تحریر: ابنِ ریاض
کل ہم اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ یہاں مرد و خواتین کی علیحدہ علیحدہ نشست ہوتی ہے۔ واپسی پر بیگم ہمیں کہنے لگی کہ دوسرے کمرے میں آپ کی آواز آ رہی تھی اور آپ کے علاوہ تو کسی اور کی آواز ہم نے نہیں سنی۔ہم نے مذاقًا کہا کہ سب ایک جیسا ہی بول رہے تھے مگر آپ صرف ہماری گن سن لے رہی تھیں سو آپ کو پتہ ہی نہیں چلا۔
اونچا بولنےاور مونچھیں رکھنے کو بعض لوگ مردانگی گردانتے ہیں۔ہم ان میں سے نہیں۔ہماری بلند و بانگ آواز کی وجہ مختلف ہے۔ اسی کے عشرے کے وسط کی بات ہے کہ ہمارے گائوں میں بجلی نہیں تھی۔ بلکہ اکثر گائوں اس سعادت سے محروم تھے۔ جب بجلی ہی نہیں تھی تو موبائل اور ٹی وی اور ایسی دوسری عیاشیاں چہ معنی وارد؟ گائوں میں ایک سوزوکی تھی اور وہ بھی صبح گائوں کی سواریوں کو قریبی بڑے شہروں سے متصل سڑک پر چھوڑتی اور دوپہر کو گائوں آنے والوں کو واپس لے آتی۔ٹریکٹر بھی پورے گائوں میں شاید ایک ہی تھا۔ بیلوں سے ہل چلانے کا رواج تھا۔الغرض ‘ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو’ والا معاملہ تھا۔ اس سکوت پر صور اسرافیل گائوں میں موجود آٹے کی چکی پھونکا کرتی تھی۔
بجلی نہیں تھی تو لائوڈ اسپیکر بھی نہیں تھا۔ سو جمعے کا خطبہ بھی بس مسجد کے قرب و جوار تک ہی محدود تھا۔حیرت کی بات یہ کہ اس دور میں بھی اذان کی آواز نہ صرف پورے گائوں میں سنائی دیتی تھی بلکہ اکثر قریبی دیہات سے بھی آذان کی آواز سنائی دیتی تھی۔
لوگوں کو دورسے بلانا ہوتا تھا تو کسی واضح جگہ کھڑا ہو کر زور سےبلکہ حلق پھاڑ کر آواز لگاتے تھے۔ یہ آواز باآسانی ایک دو کلومیٹر تک چکی جاتی تھی۔ اب اگلا بندہ بھی اسی گائوں کا بلکہ پکارنے والے کا رشتہ دار ہی ہوتا تھا سو وہ کیوں پیچھے رہتا۔ وہ بھی اپنی آواز پہنچاتا تھا۔ یوں آواز تو اونچی ہونی ہی تھی۔ اب اونچی آواز ہمیں میراث میں ملی تو اس میں ہمارے کیا قصور؟ ہم اونچی آواز سننے کے اتنے عادی تھے کہ ہمارے پسندیدہ گلوکار بھی شوکت علی صاحب تھے۔ پنجابی فلم کے کسی ڈائریکٹر کی بھی ہم پر نظر نہیں پڑی ورنہ فلمی صنعت کو سلطان راہی مرحوم کا متبادل بھی مل جاتا اور اس کا وہ حال نہ ہوتا جو اب ہے۔
سکول، کالج اور جامعہ میں جو ہمیں اساتذہ ملے ان میں اکثریت انتہائی دھیمے لہجے اور شائستہ انداز کی تھی۔ بعض تو اتنا مدہم بولتے تھے کہ اگلی قطار میں موجود طلباء بھی بمشکل ان کی آواز سن پاتے تھے اور ہم جیسےطلبا جن کا افتخار ہی سب سے آخر میں بیٹھنا ہو، انھوں نے تو ان کی آواز شاید ہی کبھی سنی ہو۔ آخر میں بیٹھنے کی وجہ محض نالائقی نہیں تھی۔ ہم شرمیلے بھی تھے سو نہیں چاہتے تھے کہ اساتذہ بار بارہمیں دیکھیں اور ان کا دھیان درس سے بھٹکے۔ یوں بھی کلاس میں ہماری آواز نکلتی ہی نہیں تھی۔ جامعہ میں چار سالوں میں ہمیں اپنے چند قریبی دوستوں کے علاوہ کسی نے نہیں سنا تھا۔ گھر میں تو بہرحال ہماری آواز بھی مدہم نہیں تھی اور نہ اب ہے۔سو بیگم کا ہمیں کہنا کچھ غلط بھی نہیں تھا۔
