تحریر: ابن ریاض
ایک اور عالمی کپ ہاتھ سے پھسل گیا۔ گیارہ پچاس اوورز کے عالمی کپوں میں اور چھ بیس اوورزکے عالمی مقابلوں میں ایک ایک ہمارے حصے میں آیا۔ابتدائی عالمی کپ میں ہم عمومًا سیمی فائنل یا فائنل میں پہنچ جایا کرتے تھے، اب تو ہم اس کپ کو دور دور سے اور ٹھہر ٹھہر کے دیکھتے ہیں۔ اب کی بار بھی ٹیم سیمی فائنل میں نہ پہنچ پائی۔ لیکن کچھ رجائیت پسند ابھی تک پر امید ہیں کہ پاکستان ضرور سیمی فائنل میں ضرور پہنچے گا۔ ممکن ہے کہ بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمیں کسی انجانی مرض میں مبتلا ہو جائیں۔ اس معاملے میں ہمارا مشورہ یہ ہے کہ شائقین ابھی سے ‘آیت کریمہ’ کا ورد شروع کر دیں کہ سیمی فائنل میں ابھی چند دن باقی ہیں۔
بعض دل جلوں کا کہنا ہے کہ ٹیم ہنوز سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے اگر علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام تبدیل کر کے ‘سیمی فائنل’ رکھ دیا جائے۔ ہمیں اپنی قوم پر حیرت ہوتی ہے کہ محض ٹیم کو سیمی فائنل تک ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس سے بھی آگے کی سوچتے ہیں۔ اگر ہم ‘قذافی اسٹیڈیم’ کا نام ‘فائنل’ رکھ دیں تو ٹیم باآسانی فائنل میں بھی پہنچ جائے گی۔ اب کپ پکڑانا باقی ہے مگر کسی ٹیم کا ہارنا بھی ضروری ہے تو کرکٹ بورڈ کے یومیہ تنخواہ والے ملازمین پر مشتمل ٹیم سے اپنی قومی ٹیم کا فائنل کروا کے اس کو عالمی چیمپئن بنایا جا سکتا ہے۔
اگلے برس چیمپئن ٹرافی ہے۔ 2019 میں پچاس اوورز کا عالمی کپ منعقد ہونا ہے۔ موجودہ صورتحال میں تو ان مقابلوں میں اچھی کارکردگی کے لئے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ کرکٹ کا پورا سسٹم بدلنا پڑے گا۔ نئے اور سمجھ دار چہرے بورڈ میں لانا پڑیں گے۔ انھیں نئے قدرتی صلاحیت سے مالامال اور محنتی اور جفاکش کھلاڑی ڈھونڈنے پڑیں گے۔ ایسے کھلاڑی جو میچ کے لئے جان لڑا دیں اور ان پر کوئی ایسا کپتان بھی ڈھونڈنا پڑے گا جو رٹے رٹائے اسکرپٹ پر کام کرنے کی بجائے صورت حال کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہو۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ شہریار، نجم سیٹھی، انتخاب عالم، ہارون الرشید جیسے گوہرِ نایاب سے ہمیں ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ یہ بھی معمولی نقصان نہیں۔ کرکٹ ایسے بھی نہیں چل سکتی۔ انھی لوگوں نے تو اسے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔
تجزیہ کریں تو کرکٹ بورڈ سخت مشکل صورت حال سے نبزد آزما ہے۔ یہ اپنی ٹیم کی کارکردگی سے بالکل خوش نہیں ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ ٹیم اچھا کھیلے۔ مگراس کے لئے شرائط بہت کڑی ہیں۔ اور شرائط سراسر بورڈ کے اراکین کے خلاف ہیں۔ ان کا دل بھی نہیں مانتا کہ وہ بورڈ کو چھوڑ دیں اور نئےآنے والے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹیں۔ یہ تو صرف انھی کا حق ہے۔سو بورڈ کے اراکین کے لئے ادھر کنواں ہے ادھر کھائی ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کیا کریں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ان کی کرسیاں بھی سلامت رہیں اور ٹیم بھی دنیا کی بہترین ٹیم بن جائے۔
