تحریر: طاہرہ ناصر
کل بیٹھے بٹھائے میں نے اپنے میاں سے پوچھا ،آپ کو یاد ہے ہماری منگنی کب ہوئی تھی؟ جھٹ جواب آیا ” مئی میں ” ۔ میں بھی اپنے نام کی ایک، کس تاریخ کو؟ اب بے چارے بری طرح سٹپٹائے” یار تاریخ یاد نہیں ”۔
شرم تو نہیں آتی ویسے ،اس تاریخ نے میرا جغرافیہ کیا پورا معاشرتی علوم بدل کر رکھ دیا آپ کو وہ تاریخ یاد نہیں ۔ میں نے ذرا جذباتی سی ایکٹنگ کرنے کی کوشش کی ۔
بیگم صاحبہ ! یہ ڈرامہ بند کریں ۔تاریخ یاد نہیں لیکن وہ سب کچھ اچھی طرح یاد ہے جو اس دن تم نے کیا تھا۔ میاں جی کے جواب پر میرے قہقہے کمرے میں گونجنے لگے۔آئیے آپ بھی سنیے ۔
یہاں میں نے عمر کی اٹھارویں منزل میں قدم رکھا وہاں امّی نے ہر آئے گئے سے میرے رشتے کی باتیں شروع کر دیں ۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں مخصوص انداز میں میرا تعارف کروایا جاتا۔” یہ میری بیٹی ہے ۔ابھی ابھی گریجویشن کیا ہے۔ جی جی ! نہیں ابھی کہیں بات نہیں کی۔ بیٹا آنٹی کو سلام کرو” اور میرا دل چاہتا تھا کہ ان آنٹیوں کو کسی دور جنگل میں یا ویرانے میں ان کی اولادِ نرینہ سمیت دفنا آؤں جو میرا سر تا پا جائزہ ایسے لے رہی ہوتی تھیں جیسے قصاب بکرے کو حلال کرنے سے قبل چیک کیا کرتا ہے۔
امی یوں بھی میری طرف سے خاصی مشکوک تھیں ۔ وہ کہتے ہیں نا ”پُوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں” تو امی کوبھی میری طرف سے خاصا خطرہ تھا کہ ہو نا ہو یہ لڑکی ضرور گُل کھلائے گی اس لیے جتنا جلد ہو سکے اسے کسی کھُونٹے باندھ دیا جائے ۔ حالانکہ امی کا یہ خوف بالکل بے جا تھا۔ میری جیسی بد لحاظ لڑکی کے قریب بھی کوئی نہیں پھٹکتا تھا۔ خاندان کے ایک آدھ لڑکے نے جسارت کرنے کی کوشش کی تو سارے خاندان میں میں نے اس غریب کی محبت کا ایسا اعلان کر ڈالا کہ آج تک کسی لڑکی نے اسے منہ نہیں لگایا ۔( اور میں نے تو یوں بھی کونسا لگانا تھا)۔
خیر مجھ سے بڑی بہن کی شادی تھی اور میں ہر چیز میں آگے آگے۔ ایک تو کچھ عمر کا خمار اور کچھ لوگوں کامجھے چڑھانا کہ بس آفت ڈھا رہی ہو ۔اسی نخرے میں اتراتی بل کھاتی سارے ہال میں اُڑتی پھر رہی تھی کہ بہن جس کی شادی تھی ،اس کی اسکول فیلو نے میرا راستہ روکا۔ میں اسے اچھی طرح جانتی تھی۔ ہم چونکہ ایک ہی اسکول کے پڑھے ہوئے تھے اس لیے شناسائی کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔
کہاں گھومتی پھر رہی ہو؟ لفٹ ہی نہیں کروارہی! عائشہ( بہن کی اسکول فیلو ) نے کہا
ارے ایسی کوئی بات نہیں عائشہ باجی وہ بس مہمانوں کو دیکھ رہی تھی( حالانکہ دیکھ میں اپنی خالہ کے اس منحوس دیور کو رہی تھی جو ویڈیو والے کے ساتھ ساتھ پھر رہا تھا اور بہانے بہانے سے میرے کلوز اپ بنا رہا تھا)
اچھا سنو! تمہاری کہیں کوئی بات شات تو نہیں ہوئی ہے ؟ عائشہ باجی نے ہمیشہ کی طرح نہایت دوستانہ انداز میں پوچھا
لو جی کہاں! ابھی تک کسی نے اس چڑیا کو دانہ نہیں ڈالا( میں نے اپنے تئیں کوئی بہت ہی وڈا جوک مارا) اور ساتھ ہی بڑے لوفرانہ انداز میں عائشہ کے ہاتھ پر ہاتھ بھی مارا۔
چلو دیکھتے ہیں ۔ عائشہ باجی یہ کہہ کر چل دیں اور میں خالہ کی طرف کہ ان سے ان کے دیور کی ذراعزت افزائی تو کروں۔ امّی اکثر کہتی تھیں کہ یہ جو تمھاری گز بھر کی زبان ہے نا یہ کسی دن تمھیں صحیح کا سبق سکھائے گی۔بس جی جگجیت سنگھ کا یہ گیت بالکل میری صورت حال پر صحیح لاگو ہوتا ہے
” مجھ کو یقین ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امّی کہتی تھیں”
باقی آئندہ
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 16th, 2019
زمرہ: طاہرہ ناصر, طاہرہ ناصر تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Engagement, Marriage, Song