عملی زندگی میں آئے تو ہم نے اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنا چاہا۔ خوبئی قسمت کہ ہم تدریس میں آ گئے۔ یہاں اونچی آواز کا ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ ہمارا کوئی طالب علم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس تک ہماری آواز نہیں پہنچی بلکہ اکثرتو ساتھ والی کلاسز کے طلباء بھی ہم سے مستفید ہوتے۔ ایک بار ایک ساتھی استاد (جو کہ ساتھ والی کلاس میں درس دے رہے تھے) نے لیکچر کے بعد ہم سے پوچھا کہ آج آپ نے فیراڈے کا قانون پڑھایا ہے؟ ہم نے حیران ہو کے کہا کہ آپ کو کس نے بتایا؟ کہنے لگے کہ آپ کی آواز میری کلاس میں بھی آ رہی تھی اور میرے طلباء نے بھی آپ کا ہی لیکچر سنا۔
امتحانات میں بھی ہماری زبان کا استعمال کافی سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔بجلی گئی ہو یا لائوڈ اسپیکر مہیا نہ ہو تو ہمیں سے لائوڈ اسپیکر کا کام لیا جاتا۔ جامعہ کے ھال میں جہاں کوئی ڈھائی تین سو طلباء اکٹھے بیٹھ کر امتحان دیتے تھے، ان کو امتحان کے وقت سیٹوں پر بٹھانے کے لئے ہماری ہی آواز استعمال ہوتی تھی۔’ امتحان کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ اپنی نشستوں پر تشریف رکھئے اور آپ کے پاس کسی قسم کا امدادی مواد نہیں ہونا چاہیے،(انگریزی میں) کہنے کی دیر ہوتی تھی کہ ھال میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ دوران امتحان زیادہ مشکل پیش نہیں آتی تھی کہ ھال میں خاموشی ہوتی تھی۔امتحان کے وقت کے خاتمے کےاعلان کے لئے بھی ہمیں ہی زحمت دی جاتی تھی۔
دوران گفتگو ہمیں جب خیال آتا ہے تو آواز مدہم کر لیتے ہیں مگر اس وقت ہمیں اپنی آواز ہی اجنبی اجنبی محسوس ہوتی ہے۔ جب غصے میں ہوں یا کوئی اہم معاملہ پیش نظر ہو تو ظاہر سی بات ہے انسان بے ارادہ حرکات کرتا ہے تو اس وقت خود بخود سلطان راہی کی روح ہم میں سرایت کر جاتی ہے جبکہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اک بار ہم موبائل پر کسی اہم معاملے پر محو گفتگو تھے۔ ہم نے بات چیت تو اپنی عمومی آواز میں شروع کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بڑھتی چلی گئی۔ جب ہم نے موبائل رکھا تو ہمارے نانا کہنے لگے کہ بیٹا موبائل کے ہوتے ہوئے ادھر سے براہِ راست آواز سو کلومیٹر پہنچانا کوئی صحت مندانہ اقدام نہیں۔
ہمارے علاقے میں اک بار اک لڑکی جس کی والدہ ان پڑھ تھی، اپنی امی کو بتا رہی تھی کہ تان سین اپنی آوازسے شیشے توڑ دیتا تھا۔ اس کی والدہ نے حیران ہو کے پوچھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے تو لڑکی نے بتایا کہ جب آواز کی فریکوئنسی گلاس کی فریکوئنسی سے ملتی ہے تو گلاس ٹوٹ جاتا ہے۔ والدہ محترمہ کو سائنس تو کچھ خاص پلے نہیں پڑی مگر کہنے لگی۔ ‘ضرور کچھ نہ کچھ راز ہو گا اس میں۔ اگر صرف اونچی آواز سے شیشے ٹوٹ جاتے تو تمھارے ابو نے تو اب تک محلے کے سب شیشے توڑ دیئے ہوتے۔’