تحریر: ابنِ ریاض
ہمارے حلقہء احباب میں اکثر لوگ ہمہ جہت ہیں۔ ابنِ نیاز کو ہی دیکھ لیں۔ ایک دن کالم لکھتا ہے ، اگلے روز چھوٹا افسانہ۔ اس سے اگلے روز ناول کی ایک قسط، پھر نظم۔ جس دن کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا اس روز کسی کی تحریر کا پوسٹ مارٹم شروع کر دیتا ہے کہ نقاد بھی یہ کسی سے کم نہیں۔ ہمارے ایک اور دوست نجم الثاقب بھی کالم نگارہیں مگر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھار مزاح بھی لکھتے ہیں۔ کبھی شاعری کی رگ پھڑکتی ہے تو گھریلو اشیا کی شاعرانہ آپ بیتی سنا دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال شہباز اکبر الفت کا بھی ہے۔ ہر میدان کا کھلاڑی ہے۔ محترم نعیم جاوید، عرفان خانی اور طاہر فاروق جیسے کل وقتی شعرا سے بھی راقم کی نیاز مندی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم سے بھی اکثر شعر کی فرمائش ہوتی ہے۔ ہم ابنِ انشاء کے مداح ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے دوستوں کی مانند ہمہ جہت شخصیت تھے اور انھوں نے اردو ادب کو لازوال شاعری کا تحفہ بھی دیا ہے مگر ہم اس معاملے میں کورے ہیں۔ایک تو ہمیں خیالات کی کمی کا سامنا ہے اور دوسرا ان خیالات کو شعری قالب میں ڈھالنا ہمارے بس سے باہر ہے سو ہم چاہ کے بھی شعر نہیں لکھ پاتے۔
موجودہ دور میں آزاد شاعری نے شاعروں کے لئے کچھ آسانی پیدا کر دی ہے۔ آزاد شاعری میں ردیف و قافیہ اور اوزان کی اتنی قید نہیں ہوتی تاہم اس کے بھی کچھ قوانین ہیں مگر جیسے ہاکی میں آف سائیڈختم ہو گیا ہے ایسے ہی آزاد شاعری میں ردیف و قافیہ اور مخمس مسدس اور رباعی کی قید بھی۔ تاہم ہماری نظر سے جو موجودہ شاعری گزر رہی ہے اس میں شاعروں کی اکثریت نے شاعری کو مادر پدر آزاد کر دیا ہے۔ انھیں پڑھ کے شاعری کرنے کے ہمارے ارمان دل میں ہی رہ گئے ہیں۔
کچھ قابلِ ذکر شاعری آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ان میں کوئی بھی آزاد نظم نہیں ۔سب اشعار ہیں مگر پھر بھی وزن کا ہم سے مت پوچھیے گا۔
بن تیرے دل کی حالت کیا بتائوں
جیسے خالی بستہ ہو کسی نالائق بچے کا
اس شعر میں شاعر نے بظاہر تو بڑی اچھی مثال دی ہے مگر محاروہ غلط کر دیا ہے کیونکہ محاورہ اور ہمارا تجربہ دونوں کہتے ہیں کہ بچہ جتنا نالائق ہو بستہ اس کا اتنا ہی زیادہ بھاری ہوتا ہے۔
ایک اور شاعر کو محبوب کی نیم وا آنکھوں کا حسن دیکھنا مطلوب ہے
حسن دیکھا کریں گے تیری آنکھوں کا
کچی نیندوں سے جگا کر تم کو
شاعر شاید بھول رہا ہے کہ کسی کو کچی نیند سے جگایا جائے تو آنکھوں کا حسن دکھائی دے نہ دے زبان کا حسن ضرور دکھائی دیتا ہے۔
عشق ہر زمانے میں شاعری کی بنیاد رہاہے۔کسی شاعرنے اسے زندگی کا حاصل قرار دیا تو کسی کے نزدیک یہ روگ ہے تاہم درج ذیل شعر میں عشق کے مضمرات بیان کر کے اس کو جو بد دعا دی گئی ہے وہ اگر کوئی کلاسیکل شاعر بھی پڑھےتو سر دھننے بغیر نہیں رہےگا۔ آپ بھی پڑھیے اور شاعر کو دعا دیجیے۔
دن کو چین نہ رات کو چین
اے عشق تینوں کتے پین
اگلے شعر کا خالق غالباً باغبان ہے جبھی کلاسیکل مصرعے میں بھی اپنے فن کا رنگ ڈالنانہیں بھولا۔
تنہائی کو اور میں کیسےڈالوں کھاد
سرما کی ٹھٹھرتی شام اور تیری یاد
