تحریر: ابنِ ریاض
یہ تحریر کسی استاد کا سبق نہیں ہے بلکہ کچھ نکات ہیں جو اس خاکسار نے مزاح لکھتے ہوئے محسوس کیے۔
مزاح نگار اور ایک بھانڈ مین فرق ہوتا ہے۔ سلور سکرین ٹی وی اور عوام الناس میں جو مزاح پیش کیا جاتا ہے اس کا مخاطب وہ لوگ ہوتے ہیں جی کی اکثریت کتب بینی و رسائل بینی کی قائل نہیں ہوتی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے درسی کتب پڑھیں ، امتحان پاس کیے ڈگری لی اور اپنا کاروبار یا نوکری شروع کر دی۔ اس میں ایسے مصروف ہوئے کہ کسی کتاب اور رسالے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کسی تفریح کا دل چاہا تو فلم لگا لی، میچ دیکھ لیا یا کہیں باہر چلے گئے۔ سو کتاب کا ڈگری کے بعد ان کی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں یوں بھی کتب بینی کا شوق تو کیا رواج بھی نہیں ہے۔ سو ایسے لوگوں کا مزاج اور مزاح دونوں مختلف ہوتے ہیں اور انھی کے مزاح کے معیار تک مزاحیہ اداکار و دیگر لوگ رسائی کرتے ہیں اور داد پاتے ہیں ۔
مزاح نگار کا مخاطب ایک پڑھا لکھا اور سنجیدہ طبقہ ہوتا ہے۔ایسے لوگ ظاہر ہے کہ بہت کم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتابیں پڑھتے ہیں۔ جنھیں شعر و ادب سے شغف ہوتا ہے۔جو حالاتِ حاضرہ کا شعور رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی حسِ مزاح عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ کسی کردار کو کیلے کے چھلکے یا کرسی سے گرا کر، یا کسی کو او کالے او گنجے پکار کر یا کسی کی بہتی ناک کی منظر کشی پڑھ کے انھیں ہنسی نہیں آتی بلکہ اکثر لوگ اس سے تنگ پڑتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کے لئے شستہ و شائستہ مزاح لکھنا پڑے گا اور یہی مزاح نگار کا فن ہے۔
مزاح ایک انتہائی سنجیدہ کام ہے۔ 1980 کے عشرے میں ففٹی ففٹی نامی مزاحیہ پروگرام لگا کرتا تھا۔ ایک انٹرویو میں اس پروگرام کے مصنفین سے پوچھا گیا کہ آپ تو مزے سے ہنستے بیٹھتے لکھ لیتے ہوں گے تو ان کا جواب بہت حیران کن تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کبھی آپ ہمیں لکھتے دیکھیں تو آپ کو ہماری سنجیدگی دیکھ کر ایسا محسوس ہو گا جیسے ان کا کوئی مر گیا ہے۔ اب ہم خود لکھتے ہیں تو اندازہ ہوا ہے کہ اچھا اور معیاری مزاح بھی توجہ اور وقت کا متقاضی ہوتا ہے۔
مزاح اور پھکڑ بازی میں ایک معمولی سی حد ہوتی ہے بلکہ ایسے ہی جیسے تعریف اور مبالغہ آرائی میں ہوتی ہے۔
مزاح لکھنا دو دہاری تلوار پر چلنے کے برابر ہے. ایک چھوٹے سے جملے یا لفظ سے پوری تحریر مزاح سے نکل کر پھکڑ پن، بدتمیزی اور گستاخی کے زمرے میں آ جاتی ہے۔ لکھنے کے لئے موضوعات کی بھی قید ہوتی ہے۔ لکھنے والا مذہب پر، کسی فرقے پر کسی شخصیت پر براہ راست طنز نہیں کر سکتا۔ کرنا بھی ہے تو ایسے کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ ڈالیں۔ مزاح نگار کو تعصب سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ کسی ایک سیاسی جماعت یا فرقے یا جنس کی نمائندگی کرے گا تو پڑھنے والے مزید کم ہو جائیں گے۔مزاح نگار کو ایسا لکھنا چاہیے کہ سب پڑھ سکیں ۔
مزاح نگار کا ظرف بھی دوسرے لوگوں سے بڑا ہونا چاہیے۔ اس کو تنقید سہنے کا ہنر آنا چاہیے۔ اس کو اللہ نے چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھنے کا ہنر دیا ہے سو سب لوگ اس کی طرح نہیں دیکھ پاتے۔ وہ تنقید کرتے ہیں سو اس تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور اپنے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دینا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اس موقع پر ایک حدیث کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کا صدقہ ہوتا ہے اور عقل کا صدقی جاہل کی بات کو برداشت کرنا ہے۔
ناول اور افسانے کے مصنفین بھی مزاح لکھتے ہیں اور ان کا مزاح مزاح نگار یا انشائیہ پرداز سے یوں مختلف ہوتا ہے کہ وہ خود جملے بولنے کی بجائے اپنے کرداروں سے بات کرواتے ہیں سو ان کا کوئی جملہ یا لفظ اس طرح گرفت میں نہی آتا کیوں کہ وہ کردار کی نمائندگی کر رہا ہوتاہے۔ اس کے برعکس مزاح نگار کی تحریر اس کی شخصیت کی ترجمان اور آئینہ دار ہوتی ہے۔ سو فکاہی تحریر کا ہر لفظ نہایت سوچ سمجھ کے لکھنا چاہیے۔
