تاریخ کا بہترین فائنل «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • تاریخ کا بہترین فائنل

    تحریر: ابنِ ریاض

    1985 میں آسٹریلیا میں ہونے والی  ورلڈ کرکٹ چیمپین شپ سے کرکٹ کو فالو کر رہا ہوں مگر ایسا فائنل نہیں دیکھا۔ 1993 میں پاکستان او ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والی ون ڈے سیریز کا پانچواں اور آخری میچ تماشائیوں کے میدان میں ہلہ بول دینے کے باعث  ٹائی  ہو گیا تھا اور یوں سیریز بھی دو دو سے برابر قرار پائی تھی مگر  وہ دوملکوں کے درمیان سیریز  تھی ناکہ عالمی کپ کا  فیصلہ کن معرکہ ۔1999 میں ایسا ہی گھمسان کا رن آسٹریلیا و جنوبی افریقہ کے درمیان پڑا تھا اور میچ لمحہ  لمحہ صورت حال بدلنے کے بعد ٹائی ہوا تھا۔ وہ میچ اب تک کا ہماری زندگی کا بہترین میچ تھا۔ تاہم کل والا میچ یعنی  انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کا 2019 ورلڈ کپ فائنل  بھی کسی لحاظ سے اس سے کم نہیں۔

    انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیموں میں شامل تھی۔ یہ انگلینڈ ٹیم کے لئے بڑا اعزاز تھا  کیونکہ  گزشتہ عالمی کپ میں انگلینڈ کو نہ صرف بنگلہ دیش نے ہرایا ھا بلکہ نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کے خلاف ہدف محض بارہ اوورز میں پورا کر کے انگلینڈ کو پہلے ہی رائونڈ میں باہر کر دیا تھا۔اس کے بعد انگلینڈ نے  ون ڈے کرکٹ کے متعلق اپنا رویہ بدلا۔ سوچ بدلی۔ جارحانہ مزاج کھلاڑی کو کپتان بنایا اور جارحانہ کھیلنے والوں کو ٹیم میں ڈاالا۔ انھوں نے ون ڈے کرکٹ کا مزاج ہی بدل دیا۔ اب ساڑھے تین سو اور چار سو بھی محفوظ اسکور نہیں۔  اسکے علاوہ انھوں نے ہر ٹیم کو ہر قسم کی وکٹوں پر ہرایا۔انگلینڈ اپنے چار سال کی کارکردگی کی بنا پر فیورٹس میں شامل تھی اور وہ اس کی یقیناً حقدار بھی تھی۔ تاہم رائونڈ میچز میں پاکستان، سری لنکا اور آسٹریلیا سے شکست نے ان کی مہم کو متاثر کیا مگر وہ بروقت سنبھل گئے اور بھارت و نیوزی لینڈ کو شکست دے کر سیمی فائنل میں جا پہنچے جہاں انھوں نے یکطرفہ مقابلے میں آسٹریلیا جیسی ٹیم کو شکست دے کر خود کو عالمی چیمپئن بننے کا اہل ثابت کیا۔

     نیوزی لینڈ پاکستان کے بعد ہماری پسندیدہ ٹیم ہے۔ اس کی ایک وجہ تو آنجہانی مارٹن کرو ہیں اور دوسرے وہ لوگ کرکٹ کو کھیل سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ ان کے کسی کھلاڑی کو  ہم نے  حد اعتدال سے گزرتے نہیں دیکھا۔اسکے علاوہ اس برس مارچ میں نیوزی لینڈ میں ہونے والے سانحے کے بعد ان کی وزیر اعظم اور عوام نے جس طرح مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا اس نے بھی ہمارا دل موہ لیا۔نیوزی لینڈ ایک روزہ میچوں کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔ اس کے بھی امکانات تھے سیمی فائنل کھیلنے کے۔ نیوزی لینڈ نے ابتدائی میچز جیتے اوراچھے مارجن سے جیتے جبکہ بھارت سے میچ نہیں ہوا۔ آخری تینوں میچز پاکستان، آسٹریلیا و انگلینڈ سے ہارا مگر قسمت نے یاوری کی۔ پاکستان عقاب کالی اندھی نے دور دراز جزیروں میں جا پھینکے تھے سو وہ کوشش کے باوجود(یا شاید کوشش ہی نہیں کی) رن ریٹ بہتر نہ کر پائے  اور یوں پوائنٹس برابر ہونے پر نیوزی لینڈ بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل میں پہنچ گیا اور پاکستان ٹیم علامہ اقبال ائیر پورٹ۔

    پاکستان کے سیمی فائنل سے باہر ہونے کے بعد ہماری خواہش تھی کہ  انگلینڈ و نیوزی لینڈ کا فائنل ہو۔ آسٹریلیا پہلے ہی پانچ عالمی کپ وصول چکا ہے جبکہ بھارت نے انگلینڈکے خلاف جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔  انگلینڈ نے تو آسٹریلیا کو یک طرفہ مقابلے میں ہرا دیا مگر نیوزی لینڈاور بھارت کا برابر کا جوڑ پڑا۔ بھارت نے سب کو ہرایا تھا سوائے انگلینڈ کے جبکہ نیوزی لینڈ سے میچ نہیں ہوا تھا ۔سو سیمی فائنل میں کم سکور کے باوجود نیوزی لینڈ نے بھارت کے ہوش ایسے اڑائے جیسے سیلبس کے باہر کا سوال امتحان میں بچوں کے ہوش اڑاتا ہے۔ بھارت کو حیران کر کے اور پاکستان کو خوش کر کے نیوزی لینڈ نے فائنل میں جگہ بنا لی۔

