تیری الفت میں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • تیری الفت میں

    تحریر: ابنِ ریاض

    فیس بک پر یہ بندہ ہمارے پرانے آشنائوں میں شامل ہے۔ اب ہماری دوستی کو کتنے سال ہو گئے ہیں ہمیں یاد ہی نہیں۔اس دوستی میں سارا ہاتھ اس کا ہے کیونکہ ہم نے کئی بار آئی ڈیز تبدیل کیں مگر اس نے ہمیں ہمیشہ ایسے ڈھونڈلیا جیسے امریکہ نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈا تھا۔ہماری خوش قسمتی کہ اسے ہتھیار چلانے نہیں آتے ورنہ اب یہ مضمون ہم عالمِ اوراح سے لکھ رہے ہوتے۔

    شہباز اور ہماری دوستی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں ہم عمر ہیں اور ہم عہد بھی۔ ہمارا پس منظر ایک جیسا ہے ۔دونوں دیہاتی ہیں۔ دونوں کے بچپن کے حالات بھی ملتے جلتے ہیں۔ لڑکپن بھی محنت کرتے گزرا اور اب بھی دونوں قریب قریب ایک ہی جیسے ہیں۔ ہم نثر لکھتے ہیں تو شہبازہر میدان میں ہاتھ مارتا ہے۔

     ہمیں اس کے نام پر اعتراض ہےکیونکہ ان کا نام لیتے ہی ہمیں اردو کا ہ جملہ یاد آ جاتا ہے۔ آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں۔ شہباز کے نام میں تکرار بھی ہے اورتضاد بھی۔ جب باز کے ساتھ شہہ لگا لیا تو پھراکبر کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر اکبران کے والد گرامی کا نام تھا تو باز اکبر میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔شہباز کے آگے الفت ہمارے لئے ہمیشہ سے ہی باعثِ تعجب ہے کیونکہ شہباز کو باقی پرندوں سے وہی الفت ہوتی ہے جو مسلمان کو بھنے ہوئے مرغ سے ہوتی ہے۔ اگر اس کا مطلب اپنی جنس سے الفت سے ہے تو ممکن ہے کہ ٹھیک ہی ہو۔ جناب شاعری بھی کرتے ہیں تو ممکن  ہے کہ الفت ان کا تخلص ہو۔پر اتنا اکھڑ مزاج بندہ   ہے یہ۔اگر یہ اس کی  الفت ہے تو عداوت کیسی ہو گی؟ اس پر ہمیں عدم یاد آ گئے۔ عبدالحمید عدم بھاری بھرکم اور اونچے لمبے شخص تھے۔ ایک محفل میں گئے تووہاں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ فرمانے لگے کہ میں عدم ہوں۔وہ صاحب بھی حاضر جواب تھے فرمانے لگے کہ کہ اگر آپ عدم ہیں  تو وجود کیسا ہو گا۔

     اس سے پوچھا جائے کہ تعلیم کتنی ہے تو کہتا ہے کہ چٹا ان پڑھ ہوں۔ یہاں ہمیں سخت اعتراض ہوتا ہے چٹا کہنے پر۔ ہمارا اور شہباز کا رنگ تو ایسا پکا ہے کہ ماسٹر  پینٹ والے بھی اب ہمیں چٹا نہیں کر سکتے۔کوئی بتلائے کہ ان پڑھ بندہ بیک وقت شاعر نثر نگار ایڈیٹر اور ناول نگار ہو سکتا ہے بھلا؟ گو کہ اپنی گفتگو سے یہ ان پڑھ ہونے کا تاثر دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر اکثر ناکام ہی رہتا ہے۔

    ابھی تک غیر شادی شدہ ہے ماشاء اللہ سے ڈھائی ہزار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے مگر بہنیں اتنی نکمی ہیں کہ سب مل کر ایک بھابی نہیں تلاش کر پائیں۔بھائی کے بال سفید ہوئے جا رہے ہیں اور وہ ہر دوسرے روز اپنی بڑھی ہوئی شیو اور الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ سیلفی بھی لگاتا ہے کہ شاید بہنیں سمجھ جائیں اور چاند سی نہ سہی سورج سی بھابھی ہی ڈھونڈ لائیں مگر بہنوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ جوئیں اب گرمیوں میں کانوں کی طرف آتی ہی نہیں ہیں بلکہ زلفوں میں ہی دن رات ایک کرتی ہیں۔ ہمارے بس میں ہوتا تو سب  بہنوں کا کورٹ مارشل کرتے اور ان کی سزا یہ ہوتی کہ شہباز کی سب بہنوں کو ہماری آئی ڈی میں جمع کر دیا جائے۔ خالد مسعود کے کسی جاننے والے کی شادی نہ ہونے کا باعث اس لڑکے کا والد تھا مگر شہباز کے معاملے میں ہماری رائے ہے کہ

