تحریر: ابنِ انشاء
الہ دین نام تھا اور چراغؔ تخلص۔ وطن مالوف ریواڑی جوگڑ گاوں کے مردم خیز ضلع میں اہل کمال کی ایک بستی ہے اور آم کے اچار کے لیے مشہور۔ وہاں دھنیوں کے محلے میں ان کی خاندانی حویلی کے آثار اب تک موجود ہیں۔ نگڑ دادا ان کے اپنے فن کے خاتم تھے۔ شاہ غازی اورنگ زیب عالم گیر نے شہرہ سنا تو خلعت و پارچہ دے کر دلی بلوایا اور اپنی محل سرا کے لحاف بھرنے پر مامور کیا۔ اﷲ دتّہ نام تھا لیکن نداف الملک کے خطاب سے مشہور تھے۔ دلی میں یہ بارہ برس رہے۔
وجاہت خاندانی کے ساتھ دولت روحانی بھی استاد مرحوم کو ورثے میں ملی تھی۔ ننھیال کی طرف سے سولھویں پشت میں ان کا سلسلہ نسب نو گزے پیر سے جا ملتا ہے جن کا مزار اقدس پاکستان اور ہندوستان کے قریب قریب ہر بڑے شہر میں موجود ہے اور زیارت گہ خاص و عام ہے۔ انھی دونوں نسبتوں کا ذکر کر کے کبھی کبھی کہا کرتے کہ شاعری میرے لیے ذریعہ عزت نہیں۔ اپنے نام کے ساتھ ننگ اسلاف ضرور لکھا کرتے۔ دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی انھیں یہی لکھنا شروع کر دیا۔
استاد مرحوم کہ پورانام ان کا حضرت شاہ الہ دین چراغؔ چشتی نظام ریواڑوی تھا؛ ہمیں ہائی اسکول میں اُردو اور فارسی پڑھاتے تھے۔ وطن کی نسبت سے اردو تو ان کے گھر کی لونڈی تھی ہی، فارسی میں کمال کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ پچیس پشت پہلے ان کے مورثِ اعلیٰ خراسان سے آئے تھے۔ کیوں آئے تھے؟ یہ سوال راقم کے دل میں بھی اکثر اُٹھتا تھا۔ آخر ایک روز موقع دیکھ کر پوچھ لیا اور احتیاطاً وضاحت کر دی کہ مقصد اعتراض نہیں، دریافت معلومات ہے۔ فرمایا، ”بابر کیوں آیا تھا؟ احمد شاہ ابدالی کیوں آیا تھا؟“
اب جو راقم نے اس سوال نما جواب کی بلاغت پر غور کیا تو اپنی کم فہمی پر بے حد شرمندگی ہوئی۔ بابر نہ آتا تو ابراہیم لودھی کس سے شکست کھاتا؟ خاندان مغلیہ کہاں سے آتا؟ اتنی صدیاں ہندُستان کی رعایا بادشاہوں کے بغیر کیا کرتی؟ مالیہ اور خراج کس کو دیتی؟ کچھ ایسی ہی حکمت استاد مرحوم کے مورث اعلیٰ کے ہندُستان آنے میں ضرور ہوگی، جس تک معمولی ذہن کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ خیر یہ ذکر تو ضمناً آگیا۔ مقصود کلام یہ کہ خراسان کی نسبت سے فارسی ایک طرح ان کے گھر کی زبان تھی۔ عربی کے بھی فاضل تھے، اگرچہ باقاعدہ نہ پڑھی تھی۔ عزیزم اسرار احمد کا نکاح خان بہادر ولایت علی کی پوتی سے ہوا، تو استاد مرحوم ہی نے نکاح پڑھایا تھا اور کوئی کاغذ پرچا سامنے رکھے بغیرماشا ﷲ، استغفر اﷲ، نعوذ باﷲ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور ایسے ہی کئی اور عربی کے جملے بے تکان بولتے تھے۔ خیر خراسان بھی کہیں عرب ہی کی طرف کو ہے۔ لہذا عربی پر ان کا عبور جائے تعجب نہیں۔ ہاں انگریزی کی لیاقت جو انھوں نے ازخود پیدا کی تھی، اس پر راقم کو بھی حیرت ہوتی تھی۔ ایک بار ایک دیہاتی منہ اٹھائے ان کی کلاس میں گھس آیا، حضرت نے فوراً انگریزی میں حکم دیا۔ گٹ آوٹ۔ اسے تعمیل کرتے ہی بنی۔ علاقے کا مال افسر انگریز تھا۔ ایک روز اسکول میں نکل آیا اور آدھا گھنٹا گفت گو کرتا رہا۔ استاد مرحوم برابر سمجھتے گئے اور سر ہلاتے گئے۔ بیچ بیچ میں موقع بہ موقع یس یس اور پلیز پلیز بھی کہتے جاتے تھے۔
پرانے بزرگوں سرسید، حالی، شبلی وغیرہ کے متعلق سنا ہے کہ انگریزی سمجھتے خوب تھے لیکن بولنا پسند نہ کرتے تھے۔ ہمارے استاد کا بھی یہی عمل تھا۔ ہمیں انگریزی میں ان کے تبحر کا پہلے علم نہ تھا۔ ہوا یہ کہ ایک روز ہماری انگریزی کی کلاس میں نکل آئے اور پوچھا لڑکو بتاو تو ماش کی دال کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟ سب چپ۔ کون بتاتا۔ پھر سوال کیا۔ کریلے کی انگریزی کیا ہے؟ یہ بھی کوئی نہ بتا سکا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ آخر استاد مرحوم نے بتایا اور ’انگلش ٹیچر‘ کھول کر اس کی تصدیق بھی کرا دی۔