خود ہمارا بھی دل نہیں چاہتا کہ اس عمر میں ہمارے بزرگ اپنی تنخواہ سے محروم ہوں اور گھر پر بیکار زندگی بسر کریں۔ سوہم نے بھی اس پر سوچ بچار کی ۔ دو تجاویز ہمارے ذہن میں آئی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ہمارا بورڈ ایک ٹورنامنٹ کا انعقاد کرے۔ اس کا نام عالمی کپ رکھے اورمقام انعقاد پاکستان ہی رکھا جائے۔ بلکہ سارا پاکستان تو زیادہ ٹھیک نہیں( مسئلہ ہو سکتا ہے کوئی پاگل ٹیم آ بھی سکتی ہے) تو شمالی وزیرستان میں پورا عالمی کپ کروائے۔ تمام ٹیموں کو شرکت کی دعوت دی جائے۔ ظاہر ہے کہ کوئی ٹیم نہیں آئے گی جبکہ ہماری ٹیم وہاں موجود ہو گی۔سو ہمیں واک اوور مل جائے گا اور عالمی کپ ہمارا۔ ممنون حسین اپنے ہاتھ سے شاہد آفریدی کو ٹرافی پکڑائیں گے اور کرکٹ بورڈ بھی خوش، ٹیم بھی اور عوام بھی۔
اس پر آئی سی سی اور دوسروں ملکوں کو اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کیسا ٹورنامنٹ ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے تو اس کا متبادل یعنی دوسری تجویز بھی موجود ہے۔وہ یہ کہ ہم اپنے دوست ملک چین سے مدد لے سکتے ہیں۔ہر چیز کی نقل بنانے میں ماہر ہیں۔ سو ہمارا بورڈ ان کو دیرینہ تعلقات یاد دلائے اور ان سے مدد مانگے کہ سوئی سے لے کر جہاز تک ہر چیز بنا لیتے ہو۔ ذرا ہمیں نئی ‘آئی سی سی’ تو بنا دو۔ وہ اس کی نقل بنا دیں گے۔ اس کا نام آئی سی سی کی بجائے ڈبلیو سی سی(ورلڈ کرکٹ کونسل) رکھا جا سکتا ہے۔ آخر کوکئی کھیلوں کی ایک سے زیادہ عالمی تنظیمیں ہیں۔یوں بھی تمام ملک ٹی ٹونٹی لیگیں کروا لیتے ہیں۔ لیگیں وہی ہوتی ہیں بس نام و مقام مختلف۔اس تنظیم کو پھر متعلقہ اداروں سے رجسٹرد کر لیا جائے۔ اگر ممبر ممالک اس کا بائیکاٹ کریں تو دیگر دوست ملکوں کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ایران، ترکی، سعودی عرب، گنی بسائو ، گوئٹے مالا، نائیجر، نائیجیریا، فجی اور دیگر ممالک کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش، افغانستان، ہانگ کانگ اور اومان وغیرہ کو شامل کرنے کی حماقت نہ کی جائے۔ ایسے ممالک کوئی بھی اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔چین کو بھی ڈالا جا سکتا ہے مگر پہلے ہی ضمانت لے ہی جائیں کہ شروع کے چار چھ عالمی کپ ہمارے ہی رہیں گے۔
اس کونسل کی رجسٹریشن کے بعد پہلا صدر تو پاکستان کا ہی بننا چاہیے۔ تاہم اگر اختیارات اپنے پاس ہوں تو کسی اور ملک کے بندے کو بھی چیئرمین یا صدر بنانے میں مضائقہ نہیں۔ ان کا دل خوش ہو جائے گا۔ اس کے بعد اپنا عالمی کپ کروایا جا سکتا ہے۔ بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ اس تنظیم کو بین الاقوامی اولمپک کونسل سے بھی منظور کروا لیا جائے اور دوست ملکوں سے مل کر کرکٹ کو اولمپک میں بھی شامل کروا دیا جائے۔ گولڈ میڈل کا بھی تو دل چاہتا ہے قوم کا۔ اب ہاکی میں تو ہم عالمی کپ میں شرکت کے بھی اہل نہیں رہے۔ کرکٹ سے اس کی تلافی بھی ہو جائے گی۔ سو عالمی کپ اور سونے کا تمغہ سب اعزاز ہمارے۔ ہمارے کھلاڑیوں میں بھی اختلافات نہیں رہیں گے اور عوام بھی خوش۔ بورڈ کی تو پانچوں گھی میں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جولائی 5th, 2019
زمرہ: طنزو مزاح, کرکٹ تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: cricket, Ibn e Riaz, ICC, International Cricket Councel, Pakistan team, PCB, World Cup