تحریر: جیا زبیری
وہ چھت پر آیا تو وہ منڈیر پر بیٹھی چہرہ آسمان کی جانب کیے ڈوبتے سورج کا نظارہ کر رہی تھی۔ وہ اس منظر میں اتنی محو تھی کہ اُسے آہٹ کا احساس تک نہ ہوا۔ وہ مسکراتا ہوا اُس کی جانب بڑھا۔ مست ہوا کے جھونکے نے اُسے چھوا۔ اُس کی نظر اَدھ کھلی ڈائری پر پڑی۔ انجانے احساس کے تحت اُس نے ڈائری اُٹھا لی۔ وہ صفحے پلٹتا ایک جگہ تھم گیا۔
“آج پورے دو ماہ ہو گئے۔” اُس نے ایک نظر اُس دشمنِ جاں کو دیکھا۔
“مجھے اُس گھر سے نکلے۔ کسی نے ایک بار بھی نہیں پوچھا۔”
“تم خود آئی تھی سب چھوڑ کے، کسی نے نکالا نہیں تھا تمہیں۔”
“کسی نے روکا بھی تو نہیں۔”
“سب نے روکا تھا۔”
“سوائے اُس کے۔۔۔۔۔اُس نے تو نظر تک اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔”
“تم نے بھی تو پلٹ کر نہیں دیکھا۔”
“کیسے دیکھتی میں۔؟”
“جیسے محبت کی تھی۔”
“محبت؟”
“ہاں محبت۔”
“مجھے اُس سے محبت نہیں ہے۔”
اُس نے ڈائری سے سر اٹھا کر پھر اُس کی جانب دیکھا، وہ ابھی تک بے خبر تھی۔ اُس نے صفحہ پلٹا۔
“کس سے چھپا رہی ہو۔ تمہاری حالت چیخ چیخ کے اعلان کر رہی ہے کہ محبت کا روگ تمہیں دیمک کی طرح اندر سے چاٹ رہا ہے۔ نہ ڈھنگ سے کھاتی ہو، نہ کسی سے بات کرتی ہو، ساری ساری رات روتی ہو، پھر بھی کہتی ہو کہ محبت نہیں ہے۔” اُس نے خود اپنا استہزاء اُڑایا۔
“ہاں ہے مجھے اُس سے محبت، بےحد اور بےتحاشا۔” سرنگوں ہوا۔
اُس نے مسکراتی نگاہوں سے اُس کی پشت کو دیکھا۔ اُس کے الفاظ اُس کے اندر چلتی کشمکش کا غماز تھے۔
“لیکن مجھے لگتا ہے کہ اُسے مجھ سے محبت نہیں ہے۔”
“پھر بھی اُس کے لیے تڑپتی ہو، اتنا یاد کرتی ہو۔”
“یاد؟”
“ہاں یاد، وہ بھی اتنی شدت سے کہ دیکھنے، سننے والے کا دل پانی ہو جائے۔”
“پتہ ہے میں اُسے اتنی شدت سے کیوں یاد کرتی ہوں۔؟”
“محبت کرتی ہو اِس لیے۔”
“نہیں”
“پھر؟”
“اِس لیے کہ میری یاد کی آنچ اُس تک بھی پہنچے، بھلے اُس کی آنکھیں میری طرح برستی نہ ہوں، بھلے اُس کا دل میری طرح مضطرب اور بےقرار نہ ہو، لیکن میری یاد کی شدت اُس کی روح کو بےقرار ضرور کرے گی، اُس کے کان میرا نام سننے کو بیتاب ضرور ہوں گے۔”
“اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو۔”
“یہ یقین مجھے اُس محبت نے دیا ہے جو اللہ نے میرے دل میں ڈالی ہے۔”
“اتنا یقین ہے تو کہا کیوں نہیں ؟”
“کیسے کہتی، اُس نے کوئی اشارہ بھی تو نہیں دیا۔”
“محبت میں اشارے نہیں، الہام ہوتے ہیں۔”
“میں اُس کی پہل کی منتظر تھی۔”
“اُس نے نہیں کی تو تم کر دیتی۔”
“نہیں کر سکتی تھی۔”
“کیوں۔؟”
“شرم و حیا آڑے آ گئی تھی۔”
“منکوحہ ہو محبوبہ نہیں۔”
“عورت بھی تو ہوں نا، اُس کے بیمار باپ کی اپنے باپ کی طرح دن رات خدمت کی، اُس کے بھائی بھابھی کو عزت دی، اُس کے گھر کو سنبھالا، کیا پھر بھی اظہار کی گنجائش بچتی تھی۔؟”
“یہ سب تو ایک میڈ بھی کر سکتی ہے۔”
“میڈ؟”
“ہاں”
“شاید اُس کی نظر میں میری حیثیت ایک میڈ سے زیادہ کی نہیں تھی۔”