یہ کتاب جو انگریزی کے علم کا قاموس ہے، سفر و حضر میں استاد مرحوم کے ساتھ رہتی تھی اور بڑے بڑے انگریزی دان ان کے سامنے آنے سے کتراتے تھے کہ جانے کب کس ترکاری کا انگریزی نام پوچھ لیں۔ انگریزی تحریر پر ان کی قدرت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ دست خط انگریزی ہی میں کرتے تھے۔
استاد مرحوم نے اہل زبان ہونے کی وجہ سے طبیعت بھی موزوں پائی تھی اور ہر طرح کا شعر کہنے پر قادر تھے۔ اردو فارسی میں ان کے کلام کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو غیرمطبوعہ ہونے کی وجہ سے اگلی نسلوں کے کام آئے گا۔ اس علم و فضل کے باوجود انکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اسکول میگزین میں جس کے یہ نگران تھے، ایڈیٹر نے استاد مرحوم کے متعلق لکھ دیا کہ وہ سعدی کے ہم پلہ ہیں۔ انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ اسکول میگزین کا یہ پرچا ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اور ایک ایک کو دکھاتے کہ دیکھو لوگوں کی میرے متعلق یہ رائے ہے، حالاں کہ من آنم کہ من دانم۔ ایڈیٹر کو بھی جو دسویں جماعت کا طالب علم تھا، بلا کر فہمائش کی کہ عزیزی یہ زمانہ اور طرح کا ہے۔ ایسی باتیں نہیں لکھا کرتے۔ لوگ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ حسد کے مارے جانے کیا کیا کہتے پھریں گے۔
اہل علم خصوصاً شعرا کے متعلق اکثر یہ سنا ہے کہ ہم عصروں اور پیش رووں کے کمال کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ استاد مرحوم میں یہ بات نہ تھی بہت فراخ دل تھے۔ فرماتے، غالب اپنے زمانے کے لحاظ سے بہت اچھا لکھتا تھا۔ میر کے بعض اشعار کی بھی تعریف کرتے۔ امیر خسرو کے بھی معترف تھے۔ برملا کہتے کہ ذہین آدمی تھے اور ان کی کہہ مکرنیاں ہمیشہ یادگار رہیں گی۔
امیرخسرو کی ایک غزل استاد مرحوم کی ایک غزل کی زمین میں ہے۔ فرماتے، انصاف یہ ہے کہ پہلی نظر میں فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کون سی بہتر ہے۔ پھر بتاتے کہ امیر خسرو مرحوم سے کہاں کہاں محاورے کی لغزش ہوئی ہے۔ اقبال ؒ کے متعلق کہتے تھے کہ سیالکوٹ میں ایسا شاعر اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ اس شہر کو ان کی ذات پر فخر کرنا چاہیے۔ ایک بار بتایا کہ اقبال سے میری خط کتابت بھی رہی ہے دو تین خط علامہ مرحوم کو انھوں نے لکھے تھے کہ کسی کو ثالث بنا کر مجھ سے شاعری کا مقابلہ کر لیجیے۔ راقم نے پوچھا نہیں کہ ان کا جواب آیا کہ نہیں۔
استاد مرحوم کو عموماً مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا تھا کیوں کہ سب پر چھا جاتے تھے اور اچھے اچھے شاعروں کو خفیف ہونا پڑتا۔ خود بھی نہ جاتے تھے کہ مجھ فقیر کو ان ہنگاموں سے کیا مطلب۔ البتہ جوبلی کا مشاعرہ ہوا تو ہمارے اصرار پر اس میں شریک ہوئے اور ہر چند کہ مدعو نہ تھے منتظمین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دیوانہ کسمنڈوی، خیال گڑگانوی او ر حسرت بانس بریلوی جیسے اساتذہ اسٹیج پر موجود تھے۔ اس کے باوجود استاد مرحوم کو سب سے پہلے پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ وہ منظر اب تک راقم کی آنکھوں میں ہے کہ استاد نہایت تمکنت سے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مائیک پر پہنچے اور ترنم سے اپنی مشہور غزل پڑھنی شروع کی۔
