انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ جسمانی طور پر کہیں ہوتا ہے اور دماغی لحاظ سے کسی اور ہی دنیا میں گھوم رہاہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں آج ہوا۔ یہاں ایک ہوٹل سے ہم کھانا لینے گئے تو آرڈر دے کر بیٹھ گئے۔ اچانک ہماری نظر ڈاکٹر شبیرپرپڑی۔ڈاکٹر صاحب یہاں سرکاری ہسپتال میں ماہرِ امراضِ قلب ہیں۔ ہم اٹھ کر ان کے پاس گئے۔ ان سے مصافحہ کیا اور معذرت کی کہ ہم نے انھیں دیکھا نہیں۔فرمانے لگے کہ میں نے تو آپ کو سلام بھی کیا تھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا۔لگتا ہے کہ آپ کا پچھتر فیصد دل ابھی تک پاکستان میں ہے۔ہم نے کہا کہ آپ سے بہتر دلوں کو کون جانتا ہے۔
یہ حاضر غائب کا چکر عام ہے۔ سبھی شعبوں کے لوگ روزانہ دن میں بیسیوں بار اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی کام ہم کر رہے ہوتے ہیں مگر اس میں عدم دلچسپی کے باعث ہمارا دھیان اس میں لگتا نہیں ہے اور دوسری ہی سوچیں دل و دماغ میں گھر کرلیتی ہیں۔ طالب علم اکثر جماعت میں موجود ہوتے ہوئے بھی کہیں اور ہی ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں استاد اور تختہ سیاہ بلکہ تختہ سفید کا طواف کر رہی ہوتی ہیں اور دماغ کہیں اور ہوتا ہے۔ آج کل تو ٹچ سکرین کا دور ہے تو انگوٹھا موبائل کے ساتھ مگن ہوتا ہے اور دماغ کو بھی ساتھ ملا لیتا ہے۔ استاد اگر دورانِ لیکچر کوئی سوال پوچھ لے تو طالب علم کی دماغی غیر موجودگی کا پول کھل جاتا ہے۔
خواتین کو اگر دیکھیں تو بظاہر دودھ ابال رہی ہوتی ہیں یا کھانا پکا رہی ہوتی ہیں مگر دماغ میں یہ کھچڑی پک رہی ہوتی ہے کہ میاں آئیں گے تو ان سے نئے سوٹ کی فرمائش کیسے کرنی ہے یا میکے جانا ہے تو ان سے کیسے اجازت لینی ہے۔اس دوران دودھ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چولہا بوس ہوتا ہے یا سالن کے جلنے کی بھینی بھینی خوشبو ساس کے تیز نتھنوں میں پہنچتی ہے اور وہ قصیدہ گوئی کا آغاز کرتی ہیں تو خاتونِ خانہ کا دماغ بھی واپس جسم کے ساتھ آلگتا ہے۔
پروفیسر اور استاد حضرات کی غائب دماغی تو ضرب المثل بن چکی ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ انھیں کتابوں اور لیکچرز کے علاوہ کچھ نہیں آتا اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔اکثفر پروفیسروں کے کپڑے، جوتے اور بال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہےجیسے وہ بستر سے اٹھ کر جامعہ آ گئے ہیں۔کبھی کوئی چیز منگوا لیں ان کے گھر والے تو اپنا ہی سر پیٹ لیتے ہیں کیونکہ اکثر وہ مطلوبہ تعداد میں چیزیں بھول جاتے ہیں لانا اور تعداد کبھی پوری کر دیں تواشیاء غیر مطلوبہ ہوتی ہیں۔چونکہ ہماراشعبہ بھی یہی ہے تو ہم بھی خود ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اکثر ہی غائب دماغی کی کیفیت کا شکار رہتے ہیں۔ کرکٹ ہمارا جنون رہا ہے۔وقت کی قلت اور دیگر ذمہ داریوں کے باعث اب ہم اسے پہلے جتنا وقت نہیں دے پاتے۔ مگر تا حال کرکٹ میچ سامنے آئےتو دنیا بھلا دیتے ہیں۔
فرصتِ بے خودی غنیمت ہے
گردشیں ہو گئیں پرے کچھ تو
پاکستان کا ایک مرتبہ سری لنکا سے میچ تھا اور ہم میچ دیکھنے میں مگن تھے کہ کھانے کا ٹائم ہو گیا-ہم نے میچ کے سامنے کھانے پر اصرار کیا تو کھانا ٹی وی کے سامنے لا دیا گیا۔ ہم میچ دیکھتے ہوئے کھانا کھانے لگے۔ کھانے کے دوران ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ جواب ملا کہ آپ سالن میں نوالہ ڈالنے کی بجائے زمین سے چھو کر منہ میں ڈال رہے ہو۔ دورانِ تعلیم بھی غیر دلچسپ لیکچرز کے دوران ہمارا دماغ کبھی کرکٹ تو کبھی عمران سیریز یا ایسی ہی کسی اور دلچسپی میں مشغول رہتا تھا۔یہ عادت ہنوز برقرار ہے۔ ایک مرتبہ ہم ااپنا کالم سوچتے ہوئے گاڑی چلا رہے تھےتو ایک موڑ پرگاڑی کی رفتار کم نہیں کی۔ وہ سڑک سے اتر کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔ اتفاق سے وہ خالی تھا ورنہ چراغوں میں روشنی ہی نہ رہتی۔
