تحریر: ابنِ ریاض
پاکستان کرکٹ ٹیم برسبین میں شکست کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ کل اننگز کی شکست سے دو چار ہو جائے گی۔ ٹی ٹونٹی سیریز میں امتیازی ناکامی کے بعد دورے کے مشقی میچوں میں ٹیم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو عوام نے امیدیں اور توقعات بڑھا لیں۔ یہ بھول گئے کہ آسٹریلیا پاکستان کی دکھتی رگ ہے۔اسی کی دہائی کی وہ ٹیم جس نے ویسٹ انڈیز کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے جب بھی آسٹریلیا گئی تو ہمیشہ ہی ہار کر آئی۔ یہ ٹیم تو بالکل ہی نئی بالخصوص تیز رفتار گیند بازی میں اور نہ ہی اس میں کوئی تن تنہا میچ جتوانے والا بلے باز ہے۔ سو خام امیدوں کے تمام محل پہلے دو روزمیں ہی مسمار ہو گئے۔
جب سے ہم کرکٹ دیکھ رہے ہیں گابا (برسبین )اور پرتھ کے واکا گراؤنڈ میں تو ہمیشہ ہمیں شکست کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ 1995 میں سیریز کا پہلا میچ یہاں تھا۔ 1990کے عشرے کی باؤلنگ لائن کس کو یاد نہیں۔ وسیم ،وقار، مشتاق۔ مگر آسٹریلیا نے چار سوترینسٹھ(463) رنز بنائے اور پھر پاکستانی وکٹوں کی جھڑی لگ گئی۔پوری ٹیم ستانوے (97) رنزپر آؤٹ ہو گئی۔ عامر سہیل نے بتیس(32) اور وقار یونس نے انیس (19) رنزبنائے۔ دوسری اننگز میں عامر سہیل نے جارحانہ نناوے (99)رنز بنائے اور انضمام نے باسٹھ (62)رنز کی انگز کھیلی مگر پوری ٹیم دو سو چالیس (240) رنز ہی بنا سکی اوریوں اننگز اور ایک سو چھبیس(126) رنز کی شکست مقدر ٹھہری۔
1999 میں پاکستان کی بہترین نے آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ اگر پاکستان کا آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرانے کا کبھی حقیقی امکان تھا تووہ اس دورے میں تھا۔ سعید انور،اعجاز احمد، انضمام،یوسف یوحنا جیسے بلے باز عبدالرزاق ، معین خان اور اظہر محمود جیسے آل راؤنڈرز اور وسیم ،قار، شعیب اختر، مشتاق احمد اور ثقلین جیسے باؤلرز۔اس مرتبہ بھی پہلا ٹیسٹ برسبین میں ہی تھا۔پاکستان ٹیم کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وقار اور ثقلین کو باہر بٹھادیا گیا ۔پاکستان نے پہلے بلے بازی کی اور یوسف، انضمام ، سعید اور معین کی نصف سینچریوں سے تقویت پا کرتین سو سڑسٹھ(367) رنز بنا ڈالے۔ جواب میں آسٹریلیا نے پاکستانی باؤلنگ کی دھجیاں اڑا دیں اور پانچ سو پچہتر(575) رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا بلکہ پہلی وکٹ کی شراکت ہی دو سو انہت(269) رنز کی ہوئی۔بعد میں آنے والے بلے بازوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔چوتھے دن کے اختتام پر پاکستان نےچار وکٹ پر دو سو تئیس(223) رنز بنالئے تھے اور سعید انور ایک سو اٹھارہ(118) رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔ پاکستان نے لیڈاتار دی تھی سو امید تھی کہ دوسیشنز بیٹنگ کر لی تومیچ بچ جائے گا مگر ہوا توقعات کے برعکس اورکھانے کے وقفے کے کچھ ہی دیر بعد آسٹریلیا نے چہتر(74)رنز کا ہدف بغیر کسی وکٹ کھوئے حاصل کر کے میچ دس وکٹوں سے جیت لیا۔