ہےرشتہ غم اور دل مجبور کی گردن
ہے اپنے لیے اب یہ بڑی دُور کی گردن
ہال میں ایک سناٹا چھا گیا۔ لوگوں نے سانس روک لیے۔ استاد مرحوم نے داد کے لیے صاحب صدر کی طرف دیکھا لیکن وہ ابھی تشریف نہ لائے تھے، کرسی صدارت خالی پڑی تھی۔ دوسرا شعر اس سے بھی زوردار تھا:
صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا
اور دار پہ ہے حضرت منصور کی گردن
دوسرا مصرع تمام نہ ہوا تھا کہ داد کا طوفان پھٹ پڑا۔ مشاعرے کی چھت اُڑنا سُنا ضرور تھا، دیکھنے کا اتفاق آج ہوا۔ اب تک شعرا ایک شعر میں ایک مضمون باندھتے رہے ہیں وہ بھی بمشکل۔ اس شعر میں استاد مرحوم نے ہر مصرع میں ایک مکمل مضمون باندھا ہے اور خوب باندھا ہے۔ لوگ اسٹیج کی طرف دوڑے۔ غالباً استاد مرحوم کی پابوسی کے لیے۔ لیکن رضاکاروں نے انھیں باز رکھا۔ اسٹیج پر بیٹھے استادوں نے جو یہ رنگ دیکھا تو اپنی غزلیں پھاڑ دیں اور اٹھ گئے۔ جان گئے تھے کہ اب ہمارا رنگ کیا جمے گا۔
ادھر لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ تیسرے شعر ہی پر فرمائش ہونے لگی۔ مقطع پڑھیے۔ مقطع پڑھیے۔۔۔ چوتھے شعر پر مجمع بے قابو ہو رہا تھا کہ صدر جلسہ کی سواری آگئی اور منتظمین نے بہت بہت شکریہ ادا کر کے استاد مرحوم کو بغلی دروازے کے باہر چھوڑ کر اجازت چاہی۔ اب ضمناً ایک لطیفہ سن لیجیے جس سے اخبار والوں کی ذہنیت عیاں ہوتی ہے۔
دوسری صبح روزنامہ ’پتنگ‘ کے رپورٹر نے لکھا کہ جن استادوں نے غزلیں پھاڑ دی تھیں، وہ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ عجب نامعقول مشاعرے میں آگئے ہیں۔ لوگوں کی بے محابا داد کو اس بد باطن نے ہوٹنگ کا نام دیا اور استاد مرحوم کے اس مصرع کو صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا۔ بوجہ لاعلمی یا شرارت بجائے توارد کے سرقہ قرار دیا۔ بات فقط اتنی تھی کہ منتظمین نے ایڈیٹر پتنگ کے اہل خانہ کو مشاعرے کے پاس معقول تعداد میں نہ بھیجے تھے۔ اگر یہ بات تھی تو اسے منتظمین کے خلاف لکھنا چاہیے تھا نہ کہ استاد مرحوم کے خلاف اور پھر اس قسم کے فقروں کا کیا جواز ہے کہ استاد چراغ شعر نہیں پڑھ رہے تھے روئی دُھن رہے تھے۔ صحیح محاورہ روئی دھننا نہیں روئی دھنکنا ہے۔
اس دن کے بعد سے مشاعرے والے استاد مرحوم کا ایسا ادب کرنے لگے کہ استاد اپنی کریم النفسی سے مجبور ہو کر پیغام بھجوا دیتے کہ میں شریک ہونے کے لیے آرہا ہوں تو وہ خود معذرت کرنے کے لیے دوڑے آتے کہ آپ کی صحت اور مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ استاد تو استاد ہیں۔ ہمیں ان کے ناچیز شاگردوں کو بھی رقعہ آجاتا کہ معمولی مشاعرہ ہے۔ آپ کے لائق نہیں۔ زحمت نہ فرمائیں۔
استاد مرحوم کو رباعی، قصیدہ، غزل وغیرہ کے علاوہ تضمین سے خاص دل چسپی تھی۔ میونسپلٹی کے چیئرمین کے بچے کے ختنے پر جو دھوم دھامی مشاعرہ ہوا۔ اس کے لیے آپ نے غالبؔ کی غزل کی مخمس میں تضمین کی تھی۔ اس پر بے انتہا داد ملی۔ جب یہ بند کے چوتھے اور پانچویں مصرع پر آتے لوگ سبحان اﷲ اور جزاک اﷲ کے ڈونگرے برساتے۔
یہ سچ ہے کہ استاد مرحوم کا نام اتنا مشہور نہ ہوا جتنا ان کے ہم عصروں اقبالؔ، حفیظؔ، جوشؔ وغیرہ کا۔ بات یہ ہے کہ یہ زمانہ پروپیگنڈےکاہے اور استاد مرحوم نام و نمود اور چھپنے چھپانے کے قائل نہ تھے۔ ایک بار راقم نے استاد مرحوم کے ایما پر ان کی کچھ غزلیں مختلف رسالوں کو بھجوائی تھیں۔ ان میں سے ایک لالہ چونی لال خستہؔ کے ریواڑی گزٹ میں آب و تاب سے چھپی لیکن باقی واپس آگئیں۔ آیندہ کے لیے منع کر دیا اور اپنی طرف اشارہ کر کے یہ شعر پڑھا:
اے تماشا گاہِ عالم روئے تو!
