تحریر: ابنِ ریاض
ہالینڈ میں نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر نعوذ باللہ خاکے بنانے کا مقابلہ ہو رہا ہے جس کے خلاف حکومتِ پاکستان نے قرارداد بھی منظور کی ہے۔ مسلمان اپنی جگہ سراپا احتجاج ہیں اور فیس بک پر پوسٹس کر کے اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ اردو میں حکومتِ ہالینڈ، خاکوں کے منتظم ، فیس بک اور گوگل کو گالیاں دے کر اپنا غم و غصہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روزِ محشر وہ اللہ اور نبی کریم ﷺ کے سامنے سرخرو ہو جائیں گے کہ ہم نے ان کی مذمت کی اور پوسٹس آگے بھیج کر دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کی۔
یہ خاکے پہلی مرتبہ نہیں ہو رہے۔ہر چند سال بعد ایسا ہوتا ہے۔ چند برس قبل ڈنمارک میں بھی ایسا ہی مقابلہ ہوا تھا۔ اس پر بھی ایسا ہی احتجاج ہوا تھا بلکہ حکومتِ پاکستان نے تو یو ٹیوب پر پابندی بھی لگا دی تھی مگر گستاخانہ مواد پھر بھی وہاں موجود رہا۔اب بھی یہ حقیقت ہم جانتے ہیں کہ ہمارے شور شرابے کے باوجود بدقسمتی سے یہ سب ہو جائے گا اور ہم کچھ دن واویلا کر کے چپ ہو جائیں گے۔ چند برس بعد کوئی نئی ایسی گستاخانہ سازش ہو گی اور ہم ایک بار پھر فیس بک پر مسلمانوں اورحکومت کو پوسٹس بھیج کر اپنے فرض سے بری الذمہ ہو جائیں گے۔
ان گستاخانہ خاکوں اور مواد کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ ایک مسلمان کے لئے اللہ اور اس کا رسولﷺ سب سے بڑھ کر ہیں مگر ہم سچے دل سے دیکھیں اور حقیقت سے نظریں نہ چرائیں تو ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رسول اللہ ﷺ اپنی جان سے پیارے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دعوے میں سچے ہوتے تو ہمارے اعمال اس کی گواہی دیتے۔ ہمارے اعمال میں کوئی ایک بھی خوبی ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پیروکار ہیں۔ کیا ہم جھوٹ نہیں بولتے؟ کیا ہم خیانت نہیں کرتے؟ کیا ہم وقت کی پابندی کرتے ہیں؟ ہم اپنے عہد ایفا کرتے ہیں؟ بچوں سے شفقت اور بزرگوں سے اچھا برتاؤ کیا ہمارے معاشرے کی روایت ہے؟ ملاوٹ کرنے والے کو میرے بنی کریمﷺ نے کہا کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا مسلمان ملاوٹ نہیں کرتے۔ ذخیرہ اندوزی کے متعلق ہمیں احکامات یاد ہیں اور ہم ان پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے نہیں لڑتے؟ کیا جب ہم برتر ہوں تو انتقام میں صرف حدود اللہ کی پیروی کرتے ہیں یا مخالف کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں؟ ہمارے شر سے غیر مسلم تو کیا بچیں گے، کیا ہمارے مسلمان بھائی محفوظ ہیں؟ کیا ہم لوگ یتیم کا مال ناحق نہیں کھاتے؟ کیا عورت کو ہم وراثت میں حق دیتے ہیں؟ کیا بچے والدین کی مرضی سے شادی کرتے ہیں اور کیا والدین بچوں کی پسند معلوم ہونے پر خوش دلی سے ان کی شادیاں کر دیتے ہیں؟ کیا ہم ملازموں کو انسان سمجھتے ہین اور ان کے حقوق ادا کرتے ہیں؟ کیا ہمیں دنیا آخرت سے زیادہ عزیز نہیں ہے؟ کیا ہم زکوٰۃ مکمل اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم نماز ادا کرتے ہیں اور اگر کرتے ہیں تو کیا وہ ہمیں برے کاموں سے روکتی ہے؟ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر ان سوالوں کے جواب لے لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہم لوگ خود گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر ہم ماننے کو تیار نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سود کو حرام قرار دیا اور کہا کہ سودخور کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ہے۔ جبکہ ہمارا معاشرہ چل ہی سود کے پیسے پر رہا ہے تو ہم تو خود جنگ کر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے۔سو ہم کس منہ سے کافروں کو کہہ سکتے ہیں کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ نہ کرو۔کافر بھی وہی کر رہا ہے جو ہم دانستہ و نادانستہ کر رہے ہیں ۔ صرف طریقہء کار مختلف ہیں۔
اللہ اور اس کا رسول ﷺ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو تو کیا ہم نے وہ رسی پکڑی ہوئی ہے؟ حق بات یہ ہے کہ ہماری ہوا اکھڑ چکی ہے اور اب دشمن کی ہوائیں جہاں چاہیں ہمیں پٹخیں۔ اب ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں۔
یہ ہمارے اعمال ہیں کہ جن کی بناء پر دشمن ہمیں دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ کیسی قوم ہیں یہ؟ وہ میرے نبی ﷺ کو نہیں جانتا مگر مسلمانوں کو دیکھ کر ان کے نبی کا خاکہ بناتا ہے اور بدقسمتی سے
ہاتھ بےزور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
میرے اللہ کا اپنےنبی کریم ﷺ سے وعدہ کیا ہوا ہے ‘ورفعنا لک ذکرک ‘سو ان گستاخانہ خاکوں سے میرے نبی ﷺ کی شان میں تو کوئی فرق نہیں پرنا بلکہ وہ مزید بلند تر ہی ہو گی ۔ بقول اقبال
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اللہ کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ابابیلوں سے ابرہہ کا لشکر نیست و نابود کر سکتا ہے تویہ خاکے منعقد کرنے والے کس کھیت کی مولی ہیں۔ تاہم بار بار ان کا اعادہ کروا کر اللہ ہمیں سمجھانا چاہتا ہے کہ دیکھو اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو تم سے دنیا و آخرت کی سب سے قیمتی متاع چھین لی جائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لو اور سمجھ جاؤ۔ جب تم اپنے اعمال ٹھیک کر لو گے اور آپس میں ایک ہو جاؤ گے تو پھر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ تم پر غالب آئیں اور اپنی من مانی کریں۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اگست 29th, 2018
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: ایک