26 اگست 2017 بروز ہفتہ راولپنڈی آرٹس کونسل میں ‘ حرف اکیڈمی’ کے زیرِ اہمتام راقم کی کتاب ‘شگوفہء سحر’ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ ہمارے دوست تنزیل نیازی کے بقول یہ تقریبِ رونمائی نہیں بلکہ منہ دکھائی تھی تا کہ راقم ادبی حلقوں میں اجنبی نہ رہے۔ کتاب تو جنوری میں ہی شائع ہو گئی تھی مگر ہم چونکہ پاکستان میں نہیں تھے تو تقریب کا انعقاد ملتوی ہو گیا۔ جب پاکستان آئے تو رمضان تھا سو معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہوا۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیربھی تھا
تقریب کے انعقاد کا ارادہ ابتدا میں لاہور میں تھا مگر حالات کچھ ایسے بنے کہ لاہور میں کرنا تو کجا ہمیں اس کاانعقاد ہی خطرے میں محسوس ہوا اور ہم نے اس پر فاتحہ پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ایسے میں ابن نیاز کو حرف اکادمی کا خیال آیا اور عرفان خانی سے بات چیت کا کہا۔ ابن نیاز کی ملاقات معروف مصنفہ ‘میمونہ صدف’ کی کتاب پلک بسیرا کی تقریب میں عرفان خانی سے ملاقات ہو چکی تھی۔ عرفان خانی بہت اچھے شاعر اور انسان ہیں۔جلدہی ہم گھل مل گئے اور انھیں اپنی مجبوری بتائی تو انھوں نے 26 اگست کو تقریب کا وعدہ کر لیا۔ہمیں امید تو نہیں تھی کہ وعدہ ایفا ہو گا مگر حرف اکادمی کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔
تقریب کا وقت شام پانچ بجے تھا مگر ہم سوا پانچ یا اس کے بعد پہنچے۔ ایک وجہ تو ہمارے دوست اور کتاب کے پبلشر سمیع اللہ صاحب تھے۔ وہ عین ٹائم پرشہر میں آئے اور انھیں تقریب کے مقام کا علم نہ تھا۔انھوں نے ہم سے معلوم کیا تو ہم نے انھیں اپنے ہاں ہی بلوا لیا کہ ہمارے ساتھ ہی جائیں وہاں۔ سو ان کے آمد اور کچھ آرام میں وقت صرف ہو گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم وقت پر پہنچ کر یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ ہم تقریب اور صاحبِ محفل بننے کے لئے بے قرارہیں۔ دوسروں کی تقاریب پر ہمیشہ ہم وقت پر پہنچے اور منہ کی کھائی۔ اپنی تقریب میں کچھ تو اس کا بھی حساب چکتا کرنا تھا۔
تقریب شروع ہوئی تو عرفان خانی نے میزبانی کے فرائض سنبھال لئے ۔ ہمارے لئے عرفان صاحب خانی سے زیادہ ‘چھیڑخانی’ ثابت ہوئے کہ حاضرین کو ہمارے نجی واقعات بھی بتاتے رہے جو چند ملاقاتوں اور ہماری کتاب سے انھوں نے اخذ کیے۔۔اپنے تعارف میں انھوں نے راقم کو تقریب کا دولہا قرار دیا۔ یہ جو وہ بار بار سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اس کی وجہ ہی یہی تھی کہ ہم ان سے تقریب کی دلہن سے ملاقات کا تقاضا کر رہے تھے ورنہ ایسی بھی گرمی نہیں تھی وہاں۔ ہم پینٹ کوٹ میں وہاں بیٹھ سکتے تھے تو وہ شلوار قمیص میں کیوں نہیں۔ ہم نے دلہن کاکہا تو کہنے لگے کہ دولہا کو بولنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ دل ہی دل میں وہ دعا کر رہے تھے کہ ہماری گھر والے جلدی آئیں اور جوں ہی وہ ہال میں داخل ہوئے انھوں نے ہمیں اسٹیج پر بلا لیا۔ہم جو دلہن کا تقاضا کرنے کاارادہ کیے بیٹھے تھے، بیگم کو دیکھ کر ‘دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے’ پڑھ کر رہ گئے۔۔۔۔خانی کو دوچار ہم دل ہی دل میں کہہ گئے’۔ کتاب اور مزاح کے متعلق تھوڑی سی بات کی۔ اس کے بعد حاضرین اور حرف اکادمی کا شکریہ ادا کر کے اپنی کرسی کی راہ لی۔ہمارے دوستوں نے ، ہمارےمتعلق بولنے سے گریزکیا۔شہبازاکبر الفت نے آنے کا وعدہ کیا مگر فرائض منصبی آڑے آ گئے۔، احتشام شامی نے تو مضمون بھی لکھ لیا تھا مگر عین وقت پر ان کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ ابن نیاز نے تو پہلے ہی پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ آر ایس مصطفٰے اور نعیم احمد بھی نہیں آ پائے۔ پرویز نے بھی حامی بھر لی تھی مگر عین موقع پر جھنڈی دکھا دی۔ ایم اے تبسم کو دیکھ کر ہمیں حیرت بھری خوشی ہوئی کہ ہمیں ان کی آمد کی توقع ہی نہیں تھی۔