تو کجا بہرِ تماشا می روی
یہی حال ان کے مجموعوں کا ہوا۔ اپنا کلام مضبوط ولائتی کاغذ پر لکھتے تھے اور جب پورا رجسٹر ہوجاتا تو اس کی جلد بندھوا کر جلد اوّل، جلد دوم وغیرہ لکھ کر الماری میں سجا دیتے۔ مولانا کے ہاں مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ تھا اور ایک بات میں تو یہ ذخیرہ برٹش میوزیم، انڈیا آفس، خدا بخش لایبریری وغیرہ کے ذخیروں سے بھی ممیز اور فائق سمجھنا چاہیے۔ ان کتب خانوں میں سب مخطوطات پرانے زمانے کے ہیں۔ بعض تو ہزار ہزار سال پرانے۔ خستہ اور بدرنگ۔ ہاتھ لگاو تو مٹی ہو جائیں لیکن استاد مرحوم کے سبھی مخطوطات نہایت اچھی شکل میں تھے اور زیادہ تر ان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے بیسویں صدی کے، مخطوطات کا اتنا بڑا ذخیرہ غالباً کسی کے پاس نہ ہوگا۔
استاد کی چیزیں جو طباعت کے عیب سے آلودہ نہ ہوئیں، اسے بھی راقم مصلحت خداوندی سمجھتا ہے۔ اگر سبھی چیزیں چھپ جایا کریں تو قلمی نسخے کہاں سے آیا کریں اور قلمی نسخے نہ ہوں تو لوگ ریسرچ کس چیز پر کریں اور ریسرچ نہ ہو تو ادب کی ترقی رک جائے اور پی ایچ ڈی نقاد پیدا ہونے بند ہوجائیں۔
راقم نے ایک بار عرض کیا کہ ان نوادر کو تو کسی ریسرچ لایبریری میں ہونا چاہیے۔ فرمایا۔ میرا اپنا یہی خیال تھا اور میں نے پنجاب یونیورسٹی لایبریری کو لکھا بھی تھا اور مسودات کی فہرست منسلک کی تھی۔ ان بے چاروں نے شکریہ ادا کیا۔ لیکن معذرت کی کہ فی الحال ہماری لایبریری میں جگہ کی کمی ہے البتہ نعمت اﷲ کباڑی مرحوم کہ دہلی کے ایک علم دوست گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اکثر ان کے گھر کے چکر کاٹتے تھے اور مخطوطات جدید و مفید کا یہ سارا ذخیرہ اٹھانے کو تیار تھے۔ اماں بی یعنی استاد مرحوم کی منجھلی اہلیہ نے کئی بار کہا بھی کہ اس وقت اچھا بھاو جارہا ہے۔ تلوا دو لیکن استاد مرحوم نے کبھی لالچ گوارا نہ کیا۔ جواب دیا تو یہی کہ میرا مقصد جلب منفعت نہیں، خدمت ادب ہے۔
استاد مرحوم کا خط نہایت پاکیزہ اور شکستہ تھا۔ کسی خاص صنعت میں لکھتے تھے۔ جس کا نام اس وقت راقم کے ذہن سے اتر گیا ہے۔ خوبی اس کی یہ ہے کہ صرف لکھنے والا اسے پڑھ سکتا ہے۔ راقم التحریر کے املا میں بھی جو لوگوں کو یہ خصوصیت نظر آتی ہے، ادھر ہی کا فیضان ہے۔
طبیعت میں ایجاد کا مادہ تھا۔ لکیر کے فقیر نہ تھے۔ اب اسی لفظ فیضان کو لیجیے۔ اسے وہ ظ سے لکھتے تھے۔ ایک بار طوطا رام صیاد نے اس پر اعتراض بھی کیا۔ یہ صاحب ہوشیار پور کے رہنے والے تھے اور معمولی تعلیم یافتہ تھے۔ استاد مرحوم نے چمک کر جواب دیا۔ یہ ہماری زبان ہے پیارے۔ ہم جیسا لکھیں گے وہی سند ہو گا۔ ماسٹر جی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ بعد میں راقم کو استاد مرحوم نے ایک مستند قلمی نسخے میں فیضان ظ سے لکھا ہوا دکھایا۔ اس نسخے کا نام یاد نہیں۔ لیکن کم از کم پچیس سال پرانا ہو گا اور خود استاد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ ان شہادتوں کے باوجود وسیع القلب اتنے تھے کہ آخر عمر میں فرمایا کرتے۔ ض سے لکھنا بھی غلط نہیں۔ اسی طرح بہت سے اور الفاظ تھے۔ جن کا تلفظ اور املا وہ رواج عام سے ہٹ کر کرتے تھے۔ کوئی انگشت نمائی کرتا تو جواب دیتے کہ ہمارے گڑ گاوں میں یونھی لکھتے اور بولتے ہیں۔ معترض چپ ہو جاتا۔