وہ صرف الفاظ نہیں تھے، احساس کی بھٹی میں سلگتے جذبات تھے۔ اُس نے ڈائری میز پر پٹخ دی۔ اُس میں اور ہمت نہیں تھی ، وہ سب پڑھنے کی۔ کتنا پاگل تھا وہ، اُس کی خاموشی کو اُس کی ناخوشی سمجھتا رہا۔ یہ بھول گیا کہ وہ ایک عورت ہے، وہ بھی مشرقی عورت، جو محبت تو کر لیتی ہے، اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ، لیکن اظہار کی ہمت نہیں رکھتی۔ وہ مضطرب سا اُس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ قدموں کی چاپ بھی اُس کی محویت کو نہ توڑ سکی۔ اُس نے دھیرے سے اُسے پکارا۔ وہ پھر بھی نہیں چونکی۔ اُس نے اُسے بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کیا۔ وہ گرتے گرتے بچی۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے اُس کے بازوؤں کو تھام لیا۔ بکھرے بال، زرد رنگت، ویران چہرہ، خشک لب، گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں، اُس کی آنکھوں سے پہچان کے سب رنگ غائب تھے۔ یہ وہ لڑکی تو نہیں تھی۔ اُسے دھچکا سا لگا۔ اُس نے بےقراری سے اُسے پکارا۔ اُس کے لب پھڑپھڑائے۔ اُس کے الفاظ حلق میں ہی رہ گئے۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اُس کی حالت دیکھ کر اُس کا ذہن ماؤف ہو گیا۔ اُس کی ویران آنکھوں سے سیلِ رواں اُبل پڑا۔ وہ مشرقی عورت ہار گئی۔ محبت نے اُس کی ساری رعنائی چھین لی۔ وہ بہت کچھ سوچ کر آیا تھا۔ اُس کے بہتے آنسو اُس کے دل پر گر رہے تھے۔ اُس کی اپنی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اُسے بانہوں میں بھینچ لے۔ اُسے گلے سے لگا لے۔ اُسے اپنی بےتابی کی ایک ایک داستان سنائے۔ لیکن اُس کی خاموشی، سرد مہری نے اُسے روک لیا۔ اُس کے الفاظ اُس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
“میں۔۔۔۔۔۔۔بہت۔۔۔۔۔۔۔۔محبت۔۔۔۔۔۔۔۔”
اُس کے الفاظ ابھی ادھورے تھے۔ اُس نے اُس کے بازوؤں سے ہاتھ ہٹائے تو وہ زمین بوس ہو گئی۔ وہ جو اُس کے دل میں بستی تھی ، اُس کے قدموں میں جا گری۔ وہ سکتے کی سی کیفیت میں کبھی اُسے دیکھتا کبھی اپنے ہاتھوں کو۔ وہ وقت سے ہار گئی تھی۔ اُس کے ہاتھوں کے سہارے اب تک کھڑی تھی۔ اُس نے لپک کر اُسے سیدھا کیا۔ اُس کی سانسیں مدھم چل رہی تھیں۔ وہ سانسیں جس کے آنے جانے کی رفتار کی ساتھ اُس نے اُسے یاد کیا تھا۔ دو ماہ اور دس دن کی جدائی نے اُس سے جینے کی ہر آس، ہر امید چھین لی۔ اُس نے خشک لبوں سے اُس کا نام پکارنے کی کوشش کی، لیکن بے سود رہی۔ اُس کی گردن ڈھلک گئی۔ وہ اُسے سینے سے لگائے بلک اٹھا۔ کاش وہ کاغذ کے ٹکڑے کو بنیاد بنا کر اُسے جانے نہ دیتا۔ کاش وہ اُسے روک لیتا۔ کاش وہ اُس سے دل کی ہر بات کہہ دیتا۔ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جنوری 15th, 2019
زمرہ: جیا زبیری تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Emptiness, Ibn e Riaz, Jiya Zubairi