قصہ ہماری منگنی کا(چوتھی قسط) «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • قصہ ہماری منگنی کا(چوتھی قسط)

    تحریر: طاہرہ ناصر

    دل تو چاہا کہ اس عائشہ کا گریبان پکڑ کر پوچھوں کہ کسی معصوم لڑکی کو اس کے ہی گھر میں رسوا کر کے اسے کیا مل گیا؟۔لیکن معاملات آگے بڑھتے ہی چلے گئے ۔ان کے گھر سے سب گھر والے مجھے دیکھنے آئے ۔میرا سخت موڈ آف تھا۔ بڑی بہن پہلے جا کر مل آئی تھیں ۔ امی نے بطور خاص ان سے کہا تھا کہ اس سے پہلے پوچھ لو ۔بعد میں ذلیل کرواتی ہے ۔ بہن نے مجھے تصویر تھمائی اور کہا
    دیکھ لو ۔تمھاری فرمائش تھی نا ۔ سب سے بڑی بہو بننا ہے ۔پانچ چھے دیور ہوں ۔تمھارے میاں تم سے کم از کم دس سال بڑے ہوں ۔ یہ سب خصو صیات ان میں پائی جاتی ہیں۔
    میں نے تصویر پر سرسری سی نظر ڈالکر اسے ایک طرف رکھ دیا۔ نہ کوئی گھنٹی بجی اور نہ ہی آنچل لہرائے ۔نہ کوئی فلمی گیت بیک گراؤنڈ پر چلا اور نہ ہی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں۔
    مجھے منظور ہے ۔ میں نے اعلان کیا۔
    تم سے پوچھ کون رہا ہے ؟ تمھیں بتا رہے ہیں ۔امی نہ جانے کہاں سے بر آمد ہوئیں۔
    مطلب ؟ آپ مجھ سے میری مرضی نہیں پوچھیں گی؟ میں نے خوامخواہ کی آواز گلوگیر کرنے کی کوشش کی ۔پر وہ میری ماں تھیں ۔میری رگ رگ سے واقف!
    مرضی؟ تمھاری مرضی سے تو ہو رہا ہے یہ سب کچھ۔لو بھلا بتاؤ خود اپنے منہ سے عائشہ کے سامنے بول کر آئی ہو ۔اب اتنا اچھا رشتہ ہے تو تمھیں کیا تکلیف ہے؟ امی نے اچھی خاصی کر دی تھی تو میں نے چپکی رہنے میں عافیت سمجھی
    دونوں طرف سے منگنی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگئیں ۔ میرے سسر میرے اور میں ان کی پہلے دن سے فین ہو گئی تھی۔وہ بضد تھے کہ نکاح کر دیا جائے اور مجھے شوق تھا کہ میری دھوم دھام سے منگنی ہو ،میری بھی عیدیاں آئیں سو ساری شرم ( جو کہ بقول امی کے کہیں میں بیچ آئی ہوں) بالائے طاق رکھ کر اعلان کیا کہ اگر انھیں نکاح کا اتنا ہی شوق ہے تو فوراً تین کپڑوں میں رخصت کروا کر لے جائیں ۔نکاح کے بعد میں ان کی ہر جا بے جا خواہش نہیں مانوں گی۔ میرے سسر بھی عجیب تھے انھیں اپنی اس باگڑ بلی بہو کی بات سمجھ آگئی اور وہ منگنی پر رضامند ہو گئے۔
    میرے خاندان کی پہلی منگنی تھی جو قریب قریب شادی کے انداز میں ہورہی تھی۔ سارے خاندان والے متجسس تھے کہ ایسا کون سا لعل ان محترمہ کے لیے پسند کیا گیا ہے جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ میرے اندر غرور یا خود پسندی کے جراثیم کہیں نہیں تھے۔ نہ ہی میں ڈائجسٹوں والی کوئی آئیڈیلزم کا شکار تھی۔ سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ کی دلدادہ ، اشتیاق احمد کو پڑھتے پڑھتے بڑی ہونے والی لڑکی سے یوں بھی رومانس کہیں دور پناہ مانگتا ہوگا۔ زندگی سے متعلق میرا بڑا واضح نظریہ تھا ” ہر پل جیو” ۔ یہ تو جیو والوں نے میرے لائن کاپی کی ہے۔ورنہ میں ہر لمحے کو جینے کے حق میں تھی اور آج بھی ہوں ۔خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔
    میری بہنوں نے طے کیا کہ میری آئی بروز وہ خود بنائیں گی کیوں کہ میں پہلی بار بنا رہی ہوں تو زیادہ دھاگا چلوانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مرحلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ چونکہ مجھے اس کی شدت کا اندازہ نہیں تھا اور بہنوں کو میرے رد عمل کا پتا تھا تو انھوں نے بھائی سے کہا کہ وہ مجھے پیروں سے دبوچ لے ،دوسرے نے میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے جکڑا اور ایک نے میرا سر اپنے قابو میں کیا تاکہ میں ہل جل نہ سکوں ۔اتنا تشدد کسی پھانسی کے ملزم پر بھی نہ ہو ا ہوگا جتنا مجھ غریب پر صرف آئی بروز بنوانے پر ہوا۔ جو کچھ منہ میں آیا میں ایسی ایسی مغلظات بکے گئی کہ الامان الحفیظ۔جتنی بد دعائیں دینی تھیں اپنے بہن بھائیوں کو دیں کہ جس طرح انھوں نے مجھے دبوچ کر یہ کارِ خیر انجام دیا انھیں اللہ ہی پوچھے گا۔
    سسرال سے خوب صورت فیروزی لہنگا ،میچنگ چوڑیاں ،سینڈل اور بہت کچھ آیا تھا۔ سب چیزیں بہت شاندار تھیں ۔ موصوف آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اور تین چھوٹے بھائی پہلے سے شادی شدہ تھے۔ بلکہ بچوں والے تھے۔ یہ حضرت کمانے میں اتنے مصروف رہے کہ کسی کو کیا خود اپنی بھی فکر نہ رہی کہ بابو شادی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔بہنیں دونوں غیر شادی شدہ تھیں ۔ میں رشتے میں بڑی بھابھی اور عمر میں اپنے سب سے چھوٹے دیور سے محض
    چند سال بڑی تھی۔
    منگنی کا دن آن پہنچا۔ دونوں طرف سے معاملہ بہت پرجوش تھا ۔ دولھے میاں نے ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کا بندوبست بھی کیا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ یہ کہانی آج سے 23 برس پہلے کی ہے جب اس طرح منگنیوں پر فوٹوگرافی کا اتنا رواج نہ تھا۔مجھے تیار ہونے کے لیے پارلر بھیجا گیا ۔جہاں میرا منگنی کا میک اپ ہونا تھا اور وہ بیوٹیشن کچھ ایسی مجھ پر فدا ہوئی کہ مجھے برائیڈل میک اپ کر بیٹھی۔( بالکل ہی فارغ تھی شاید ! یہ میرا خیال تھا)۔ بہت سارے موتیے کے گجرے بالوں میں سجائے ،نقلی پلکوں کی چلمن اٹھاتے گراتے میں وقت سے پہلے ہال میں داخل ہوئی کیوں کہ فوٹو گرافی کا سیشن ہونا تھا جس کے بارے میں مجھے قطعاً علم نہیں تھا۔ اور جب مجھے کسی چیز کا پتا نہ ہو اور وہ اچانک مجھ پر وارد ہو جائے تو مسائل تو پیدا ہونے ہی ہوتے ہیں۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