نہری نظام کی بنیاد بھی اسی شخص نے رکھی۔
گل
بتاریخ جولائی 19th, 2018
بوقت 7:07 شام:
Bht khobsorat article….:)