استاد مرحوم کے اوصاف حمیدہ کا حال لکھنے کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ اس مضمون میں اس کی گنجایش نہیں۔ مختصر یہ کہ دریا دل آدمی تھے۔ کوئی شخص کوئی چیز پیش کرتا تو کبھی انکار نہ کرتے۔ دوسری طرف اس بات کا خیال رکھتے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔ کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو نہ صرف یہ کہ خود کچھ نہ دیتے۔ دوسروں کو بھی منع کر دیتے تھے کہ یہ بھی تمھاری طرح انسان ہے۔ اس کی خود داری مجروح ہو گی۔ اس شخص کو پند نصائح سے مطمئن کر کے بھیج دیتے۔
استاد مرحوم کی طبیعت خوشامد سے نفور تھی۔ راقم کو معلوم نہیں کہ محکمہ تعلیم کے افسروں اور ڈپٹی کمشنر کے علاوہ، کہ حاکم ضلع ہونے کے لحاظ سے اولو الامر کی تعریف میں آتے ہیں۔ انھوں نے کبھی کسی کا قصیدہ کہا ہو، البتہ کسی افسر یا سیٹھ کے ہاں شادی ہو تو سہرا کہہ کر لے جاتے اور ترنم سے پڑھ کر سناتے۔ فرماتے یہ وضع داری ہے۔ اس کا انعام کسی نے دے دیا تو لے لیا ورنہ اصرار نہ کرتے۔ اشاعت تعلیم سے دل چسپی تھی۔ چناں چہ ہیڈ ماسٹر صاحب اور انسپکٹر تعلیمات کے بچوں کو پڑھانے جایا کرتے تھے۔
استاد مرحوم کا مسلک صلح کل تھا۔ جس زمانے میں مولوی محمد عمر انسپکٹر تعلیمات تھے یہ تنظیم اہل سنت کے جلسوں میں باقاعدگی سےشریک ہوتے تھے۔ ان کی جگہ ظلّ حسنین امروہوی آئے تو اِن کو تنظیم سے شکایتیں پیدا ہو گئیں۔ اور اثنا عشری مسجد میں دیکھے جانے لگے۔ اہل بیت کے جو مرثیے ان کے دیوان میں ہیں، اسی زمانے کے ہیں۔ کچھ دنوں قاضی نور احمد کا تقرر بھی اس خدمت پر رہا۔ یہ قادیانی احمدی تھے۔ استاد مرحوم ان دنوں برملا فرماتے کہ مجھے تو اگر اسلام کی سچی روح کہیں نظر آتی ہے تو انھی کے ہاں۔ اس سال عید کی نماز انھوں نے احمدیوں کی مسجد میں پڑھی۔ فرماتے سبھی خدا کے گھر ہیں۔ کوئی فرق نہیں۔ پنڈت رادھے شیام ہیڈ ماسٹر ان سے ہمیشہ خوش رہے۔ انھیں استاد مرحوم ہی سے معلوم ہوا تھا کہ کرشن جی باقاعدہ نبی تھے اور تورات میں ان کی آمد کا ذکر ہے۔
موسیقی سے شغف تھا اور گلے میں نور بھی تھا۔ لیکن محلے والے اچھے نہیں تھے۔ استاد کی خواہش تھی کہ شہر سے باہر تنہا کوئی مکان ہو تو دل جمعی سے تکمیل شوق کریں۔ ویسے کبھی کبھی محفل میں ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے تھے کہ یہی ان کا محبوب ساز تھا۔ اور سہگل مرحوم کی مشہور غزل ’’نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے‘‘، سنانی شروع کر دیتے۔ ایسے موقع پر نکتہ شناس لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کر کے ایک ایک کر کے اُٹھ جاتے کیوں کہ اس فن کے ریاض کے لیے تنہائی ضروری ہے۔
استاد مرحوم ہاتھ دیکھنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور طبیب حاذق بھی تھے۔ آخر میں طبابت تو انھوں نے ترک کر دی تھی۔ کیوں کہ ایک مریض کے رشتہ داروں نے جو ان کے زیر علاج تھا اور ان کی تیر بہدف دوا ’حکمی‘ کی ایک خوراک کھانے کے بعد خالق حقیقی سے ملا تھا، بے وجہ ایک فساد کھڑا کر دیا تھا اور نوبت پولیس تھانے تک پہنچی تھی۔