پرانے زمانے میں شاعر اپنے محبوب کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے تھے۔ محبوب بھلے پُورا پُورا ہی کیوں نہ ہو ،تشبیہہ اس کو چاند سے ہی دی جاتی تھی اور اس کی بھینگی آنکھوں کو بھی ہرنی جیسی آنکھیں کہا جاتا تھا جبکہ اس کے سفید بالوں کو سیاہ اندھیری رات کہا جاتا تھا مگر جدید شاعری میں مبالغے کی جگہ اب حقیقت نے لے لی ہے چنانچہ اب شاعر اپنے محبوب کی زلفوں کی قصیدہ کچھ یوں کہتا ہے
جن کی زلفوں کے ہم گھائل تھے
انکو خود جوئوں کے مسائل تھے
شاعرانہ تعلی کا استعمال بھی پرانی روایت ہے۔ اس میں شاعر اپنی تعریف کرتا ہے۔ اس میں تعلی کا استعمال کیا گیا ہے مگر شاعر نے یہ نہیں بتایا کہ خوف سے مرتے ہیں یا حسن پر مرتے ہیں۔ تاہم اس شعر میں لفظ غضب استعمال ہوا ہے سو سمجھ دار لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔
ایک غضب یہ کہ خوبصورت ہوں
دوسرایہ کہ لوگ بھی مرتے ہیں
رقیب کو اردوشاعری میں ہمیشہ برا ہی کہا گیا ہے۔ محبوب کا قرب حاصل کرنے اور رقیب کو محبوب سے دور رکھنے کے لئے شاعر حضرات کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں مگر ان کےہاتھ کچھ نہیں آتا۔ تاہم ایک جدید شاعرہ نے اس کا بھی حل نکال لیا ہے اور کیا خوب نکالا ہے
پہلو میں تیرے بیٹھنا چاہیں گے جب رقیب
پڑھنے لگوں گی قومی ترانہ میں ایک دم
ایسے ہی ایک شاعر فرماتے ہیں
میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے
جسے جو بات بھی کرنی ہے سرعام کرے
درج بالا شعر میں شاعر صاحب ان باکس میسجز سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی بھی اسے ان باکس نہ کرے بلکہ جو کہنا ہےبلکہ جسے جو کہنا ہے کمنٹ میں کہے۔
شادی پر سہرے تو بہت شاعروں نے کہے اور خوب داد و تحسین بھی پائی۔ علاوہ ازیں انعامات کے بھی مستحق ٹھہرے مگر جدید شاعر محض سہرا ہی نہیں کہتے بلکہ شادی کے مسائل ہر بھی بے دھڑک لکھتے ہیں جیسا کہ یہ شعر
جب بھی کسی شادی پر تمیز سے کھانا کھایا
کیا بتاؤں یارو میں بھوکا ہی اپنے گھر لوٹ آیا
کلاسیکل شعرا سرکاری نوکری کے مضمرات و فوائد پر نہیں لکھتے تھے کہ اس وقت انگریز حاکم تھا اور اس کا کہا حرفِ آخر ہوتا تھا مگر اب ہم آزاد ہیں اور سرکاری ملازم سےزیادہ آزاد کون ہو سکتا ہے۔ اس کا دل چاہے تو دفتر آئے اور دل چاہے تو کام کرے ورنہ کس میں مجال ہے کہ اس سے کوئی سوال جواب کرے۔ ایسے ہی مسئلے کا شکار شاعر بھی ہے جس کا فرمانا ہے کہ
تیری یادوں نے گورنمنٹ آفس بنا دیا دل کو
نہ کوئی بات سنتا ہے نہ کوئی کام کرتا ہے
الیکشن گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور اس کے اثرات بھی معاشرے اور بالخصوص شعرا پر بہت گہرے تھے۔ سو ایک شاعر اپنے محبوب کی مثال ایک الیکشن امیدوار سے دے کر اس کی بے وفائی اور ہرجائی فطرت کو یوں بیان کرتا ہے۔
وہ جیت تو چکا ہے میرے دل کا الیکشن لیکن ڈرہے
وہ آزاد امیدوار ہےکسی اور کا نہ ہو جائے
ان تمام اشعار کی بنیادی صفت ان کا سلیس ہونا ہے۔ بہت ہی آسان اردو میں ہیں تما م جدید اشعار ۔ علاوہ ازیں یہ روزمرہ واقعات ہیں اور ہم بھی ان کے چشم دید گواہ ہیں مگر ان واقعات کا اس طرح اشعار میں استعمال ہم نہیں کر سکتے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے قارئین اب تک ہماری شاعری سے محروم ہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اکتوبر 3rd, 2018
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: 2
ٹیگز: humor, Humour, Ibn e Riaz