کوئی بھی علم سیکھے بغیر نہیں آ سکتا۔ آپ ڈاکٹر انجینئر صرف خداداد صلاحیت سے نہیں بن سکتے تو اچھا مزاح نگار کیسے بن سکتے ہیں۔ تاہم فنونِ لطیفہ میں سکول نہیں ہوتے۔ آپ اسکول میں کسی کو اداکاری، گلوکاری ،مصوری، خطاطی اور ادب نہیں سکھا سکتے۔ ان میں سے ہر ایک صلاحیت انسان کے اندر موجود ہونی چاہیے۔ اس کے وہ بعد نکھاری جا سکتی ہے۔ نکھارنے کا بہترین طریقہ اس فن کے ماہرین کو دیکھنا پڑھنا اور سننا ہے۔ مثال کے طور پر شاعری میں دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات غالب، میر اقبال،فیض، ناصر، فراز،پروین شاکر کو پڑھ کر سیکھ سکتے ہیں ۔ مزاح سے متعلق افراد کے لئے پطرس،انشاء جی، یوسفی اور دیگر بہتیرن رہنما ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کو پڑھیں۔بغور پڑھیں، دیکھیں کہ جملہ کیسے بنتا ہے۔ روز مرہ بات/واقعے سے مزاح کیسے پیدا کیا جاتا ہے؟فکاہی تحریر آگے کیسے بڑھاتے ہیں؟ اس میں مزاح و تسلسل کیسے برقرار رکھتے ہیں؟ عمارت وہی قائم رہتی ہے جس کی بنیاد مضبوط ہو۔نئے تجربے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر اپنی بنیاد نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اس کی ہترین مثال ہمیں موسیقی میں ملتی ہے جہاں پچھلے تیس سالوں میں دو ہی بڑے نام پیدا ہوئے ہیں۔ نصرت فتح علی خان اور راحت فتح علی خان۔ ان دونوں نے موسیقی میں نئے تجربے کیے اور پاپ موسیقی کو بھی استعمال کیا لیکن پہلے کلاسیکل سیکھی۔ کلاسیکل اور پاپ کے اشتراک سے جدید موسیقی کو اپنایا اور آج ان کے پائے کا کوئی دوسرا گلوکار نہیں۔
زیادہ لکھنا اہم نہیں ۔اچھا لکھنا اہم ہے۔ پطرس کو دیکھیے کہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے۔درجن بھر مضامین اور یہ مضامین ان کو امر کر گئے۔ ابن انشاء کے دو ڈھائی سو کالم ہیں اور مزاح پر ان کی زندگی میں بس ،اردو کی اخری کتاب’ آئی۔ ‘خمارِ گندم’، آ’پ سے کیا پردہ’،’ باتیں انشاء جی کی ‘ انشاء جی کے کالموں کی کتابیں جو ان کے بھائیوں نے انشاء جی کی یاد میں ان کی وفات کے بعد شائع کروائیں مگر یہ بھی کل دو ڈھائی سو کالمز یا انشائیے ہیں۔اور انشاء جی نے اٹھارہ بیس برس مزاح لکھا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اچھا اور معیاری مزاح روز روز تخلیق نہیں ہوتا۔ عام تاثر یہی ہے کہ روز لکھے جانے سے معیار میں کمی آتی ہے۔
آخر میں ابن انشاء کے چند جملے۔۔ دیکھیے کہ عام سے جملے میں کچھ الفاظ جمع کر دینے سے یا ان کی تبدیلی کرنے سے کیسے مزاح پیدا ہوتا ہے۔اور طنز کتنا شدید ہے مگر کیسے مزاح میں سمو دیا ہے کہ قاری مسکراتا بھی ہے اور
1) اگر جنگ میں نماز کا وقت آ جاتا محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اور باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔
2) جو کیا خضر نے سکندر سے وہی کیا خضر حیات نے سکندر حیات سے۔
3) علم بڑی دولت ہے مگر ایسا کیوں ہے کہ جس کے پاس دولت ہواس کے پاس علم نہیں ہوتا اور جس کے پاس علم ہو، اس کے پاس دولت نہیں ہوتی۔
4) اورنگ زیب علمگیر دین و دنیا دونوں پرنظررکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے کوئی نماز قضا نہیں کی اور کوئی بھائی زندہ نہیں چھوڑا۔
5) تم پڑھ لکھکر اکبر کے نو رتن بننا پسند کرو گے یا ان پڑھ رہ کر اکبر ۔
6) حمید اختر جیل سے رہا ہو گیا ہے۔ آخر اسے جیل میں کیا تکلیف تھی؟
7) استاد مرحوم نے چارشادیان کی۔ پانچویں عمر بھر نہ کی کہ شرع سے انحراف ممکن نہ تھا۔ شرع میں چار کی اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ہے کہ سلوک یکساں ہو۔ الحمد للہ چاروں کا سلوک ان کے ساتھ یکساں تھا۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مارچ 13th, 2019
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Humour, Ibn E Insha, Patras, Serious, Yousufi