ان سے کہا کہ اسٹیج کو رونق بخشیں تو انھوں نے بھی معذرت کر لی۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی ہمارے حق میں بولنے کی کوشش نہیں کی کہ سب ہی ہمیں اچھے سے جانتے ہیں۔سو کسی کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ ہمارے متعلق تھوڑا جھوٹ بول لے۔ ہمیں اس کا اندازہ تھا سو پہلے ہی عرفان خانی سے کہہ رکھا تھا کہ ہمیں تعریف کی حاجت نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کتاب پر تبصرہ بےلاگ ہو سو ایسے مہمانوں کو بولنے کا کہنا ہے جو ہمیں جانتے نہ ہوں ۔ہم اپنے معزز تبصرہ نگاروں کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ جنھوں نےہمارے اور کتاب کے متعلق وہ کچھ کہا کہ جس سے ہم بھی آگاہ نہیں تھے۔ بالخصوص نسیم سحر صاحب کے خطاب اور انداز بیاں نے تو محفل ہی لوٹ لی۔اسی تقریب کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں جعلی فیس بک آئی ڈیز کی تعداد کتنی زیادہ ہے۔ جب ہم نے اپنی تقریب کا اشتہار اپنے اور دوستوں کی ٹائم لائن پر لگایا تھا تو بقول تنزیل کے حامی بھرنے والوں کی اکثریت خواتین کی تھی۔ مگرتقریب میں انھیں اصلی حالت میں ہی آنا تھا۔ کسی تقریب میں خواتین نہ ہوں تو وہ تقریب تقریب نہیں لگتی جے آئی ٹی محسوس ہوتی ہے۔ ہماری تقریب بھی اللہ کے کرم اور خواتین کی آمد سے رنگین تھی۔تقریب سے پہلے خواتین اور لڑکیوں کی تعداد چار یا پانچ تھی۔ ہماری ہمشیرہ، والدہ اور بیگم ان کے علاوہ تھیں۔ ایک دو لڑکیاں تو سکندرِ اعظم سے متاثر تھیں کہ عین تقریب میں اٹھ کر چلی گئیں۔ وہ آئی اس نے دیکھا اور وہ چلی گئی کی عملی تصویر۔ تقریب کو بھی ہماری کلاس سمجھ بیٹھیں۔
تقریب کے بعد ہمارے دوست سمیع اللہ ایک کام سے گئے تو اپنا بیگ ہمیں پکڑا گئے کہ ذرا دھیان رکھنا۔ وہ ہم نے اپنے کندھے پر لٹکا لیا۔ ہم ساتھ ساتھ احباب کو آٹوگراف سے نواز رہے تھے۔ ہماری ہمشیرہ نے دیکھا کہ مشکل ہو رہی ہے تو انھوں نے وہ بیگ ہم سے لے لیاکیونکہ وہ سمجھیں کہ بیگ ہمارا ہے۔اب سمیع اللہ واپس آئے اور ہم سے بیگ کا پوچھا تو ہم نے اپنی ہمشیرہ سے لے کر دے دیا۔ہمشیرہ نے بیگ دے تو دیا مگر وہ سمجھیں کہ ہم نے کوئی چیز نکال کر دینی ہے سمیع اللہ کو۔ سو جب سمیع اللہ صاحب بیگ رکھتے ہماری ہمشیرہ ہمارا بیگ سمجھ کر اٹھا لیتیں اور سمیع صاحب دیکھتے ہی رہ جاتے۔ جب یہ چارپانچ بارہو چکا تو ہم نے اپنی بہن کو سمجھایا کہ بیگ انھی کا ہے ہم نے کچھ دیر کے لئے اسے اپنے پاس رکھا تو سمیع اللہ کو مال مسروقہ واپس ملا۔
ابن نیاز کا تقریب میں آنے کا ارادہ نہ تھا کہ وہ چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقے میں تھا۔ ہمارے پرزور اصرار پر بڑی مشکل سے شامل ہوا اور جونہی تقریب سے نکلا موٹر سائیکل سواروں نے اس کا موبائل چھین لیا۔ اس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے حق میں نہ بولنے کا نتیجہ ہے۔ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو مگر ایک اطمینان ضرور ہے کہ ہماری کتاب کی تقریب کل یادِ ماضی بن کر لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائے گی تو بھی ابن نیاز یہ دن کبھی بھلا نہ پائے گا۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: ستمبر 24th, 2018
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: 2
ٹیگز: humor, Humour, Ibn e Riaz, Shagufa e seher
مونا شہزاد
بتاریخ ستمبر 24th, 2018
بوقت 5:24 شام:
سب سے پہلے تو آپ کو آپ کی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد۔انتہائی دلچسپ انداز میں آپ کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جس کو پڑھ کر مجھے بہت لطف آیا۔ انشاءاللہ اگلی دفعہ پاکستان آونگی تو آپ کی کتاب سے مستفید ہونگی۔بے شمار دعائیں آپ کے اس سفر کے لئے۔
ابنِ ریاض
بتاریخ ستمبر 30th, 2018
بوقت 12:07 صبح:
بہت شکریہ دعائوں کے لئے ۔۔۔اللہ آپ کو بھی بہت آسانیاں دے