دست شناسی کا شوق البتہ جاری رہا۔ طبابت کی طرح اس فن میں بھی نہ کسی کے شاگرد تھے نہ کوئی کتاب پڑھی۔ خود فرماتے مبدا فیاض کی دین ہے۔ ماضی کا حال نہایت صحت سے بتاتے۔ لیکن اجنبیوں کا ہاتھ دیکھنا پسند نہ کرتے تھے۔ انھی سے کھلتے جن سے دیرینہ واقفیت اور رسم و راہ ہوتی۔ مستقبل کے بارے میں ان کا اصول تھا کہ لوگوں کو صحیح بات نہ بتانی چاہیے۔ ورنہ ان کا تقدیر اور عالم غیب پر سے ایمان اُٹھ جاتا ہے۔ اس فن سے ان کی آمدنی خاصی تھی اور اسی پر قانع تھے۔ اسکول کی تن خواہ بچا کر خدا کر راہ میں لوگوں کو سود پر دے دیتے تھے۔
ایسی دیدہ زیب شخصیتیں چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہوں گی جیسے استاد چراغ رحمتہ اللہ علیہ تھے۔ قد پانچ فٹ سے بھی نکلتا ہوا۔ جسم بھرابھرا خصوصاً کمر کے آس پاس۔ سر پر میل خورے کپڑے کی ٹوپی اور اس کے ساتھ کی شیروانی۔ راقم نے کبھی ان کو ٹوپی کے بغیر نہ دیکھا۔ ایک بار خود ہی فرمایا کہ ایک تو یہ خلاف تہذیب ہے۔ دوسرے کوّے ٹھونگیں مارتے ہیں۔ ٹانگیں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ جس کی وجہ سے چال میں بچوں کی سی معصومیت تھی۔ رنگ سرمئی، آنکھیں سُرخ و سفید اور پھر جلال ایسا کہ مائیں دیکھ کر بچوں کو چھپا لیتی تھیں۔ دانت تمباکو خوری کی کثرت سے شہید ہو گئے تھے۔ لہٰذا تمباکو چھوڑ دیا تھا۔ فقط نسوار کا شوق رکھا تھا۔ چشمہ لگاتے تھے لیکن ہماری طرح چشمے کے غلام نہ تھے۔ بالعموم اس کے اوپر سے دیکھتے تھے۔
سرخ کمربند میں چابیوں کا گچھا چاندی کے گھنگھرووں کی طرح بجتا۔ دور ہی سے معلوم ہو جاتا کہ حضرت تشریف لا رہے ہیں۔ ایک ہاتھ میں چھہ انگلیاں تھیں۔ اس لیے گیارہ تک با آسانی گن لیتے تھے۔ حواس پر ایسا قابو تھا کہ جس محفل میں چاہتے بیٹھے بیٹھے سو جاتے اور خراٹے لینے لگتے۔ پھر آپ ہی آپ اُٹھ بھی بیٹھتے۔ کھانے کا شوق ہمیشہ سے تھا۔ خصوصاً دعوتوں میں۔ فرماتے کھانے میں دو خوبیاں ہونی چاہیں۔ اچھا ہو اور بہت ہو۔ کھانے کے آداب کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ سب سے پہلے شروع کرو اور سب سے آخر میں ختم کرو۔
جس ضیافت میں استاد مرحوم ہوتے، لوگ کھاتے کم اور ان کی طرف رشک سے دیکھتے زیادہ تھے لیکن یہ جوانی کی باتیں ہیں۔ آخر عمر میں پرہیزی کھانا کھانے لگے۔ میزبان کے ہاں پہلے سے کہلوا دیتے کہ یخنی وغیرہ کا انتظام کر لینا اور میٹھے میں سوائے حلوے کے اور کچھ نہ ہو۔ چوزے کے متعلق فرماتے کہ زود ہضم ہے، خون صالح پیدا کرتا ہے۔ دال سے احتراز فرماتے کہ نفخ پیدا کرتی ہے۔
بذلہ سنجی استاد مرحوم کی طبیعت میں ایسے تھی جیسے باجے میں راگ، جیسے تلوار میں جوہر۔ ’’لطائف بیربل و ملا دو پیازہ‘‘ کے سب لطیفے نوک زبان تھے۔ ان سے محفلوں کو گرماتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ لطیفوں کی تخصیص نہیں، لوگ ان کی دوسری باتوں پر بھی ہنستے تھے۔
ایسا بڑا آدمی اور سادگی کا یہ عالم کہ کبھی خیال نہ کیا کہ لباس میلا ہے یا پیوند لگا ہے۔ فرماتے انسان کا مَن اُجلا ہونا چاہیے تن تو ایک عارضی چولا ہے۔ اس مضمون کا کبیر کا ایک دوہا بھی پڑھتے۔ کپڑا پہننے کا سلیقہ تھا۔ ایک کالی اچکن کو پورے بیس سال تک چلایا۔ جب سردی آتی۔ اس کو جھاڑ کر پہن لیتے۔ فرماتے کپڑے کے دشمن دو ہیں۔ دھوبی اور استری۔ واقعی سچ ہے۔ یہ اچکن جو آخر میں ملگجے رنگ کی ہو گئی تھی اور دور سے چرمی نظر آتی تھی، دھوبی اور استری کے ہتھے چڑھ جاتی تو کبھی کی غارت ہو گئی ہوتی۔
