تحریر: ابنِ ریاض
کل یعنی سولہ فروری کے ہم بہت دنوں سے منتظر تھے۔ یہ ہماری پیدائش کا دن بھی ہے مگر اب ہم اس عمر سے کافی آگے آ گئے ہیں کہ جہاں یہ دن منانا اہم لگتا تھا۔ جب وہ دور تھا تب سالگرہ منانے کا رواج نہ تھا۔ بس گھر والے مبارک دے دیتے تھے۔ بعد اذان گھر والوں کے ساتھ کیک کاٹ لیا جاتا تھا۔ وہ دن بھی اب ماضی ہوئے۔ تاہم اس مرتبہ ہمارے لئے زیادہ اہم یہ تھا کہ ہمارا ملائشیا کا چھوٹا سا سفرنامہ ایک کتابچے کی صورت میں آنا تھا۔ مہک نے از خود ہی ہم سے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ سولہ فروری تک یہ کتابی شکل میں لے آئی گی۔ مہک خود چونکہ طالبہ ہے اور اس کے سمسٹر امتحانات بھی چل رہے ہیں تو ہماری طرف سے اس پر کوئی جبر نہیں تھا بلکہ ہم نے تو کہا تھا کہ جس تاریخ کو آپ یہ شائع کرو گی، ہم اسی کو سولہ فروری مان لیں گے۔ تاہم منتظر ضرور تھے اس دن کے۔
کچھ روز قبل صبا نے ہم سے ہماری سالگرہ کا پوچھا-چونکہ ہمیں کوئی اہم آدمی تو ہیں نہیں سو کبھی ایسی کوئی تقریب بھی نہیں ہوئی نہیں۔ تقریبات سے بھی ہمیں کوئی خاص رغبت نہیں۔پھر طبیعت بھی گوشہ نشین سی ہے۔ کلاس میں بھی آخری بنچوں پر چپ چاپ بیٹھ جاتے تھے۔ ٹال کیا دیا، ہم نے تو انکار ہی کر دیا۔ہم نے صاف کہا کہ ہمیں کوئی پوسٹ نہیں لگوانی سو ہم نہیں بتا رہے۔ اگر چند ماہ پہلے پوچھا جاتا تو ہم بخوشی بتا دیتے مگر ہفتہ دس دن پہلے پوچھنا تو ہمارے نقطہ نگاہ سے بہت خطرناک تھا۔وہ ناراض بھی ہوئی اورکہا کہ ہمارے بھائی سے پوچھ لے گی۔ ہم نے کہا کہ چلو پوچھ لینا(بھائی کو ہم منع کر دیتے)۔ مگر صبا بھی اپنے نام کی ایک ہی ہے اور اس نے سی سی پی سے ہمارا ریکارڈ نکلوا لیا۔کل سے ہمارے بعض دوست ہم سے ناراض ہیں کہ ہمیں اپنی سالگرہ کا نہیں بتایا تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے واقعی کسی کو نہیں بتایا تھا۔ کل جب ہم صبح اٹھے تو سفرنامہ اور مہک کا پیغام موجود تھا۔ سو ہم خوش تو تھے ہی۔ پھر فیس بک پر ان باکس میں بھی پیغامات تھے مگر وہ سب اپنوں ہی کے تھے۔
16 فروری منگل کو تھا۔منگل کے دن ہماری تین کلاسز ہوتی ہیں اوردفتر میں یہ ہمارے مصروف دنوں میں شامل ہے ۔ٹائم لائن پر سفرنامے کا لنک لگایا اور لیکچر لینے چلے گئے۔ لیکچر سے واپس آئے تو صبا کا ان باکس تھا کہ پوسٹ لگادوں سالگرہ کی؟ ہم نے سوچا کہ پاکستان میں تو آدھ دن گزر چکا (سعودی عرب میں دس ہو چکے تھے) سو لگانے دو۔ ویسے بھی ایک ہی گروپ میں تو لگنی ہے جس کی صبا ایڈمن ہے مگر ہم عواقب سے آگاہ نہ تھے۔ ہم نے کہا کہ لگا لو اور گئے اپنی کلاس میں۔ واپس آ کر دیکھا کہ صدف آصف کے گروپ میں تو پوسٹ ہے ہی(ایڈمن جو ہوئی صبا) مگر خواتین، شعاع میں خدیجہ مصطفٰی بھی لگ چکی ہیں۔ اور پھر تو خبر افواہ سے بھی تیزی سے پھیلی۔ بس ہم دیکھتے جاتے اور سر دھنتے جاتے تھے۔ فیس بک پر احباب نے جنگل کو منگل کر دیا بالکل کل تو تھا ہی منگل۔ کئی گروپس اور پیجز میں ہماری سالگرہ منائی گئی۔ ہمیں جدید دور کا ابنِ انشاء کہہ کر سالگرہ کی مبارک بادیں دی گئیں۔ ہمیں تو یہ جملہ ہی اتنی خوشی دیتا ہے کہ مزید کچھ نہ بھی لکھا جائے تو ۔ بہت سے دوستوں نے ان باکس میں بھی نیک تمنائیں بھیجیں۔ کچھ سے تو ہم واقف بھی نہیں تھے۔ رات بارہ بجے تک ہم تمام احباب دوستوں کا شکریہ ہی ادا کرتے رہے۔ اتنے کیک ہمیں پیش کیے گئے کہ ہم پھول کر کپا ہی ہو گئے۔ دیکھ دیکھ کر ہی۔ اگر ہم کھا لیتے تو نجانے کیا ہو جاتا۔ پھول بھی بہت ملے۔ تاہم ممکن ہے کہ ابھی بھی کچھ پوسٹس ہماری نظر سے رہ گئی ہوں۔ ہم جواب دے رہے تھے مگر نوٹیفیکیشنز کی رفتار ہماری رفتار سے کہیں زیادہ تھی۔ لفظ تو کیا کہتے کہ ایسے موقع پر ہم گونگے کا گڑ کھا لیتے ہیں سو لفظ ہم سے گم ہو جاتے ہیں۔آپ تمام لوگوں کے ہم شکرگزار ہیں۔ آپ کی محبت اور خلوص کو لفظوں میں نہیں تولا جا سکتا۔ کسی کی تبصرہ یا پوسٹ رہ گئی ہو تو ہم معذرت خواہ ہیں۔
سالگرہ کا قصہ بھی عجیب ہے۔ ہماری دستاویزات میں تاریخ پیدائش سولہ فروری درج ہے جبکہ ہم شروع سے ہی سترہ کو مناتے تھے۔ بلکہ اب بھی ہمیں زیادہ مبارک بادین سترہ کو ہی وصول ہوتی ہیں۔ ہماری تاریخ پیدائش کا اندراج ہمارے نانا نے ہمارے داخلے کےوقت کیا تھا۔ سو 2010 تک ہماری تمام سالگرائیں ایسے ہی شش و پنج میں گزریں۔ 2011 سے یہ مسئلہ حل ہے کہ ہم اپنے طور پر خود کو سولہ فروری کا ہی سمجھتے ہیں مگر گھر والوں کے لئئے سترہ کو بھی منا لیتے ہیں۔ سو جو کوئی رہ گیا ہو وہ ہمیں آج بھی مبارک باد دے سکتا ہے۔ ہم وصول کرنے میں کنجوسی نہیں دکھائیں گے۔ آپ دے کر دیکھ لیں مگر ساتھ تحفہ دینا نہ بھولیے گا۔