تحریر: طاہرہ ناصر
میرے ساتھ ہال میں میری بڑی بہن تھیں ۔انھوں نے مجھے برائیڈل روم میں بٹھایا اور ابھی آئی کہہ کر کہیں غائب ہوگئیں۔ میں تھوڑی دیر تک تو اس مختصر سے مستطیل نما کمرے کاجائزہ لیتی رہی مگر آخر کب تک؟ اس کی 4 دیواریں دو صوفے ایک کارنر پر پڑا ڈریسنگ ٹیبل جس کی ایک دراز ندارد تھی،اس کمرے میں بچھا ہوا لال رنگ کا قالین،سب کچھ تو میں نے دیکھ لیا تھا۔میں بہت دیر تک ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتی تھی چنانچہ اپنی جگہ یعنی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لینے لگی۔
اف توبہ! کوئی رنگ نہ چھوڑا تھا اس بیوٹیشن نے میرے چہرے پر ملنے کے لیے۔میں بور ہورہی تھی۔ آئینے میں اپنے چہرے کے زاویے بگاڑ بگاڑ کر دیکھنے لگی۔ کچھ تاثرات پر خود ہی ہنس پڑی کچھ پر ڈر بھی لگا۔ شرمانے کی ایکٹنگ کی تو خود کو ہی رد کردیا کہ بی بی ! یہ آپ کاکام نہیں ہے اسی اثنا میں کوئی کمرے میں دروازہ بجا کر داخل ہوا۔ میں پوری گھوم گئی۔
کون ہیں بھئی آپ؟ دیدے پھاڑے میں نے آنے والے پر سوال داغا
جی وہ میں فوٹوگرافر ہوں ۔ میرا نام حسن ہے۔ ناصر بھائی نے بھیجا تھا ۔آپ کا شوٹ کرنا ہے ۔اس نے نہایت تمیز اور اخلاق سے اپنا تعارف کروایا
میں نے اسے غور سے دیکھا ۔اچھا خاصا معتبر سا پروفیشنل بندہ لگ رہا تھا۔ اس نے اپنے ہتھیار میرا مطلب ہے کیمرہ اور لینس وغیرہ سیٹ کرنے شروع کیے۔ میں بہت دلچسپی سے سب دیکھ رہی تھی۔میں یہ سمجھی کہ بس اب میں صوفے پر بیٹھوں گی اور اس نے دو چار کلک کرنے ہیں اللہ اللہ خیر صلّیٰ! اب آپ ایمانداری سے بتائیں کہ اس میں میرا کیا قصور کہ مجھے یہ پتا نہ ہو کہ فوٹو گرافر سے کس طرح کا تعاون کرنا پڑتا ہے ۔تو ہوا یوں کہ پہلے تو اس نے میری امیدوں کے عین مطابق صوفے پر ہی مجھے بٹھا کر کچھ تصویریں گھوم گھوم کر اتار لیں ۔ مسئلہ تب ہوا جب اس نے مجھے کہا کہ میڈم ذرا میری طرف دیکھ کر مسکرائیں
” دماغ صحیح ہے آپ کا” میں تو پوری طرح سلگ گئی
جی۔۔۔۔۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ میں اسے اس بری طرح لتاڑ دوں گی۔
دیکھیں جی آپ مجھے نہیں اس کیمرے کو دیکھ کر مسکرائیں۔اس نے وضاحت دی تو میں جھینپ گئی۔
تو یوں کہیں نا! چلیں جی مسکرا بھی دیا کچھ اور کلکس ہو گئیں
اب آپ اپنے دونوں کلائیوں کی چوڑیوں کو آنکھوں کے درمیان رکھیں جیسے ” میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں ” اس نے مجھے اس طرح سمجھایا کہ جیسے مجھ سے بڑا چغد کوئی اور نہیں ہوگا لیکن میں تو غش کھا کر گرنے والی تھی
میں یہ سب کچھ نہیں کرنے والی۔ کتنا چھچھورپن لگے گا۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔
اچھا پلیز اپنے کان کا ایک جھُمکا ہی پکڑ لیں۔ وہ بے چارہ منت پر اتر آیا۔
ایک کیوں ؟ دونوں کیوں نہیں۔۔ مجھے اب اسے تنگ کرنے میں مزا آنے لگا۔ وہ بےچارہ مجھے کہتا کہ آپ اپنا آنچل پکڑیں اور میں روبوٹ کی طرح سیدھی کھڑی ہو جاتی کہ مجھ سے نہیں ہورہا ۔وہ مجھے سنجیدگی سے ایک طرف دیکھنے کہتا اور میری ہنسی نہ رکتی ۔تنگ آکراس نے وہیں سے ناصر کو فون کیا اور میری شکایت لگادی کہ آپ کی ہونے والی منگیتر فرما رہی ہیں کہ شرافت سے سیدھے سیدھے تصویریں کھینچو اور چلتے بنو ۔یہ ڈرامے مجھ سے نہیں ہو ں گے۔ جواب میں اسے کیا کہا گیا اس پر اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ یقیناً میرے خلاف کوئی بات ہو گی۔ وہ کچھ دیر کو باہر چلا گیا ۔ اچانک بڑی بہن برائیڈل روم میں داخل ہوئیں اور غصے سے بولیں ” اپنا دماغ ذرا ٹھنڈا رکھو۔ اس نے اتنے پیسے خرچ کرکے اس فوٹو گرافر کو بھیجا ہے اور تمھارے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے؟ شرافت سے جیسا وہ کہہ رہا ہے ویسا کرو۔ میں یہیں ہوں” ۔ بہن کی ڈانٹ سے مجھے اندازہ ہوگا کہ میری شکایت اوپر پہنچائی گئی ہے ۔سخت تاؤ آیا ۔پر اس وقت میرے بس میں کچھ نہیں تھا چنانچہ مرتی کیا نہ کرتی اس کے حکم کے مطابق تصویریں بنواتی گئی۔لیکن فوٹو گرافر کے چہرے کی دبی دبی مسکراہٹ نے اندرتک آگ لگا دی تھی۔” بدلہ تو لے کے رہوں گی ناصر میاں ! ابھی انگوٹھی پہنائی نہیں ہے اور اپنا حق جتانا شروع کر دیا” منگنی سے پہلے ہی اس ان دیکھے شخص کےلیے غصہ دل میں بھر چکاتھا۔
(اگلی آخری قسط کل پڑھیے)
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 16th, 2019
زمرہ: طاہرہ ناصر, طاہرہ ناصر تبصرے: کوئی نہیں