ایک روز اسے پہنے راقم کے ہم راہ کسی قوالی میں جا رہے تھے۔ قوالی کرنے نہیں، سننے، کہ چوراہے پر رکنا پڑا۔ ایک مرد شریف نے نہ جانے کیا خیال کر کے ان کے ہاتھ پر ٹکا رکھ دیا۔ راقم کچھ کہنے کو تھا کہ استاد مرحوم نے اشارے سے منع کر دیا اور ٹکا جیب میں ڈال لیا۔ یہی حال جوتے کا تھا۔ فرماتے جوتا ایسی چیز ہے کہ کبھی ناکارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ تلا پھٹ جاتا تو نیا لگوا لیتے۔ اوپر کا حصہ پھٹ جاتا تو اسے بدلوا لیتے۔ داڑھی مہاراجا رنجیت سنگھ کی طرح پر رُعب، گھنی اور لمبی۔ اسے ترشواتے نہیں تھے۔ فرماتے خدا کا نور ہے۔ بعض لوگوں کو گمان تھا کہ پیسا بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ ان کے پاس پیسے بہت تھے اور جمع کرنے کا شوق بھی تھا لیکن پیسے کی طمع ان میں نہ تھی۔
استاد مرحوم یوں تو اپنے سبھی شاگردوں سے محبت کرتے تھے۔ حاجی امام دین سوختہ بیکری والے، خلیفہ اے۔ ڈی۔ مقراض مالک جنٹل مین ہیرکٹنگ سیلون۔ حسین بخش مدعی، عرائض نویس وغیرہ سبھی ان کے اخلاق حسنہ اور الطاف عمیم کی گواہی دیں گے لیکن راقم سے ان کو ربط خاص تھا۔ فرماتے میرے علم و فضل کا صحیح جانشین تو ہو گا۔ رات کا کھانا اکثر راقم کے ساتھ کھاتے اور وقت کی پابندی کا لحاظ اس درجہ تھا کہ ادھر ہم دسترخوان پر بیٹھے ادھر استاد مرحوم پھاٹک سے نمودار ہوئے۔ بچوں سے لگاو تھا، جو بچہ ہمت کر کے ان کے قریب آتا انعام پاتا۔ ایک بار راقم کے بڑے بھتیجے کو ایک اکنی دی تھی۔ وہ اب تک استاد مرحوم کی یادگار کے طور پر رکھے ہوئے ہے۔
ایک دن فرمایا ۔ ایک بات کہوں؟ راقم نے عرض کیا۔ فرمائیے۔ بولے جھوٹ تو نہ سمجھو گے؟ راقم نے کہا۔ خانہ زاد کی کیا مجال! فرمایا۔ تو کان کھول کر سنو۔ میری نظر میں تم جوش، جگر وغیرہ بلکہ آج کل کے سبھی شاعروں سے اچھا لکھتے ہو۔ راقم نے آب دیدہ ہو کر ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ سب آپ کا فیض ہے۔ ورنہ بندہ کچھ بھی نہ تھا۔ قارئین اسی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ استاد مرحوم کی نظر کتنی گہری تھی اور رائے کتنی صائب۔
ان کا یہ قول راقم نے اکثر لوگوں کو سنایا۔ بعضوں نے جو انصاف پسند تھے، اعتراف کیا کہ ہاں ایسے استاد کا ایسا شاگرد کیوں نہ ہو۔ کچھ ایسے بھی تھے۔ جنھوں نے کہا کہ یہ بات شاید استاد نے فقط تمھارا دل بڑھانے کو کہی ہو۔ ان سے راقم کیا بحث کرتا۔ یہی کہا کہ آپ جو فرمائیں بجا ہے، لیکن دل میں سوچا کہ جس شخص کو زندگی بھر تملق اور زمانہ سازی سے واسطہ نہ رہا ہو وہ اس بات میں کیوں مبالغہ کرنے لگا۔ اور پھر اپنے ایک ادنیٰ شاگرد کے لیے؟
۱۹۶۳ء عجب ظالم سال تھا۔ اس میں دنیا کو ایک طرف صدر کینیڈی کا داغ دیکھنا پڑا اور دوسری طرف علم و فضل اور جود و سخا کا یہ آفتاب جس نے واقعی چراغ بن کر زمانے کو روشن کیا تھا، غروب ہو گیا۔ عمر عزیز کے ۸۲ برس ابھی پورے نہ ہوئے تھے۔ کچھ دن باقی ہی تھے، ہائے استاد!