    فائنل میں ہماری ہمدردیاں بوجوہ نیوزی لینڈ کے ساتھ تھیں مگر انگلینڈ کی جیت پر بھی ہمیں اعتراض نہیں تھا بس ایک اچھا دیکھنے کی خواہش تھی۔ فائنل میں نیوزی لینڈ ن پہلے بیٹنگ کی اور 241 رنز بنائے۔ یہ ایک اوسط اسکور تھا۔ برطانیہ نے جیسے آسٹریلیا کے خلاف 224 رنز 33 اوورز میں پورے کر لئے تھے، اگر اسی فارم میں رہتا تو یہ ان کے لئے یہ ہدف قطعی مشکل نہیں تھا۔ مگر یہ فائنل تھا اورپہلی ہی بال پرامپائر آئوٹ دے دیتا تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا۔اس کے بعد بھی نیوزی لینڈ کے گیند باز اور فیلڈرز بہت اچھی بائولنگ اور فیلڈنگ کرتے رہے اور میچ آخری اوور تک  نیوزی لینڈ کے قابو میں تھا مگر جب تین گیندوں پر نو رنز رہتے تھے تو  مارٹن گپٹل کی تھرو  سٹوکس کے بلے سے ٹکرا کر بائونڈی پار کر گئی تو میچ نے ایک دم پلٹا کھایا اور بازی انگلینڈ کے حق میں پلٹ گئی۔ تاہم بائولر اور فیلڈرز نے 2 گیندوں پر تین رنز نہ بننے دئیے اور یوں میچ ٹائی ہو گیا۔ اس پر سپر اوور کے ذریعے  میچ کا فیصلہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ  سپر اوور  میں بھی نتیجہ یہی رہا۔ زیادہ بائونڈریز لگانے کی وجہ سے انگلینڈ کو فاتح قرار دیا گیا۔  اس وقت اگر آئی سی سی سمجھ داری کا مظاہرہ کرتی تو کپ ہمارا تھا کیونکہ ہم نے انگلینڈ و نیوزی لینڈ دونوں کو ہی ہرایا تھا۔

    انگلینڈ عالمی چیمپئن بن گیا اور وہ اس کا مستحق بھی تھا تاہم ہاری نیوزی لینڈ بھی نہیں مگر ٹرافی ان کے نصیب میں نہیں تھی۔اگر بائونڈیز کی بجائے کم  وکٹوں کا قانون ہوتا( 1980 اور 1990 میں یہی رائج تھا بلکہ 1987 کے شروع میں پاکستان بھارت کی سیریز میں ایک ہی ون ڈے ہارا تھا اور وہ اسی قانون کے تحت) تو  اس ٹرافی پر اس وقت نیوزی لینڈ کا قبضہ ہوتا۔ قوانین  عالمی کپ سے قبل ہی طے ہوئے تھے اور ان  سے کسی کو فائدہ ہوا  اور کسی کو نقصان ۔  اگر قوانین  بنانے والوں کو معلوم ہوتا  کہ  فائنل ایسا ہونے والا ہے تو شاید وہ ٹرافی مشترکہ  تقسیم کر دیتے –اگر ایک سو دو  اوورز کے بعد بھی ٹیمیں  شکست ماننے کو  تیار نہیں ہیں تو شاید ٹرافی  کی تقسیم ہی منصفانہ فیصلہ ہوتا ۔

    نیوزی لینڈکی اچھی  اور حیران کن بات جو ہم نے دیکھی وہ ان کا مشکل حالات میں اعصاب پر قابو تھا۔ ویسٹ انڈیز کے میچ میں براتھ ویٹ کا کیچ ہو یا گپٹل کا دھونی کو رن آئوٹ کرناہو ۔سیمی فائنل و فائنل میں دو کمال کیچ  بلاشبہ  مشکل میچز میں ان کے فیلڈرز کی کارکردگی قابل تحسین رہی تاہم بیٹنگ کا بوجھ ولیمسن اکیلے اٹھائے پھرتے رہے۔ دوسرے تمام  بلے بازوں کا عالمی کپ ان کے معیار سے کم تر رہا۔ جبکہ انگلینڈ نے ٹیم گیم کا مظاہرہ کیا۔ ہر میچ میں کسی نہ کسی کھلاڑی نے شاندار پرفارمنس دی سو ہماری ہمدردیاں اپنی جگہ مگر قدرت  نے بھی شاید زیادہ مستحق ٹیم کا ساتھ دیا ۔نیوزی لینڈوالے  ٹرافی تو نہ جیت سکے مگر انھوں نے بے شمار دل کل جیت لئے۔

    ٹیگز: , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