    اس کی شادی نہ ہونے کا باعث اس کی بہنیں تھیں

    کیونکہ اس دور کے والدین کہ جن کی اولادیں جوان ہیں اور قابلِ زواج ہیں وہ انٹرنیٹ اور فیس بک سے واقف نہیں ہیں۔ سو انھیں فیس بک بہن بھائیوں کا پتہ ہی نہیں۔ اب شہباز کی کوئی بہن رشتہ لے کر کسی گھر جاتی ہے تو گھر والے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ جو  کچھ گھر میں موجود ہوتا ہے وہ لڑکے کی بہن  کو کھانے کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سوالات جوابات کا  سلسلہ چلتا ہے۔ لڑکی والے شہباز کا کام پوچھتے ہیں عمر پوچھتے ہیں تو خوشی خوشی بتا دیا جاتا ہے۔ جب گھر والوں کی بات ہوتی ہے اور بہن بڑی خوشی اور مان سے بتاتی ہے کہ میرا بھائی لاکھوں میں  ایک ہے اور ہم ڈھائی ہزار بہنوں کا بھائی ہے تو لڑکی کے والدین جو لڑکے کی تعلیم اور نوکری دیکھ کر نیم رضامند ہو چکے ہوتے ہیں ایک دم بدک جاتے ہیں۔ بھلا بیٹیاں بوجھ تھوڑی ہوتی ہیں کہ بغیر دیکھے اندھے کنویں میں دھکا دے دیا جائے۔ اس قدر بہنیں اور ان میں بھی کوئی دو تہائی غیر شادی شدہ۔ بیٹی دے دی تو وہ یہاں کیسے گزارہ کرے گی اور وہ تو کھاناپکا پکا کر ہی ہلکان ہو جائے گی۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ پہلے پتہ چل گیا  ورنہ راشن  سے تو گئے تھے بیٹی سے بھی جاتے۔بس یہی سوچ کر اتنے قابل بندہ کو کرہاً انھیں انکار کرنا ہی پڑتا ہے۔

    سیلفیاں بنانے کا بھی شوقین ہے۔تاہم چن چن کر ایسی سیلفیاں بناتا ہے کہ ہمیں برا لگے۔ بھائی اپنا نہیں تو ہمارا ہی خیال کر لیا کرو۔کوئی میک اپ کر لیا کرو۔کوئی رنگین فوٹو لیا کرو۔ اب کسی کو یہ بتانے کی کیا ضرورت کہ آپ بلیک اینڈ وائٹ دور کے ہو۔آخر ہمارےہم عصر ہو دوست ہو بھائی ہو۔ تمھاری تو خیر ہے مگر طلباو طالبات اور مداحوں کو ہمارے متعلق بھی کافی غیر ضروری معلومات حاصل ہو جاتی ہیں جو ہم نے بڑی مشکل سے اخفا رکھی ہوئی ہیں اور ان کے لئے مضر ہیں۔ بس اتنا خیال رکھا کرو کہ میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

    ہمارے متعلق لوگوں کی رائے ہے کہ ہم کافی مستقل مزاج ہیں۔ باتیں ہم پر اتنی جلدی اثرانداز نہیں ہوتیں یا ہوں بھی تو ہم ان کو ظاہر نہیں کرتے۔تاہم شہباز ہماری رائے میں بہت زور رنج ہے۔ ناراض ہوتا ہے تو بتا بھی دیتا ہے۔اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ آج عدم کا دن ہے تو پھر یاد آئے وہ عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے

    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

     ادھر شہباز کا دل دکھا ادھر اس نے فیس بک چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ پھر بہنوں کا نمائندہ وفد گیا اور مطالبات تسلیم کرنے ( یعنی کہ شادی کی کوشش کرنے) کی یقین دہانی کروائی اور شہباز صاحب واپس آ گئے۔ اسے دیکھ کر ہمیں سندھ کی ایک پارٹی کے قائد یاد آ جاتے ہیں کہ جو ہر کچھ دن بعد پارٹی قیادت چھوڑتے تھے اور پھر عوام کے پر زور اصرار پر بادلِ نخواستہ صدارت کا کانٹوں بھرا تاج سر پر اٹھا لیتے تھے۔ تاہم شہباز کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں کہ یہ تو ہماری طرح مکھی بھی نہیں مار سکتا۔اس کے خلوص کے تو ہم خود معترف ہیں۔کام بھلے نہ کر پائے مگر ارادے کی پختگی ضرور دکھاتا ہے اور یوں بندہ ناراض بھی نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اپنی کتاب کی رونمائی پر آنے کا کہا اور تقریر کا بھی۔ کہتا ہے کہ کتاب میرے بغیر چھپ گئی پر تقریب میرے بغیر نہیں ہو گی۔ دنیا میں کہیں  بھی تقریب ہوئی میں آ جائوں گا ۔ ہم بہت خوش ہوئے۔ تقریب راول پنڈی میں ہوئی اور شہباز نہ آیا۔ ہم نے پوچھا کہ تم نے تو کہا تھا کہ تم دنیا میں جہاں تقریب ہوئی، آئو گے پھر آئے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا کہ ہاں کہا تھا پر میری دنیا تو لاہور ہے۔ تم نے وہاں تقریب رکھی ہی نہیں تو میں کیسے آتا۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