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و دستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
وصال تاندلیانوالہ ہی میں ہوا جہاں استاد مرحوم پاکستان بننے کے بعد مقیم ہو گئے تھے اور گھی کی آڑھت کرتے تھے۔ سنا ہے معمولی بخار ہوا تھا۔ اور ہر چند کہ اپنے ہی مجربات سے علاج کیا، طبیعت بگڑتی ہی گئی۔ راقم کو خبر ملی تو دنیا آنکھوں میں اندھیر ہو گئی۔ بے ساختہ زبان سے نکلا۔ ’’ہائے الہ دین کا چراغ بجھ گیا‘‘۔ عدد گنے تو پورے ۱۳۸۳ھ کیسی برجستہ اور سہل ممتنع تاریخ ہے۔ آج استاد مرحوم زندہ ہوتے تو اس کی داد دیتے۔ اُستاد کے خاندان کی کیفیت بھی مختصر الفاظ میں عرض کر دوں۔
چارشادیاں تھیں۔ پانچویں عمر بھر نہ کی، کیوں کہ شرع سے انحراف منظور نہ تھا۔ آہ بھر کر فرماتے جب تک چاروں زندہ ہیں۔ ایک اور کیسے کرلوں۔ شرع میں چار کی اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ہے کہ سلوک یک ساں ہو۔ سو الحمد اللہ کہ چاروں کا سلوک ان سے یک ساں تھا۔ لیکن استاد بھی ایسے صابر تھے کہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ اولاد صرف ایک سے ہوئی۔ امید ہے کہ عزیز مکرم ہدایت علی ان کے فرزند اکبر جو خود بھی موزوں طبع ہیں اور فراغ تخلص کرتے ہیں، اپنے والد کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے۔
رسمی تعلیم ان کی زیادہ نہیں۔ صفائے باطن کے مراحل فقیروں کے تکیوں اور قوالی کی محفلوں میں طے کیے۔ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ استاد مرحوم کے وصال کے بعد سر عام شراب پینا انھوں نے ترک کر دیا ہے۔ اور افیم بھی اب اعتدال سے کھاتے ہیں۔ یہ بھی اپنے نامی والد کی طرح رُپے کو ہاتھ کا میل سمجھتے ہیں۔ لہٰذا تعزیت کے خط کے جواب میں فوراً پانچ سو رُپے منگوا بھیجے۔
راقم نے لکھا کہ عزیزی اس خانوادے پر متاع دل و جان نثار کر چکا ہوں۔ رُپیا کیا پیچھے رہ گیا؟ تم یوں کرو کہ استاد مرحوم کی قبر پر سبز چادر چڑھا کر بیٹھ جاؤ۔ خدا برکت دے گا۔ اور وہیں رزق پہنچا دیا کرے گا۔ اور اگر فتح علی، مبارک علی راضی ہو جائیں تو سبحان اللہ۔ سال کے سال عرس سراپا قدس کا اہتمام بھی کرو۔ معلوم نہیں یہ خط ان کو ملا کہ نہیں کیوں کہ پھر جواب نہیں آیا اور راقم کو بھی مکروہات دینوی سے اتنی فرصت نہ ملی کہ دوبارہ خط لکھتا۔(از: خمار گندم)
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: دسمبر 19th, 2018
زمرہ: ابنِ انشاء تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: humor, Ibn E Insha, ustad, ابنِ انشاء, طنز, مزاح