2005اور 2010 کی سیریز میں برسبین میں ٹیسٹ نہیں تھے جبکہ2016 میں یہاں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ گلابی گیند کے ساتھ کھیلاگیا۔ اس میچ میں بھی آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کی اور چار سو انتیس (429) رنز بنا ڈالے۔پاکستان کی ٹیم جواب میں محض ایک سو بیالیس(142) پر ڈھیر ہو گئی۔آسٹریلیا نے پھر بیٹنگ کی اور پاکستان کو جیتنے کے لئے عالمی ریکارڈ چار سو نوے(490) رنز کا ہدف کیا۔پہلی اننگز کی کارکردگی کی بنا پر عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان ٹیم جلد آؤٹ ہو کر بڑے فرق سے ہار جائے گی۔ تاہم اسد شفیق کا نچلے بلے بازوں نے خوب ساتھ دیا اور پاکستان ہارا ہوا میچ قریب قریب جیت ہی گیا۔اس مرتبہ شکست کافرق انتالیس(39)رنز تھا۔
سو اگر ماضی سے تقابل کیا جائے تو کارکردگی میں زیادہ فرق نہیں بلکہ کچھ لحاظ سے بہتر ہے۔ جیسے 1995 میں پاکستانی ٹیم کے اسکور ستانوے اور دو سو چالیس تھے۔ 1999 میں پاکستان کی تاریخ کے بہترین گیند بازوں کی موجودگی میں پونے چھ سو رنز بن گئے۔
کرکٹ میں کچھ چیزیں انتہائی حیرت انگیز ہوتی ہیں اور چند چکر مسلسل چلتے ہیں۔ جیسے 22 نومبر کی تاریخ ہمیں پسند نہیں۔ اور ہمیں اندازہ تھا کہ پاکستان کے لئے مشکل دن ہو گا مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ 1999 کے 22 نومبر کی کاپی ہو گا 2019 کا یہی دن۔ 1999 میں اسی دن لینگر اور گلکرسٹ نے پاکستان سے ایک جیتا ہوا میچ چھینا تھا اور اس کے بعد سے ٹیسٹ میچوں کا توازن آسٹریلیا کے حق میں ہو گیا۔ اس روز بھی پورے دن کے کھیل میں ایک وکٹ گری تھی اور کل بھی ایک ہی وکٹ گری۔ اور ہاں اس روز بھی لینگر کا کیچ نصف سینچری کے بعد وکٹ کیپر نے لے لیا تھا مگر امپائر نے نہیں دیا تھا۔ کل بھی وارنر کا کیچ چھپن پر وکٹ کیپر نے پکڑا لیکن اس بار تھرڈامپائر نے آؤٹ نہیں دیا ۔ اک گیند وکٹ سے بھی ٹکرائی مگر وکٹ یوں کھڑی رہی لاہور میں مینار پاکستان۔ دوسرا دن اگر نکال دیا جائے تو آج دو سو اڑسٹھ(268) رنز دے کر نو وکٹیں بری کارکردگی نہیں کہی جا سکتی مگر مسئلہ یہ ہے کہ پہلے دو دن میں ہی اتنا کچھ ہو چکا ہے کہ اب تو برسبین میں سیلاب ہی پاکستان کو بچا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کبھی بھی بیرونی ٹیموں کے لئے اچھا میزبان ثابت نہیں ہوا۔ پچھلے چھبیس سالوں میں آسٹریلیا پانچ مرتبہ گھر میں زیر ہوا ہے۔ جس میں تین مرتبہ یہ اعزاز جنوبی افریقہ کو حاصل ہے۔ایک مرتبہ برطانیہ اور ایک مرتبہ یعنی پچھلے برس بھارت کنگروز کو تسخیر کرنے میں کامیاب ہوا۔
اگلا ٹیسٹ ایڈیلیڈ میں ہے۔ 1990 میں آخری مرتبہ پاکستان نے مقابلہ کر کے یہیں ٹیسٹ ڈرا کیا تھا( سڈنی میں تین دن بارش رہی تھی جس کی وجہ سے وہ ٹیسٹ بھی بلا نتیجہ ثابت ہوا تھا) ۔انتیس سال بعد پاکستان ایڈیلیڈ میں ٹیسٹ کھیلے گا اور ممکن ہے کہ میدان بدلنے سے پاکستان کے نصیب بھی بدل جائیں ۔تاہم کچھ حارث کو باہر بٹھانا اور عباس کی شمولیت ضروری ہو گی۔ اس کے علاوہ تمام کھلاڑیوں کو اپنی کارکردگی کا ایک سو بیس(120) فیصد دینا پڑےگا تب ہی آسٹریلیا میں ہاروں کا یہ سفلی چکر ختم ہو گا۔