سعودی عرب میں گاڑیوں میں ایک ہی تالہ ہوتاہے جو لگا دینے سے گاڑی وہی کھول سکتا ہے کہ جس کے پاس گاڑی کی چابی ہو یا ریموٹ ہو تاہم پاکستان میں اس کے علاوہ بھی حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں تا کہ گاڑی کو چوری ہونے سے بچایا جا سکے۔ ہم جب پاکستان میں گاڑی چلاتے ہیں تو ہمیں اس کے علاوہ بھی ایک خفیہ تالا لگانا ہوتا ہے گاڑی کے سٹیرنگ کے نیچے۔ پاکستان میں ایک مرتبہ ہم نے پارک کر کے گاڑی کو تالہ لگایا اور کام سے گئے۔واپسی پر ہم نے گاڑی سٹارٹ کی تو تھوڑا آگے جا کرہم نے گاڑی کو موڑنا چاہا تو یہ جان کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ سٹیرنگ جام ہو چکا ہے۔ ہم نے گھر والوں کو بتایا کہ سٹیرنگ جام ہو چکا ہے اب دعا پڑھ لو کہ ہمارا بھائی بولا۔۔۔ بھائی آپ نے سٹیرنگ والا تالہ کھولا ہے کیا؟’ تو ہمیں خیال آیا کہ یہ کام کیے بغیر ہی ہم گاڑی چلا بیٹھے ہیں۔ بس پھر کیا تھا وہیں میں روڈ میں ہی گاڑی کو بریک لگائی۔ ایمرجنسی لائٹس آن کی اور لگے اس تالے کو نکالنے۔چونکہ آدھ سے زیادہ راستہ ہم نے روکا ہوا تھا تو آنے جانے والے ہماری شان میں قصیدہ پڑھتے جاتے تھے اور جو زیادہ ہی شریف النفس ہوتے تھے وہ آنکھیں دکھانے پر اکتفا کرتے۔
ہمارے ایک دوست تو اس معاملے میں ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ کچھ برس پہلے ہم چار پانچ لوگ مل کر ایک گاڑی میں جامعہ جاتے تھے۔ ان میں وہ صاحب بھی تھے۔ ایک روز وہ ایک شاپر ہاتھ میں لئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد دوستوں کو بو محسوس ہونی شروع ہوئی مگرکسی کو سمجھ نہ آئے کہ بو آ کہاں سے رہی ہے۔ گاڑی کے شیشے بھی کھولے مگر بو تھی کہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔خدا خدا کر کے سفر ختم ہوا۔ جب وہ صاحب اترنے لگے تو کہا۔۔اوہ ہ شاپر تو میں نے کوڑے میں ڈالنا تھا میں بھول ہی گیا۔
ایک مرتبہ وہی صاحب پاکستان میں موٹر سائیکل پر اپنی بیگم کے ساتھ تھے۔ ایک پٹرول پمپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ بہت رش ہے۔ بائیک والے تنگ جگہوں سے بھی بائیک گزار کے اسے منزل کے قریب لے جاتے ہیں تو بیگم کو کسی غیر متوقع چوٹ سے بچانے کی خاطر کہا کہ تم اترو میں لائن میں لگ کر پٹرول ڈلواتا ہوں۔ بیگم کو اتارا اورلائن میں لگ گئے ۔ پٹرول ڈلوانے تک وہ بیگم کو بھول چکے تھے اور گھر چلے گئے۔ گھر جا کر انھیں یاد آیا کہ بیگم کو تو وہ وہیں چھوڑآئے ہیں۔ بیگم کو تو وہ لے آئے مگر جو ان کے ساتھ جو ہوا وہ ناگفتنی ہے۔
عبادت میں تو حاضر غائب کی کیفیت عام حالات سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بظاہر ہم عبادت کر رہے ہوتے ہیں مگر دماغ دنیاوی معاملت میں ہی لگا رہتا ہے۔ نماز،قرآن پاک ،تسبیح وظائف کچھ بھی شروع کریں، ہر قسم کےخیالات دماغ پر یلغار کر دیتے ہیں۔ نماز سے متعلق ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک مسجد میں عشاء کی جماعت کی نماز ختم ہونے کے بعد مولانا صاحب اور نمازی تذبذب میں تھے کہ چاررکعتیں پڑھائیں کہ تین کے بعد ہی سلام پھیر دیا ہے۔ کچھ نمازیوں کا کہنا تھا کہ چاررکعتیں پوری ہوئی ہیں اور کچھ اس بات پر مصرتھے کہ تین ہوئی ہیں۔ایک آدمی کچھ دیر بحث سنتا رہا۔جب معاملہ حل ہوتا نظر نہ آیا تو اٹھ کر کہنے لگا کہ میں بتاتا ہوں کہ تین رکعتیں ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں نے پوچھا کہ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں تو انھوں نے فرمایا۔’ میری چار دوکانیں ہیں اور ہر رکعت میں میں ایک دوکان کا حساب کرتا ہوں۔ آج ابھی تین دوکانوں کا ہی حساب ہوا تھا کہ نماز ختم ہو گئی۔’
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: دسمبر 30th, 2018
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: abent minded, Ibn e Riaz, professor, students