ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا

    تحریر: ابنِ ریاض

    جنید جمشید نے ‘دل دل پاکستان’ سے شہرت پائی اور ان کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ملی نغمہ ہی کافی تھا۔ شاید ہی کوئی پاکستانی ہو گا کہ جس نے یہ ملی نغمہ نہ سنا ہو اور اپنی آواز میں نہ گنگنایا ہو۔ نازیہ زوہیب کے بعد پاکستان میں پاپ میوزک کے فروغ میں ان کا ہی نام آتا ہے۔انھوں نے اپنے گانوں کے کئی البم دیئے اور وہ سبھی قبول عام ہوئے۔ نوجوان طبقے میں وہ بلاشبہ بہت مقبول تھے اور ان کے کنسرٹس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے تھے ۔
    اپنے عروج میں ہی ان کی زندگی نے پلٹا کھایا اور وہ موسیقی و گانوں سے تائب ہوئے اوراپنے طرزِ زندگی کو بدلا اور دین کی تبلیغ کے لئے خود کو وقت کر لیا۔ساری ساری رات کنسرٹس کرنے والا اب صبح نمازفجر کے لئے اٹھنے لگا۔ کچھ لوگ ان کی وفات پر انھیں جنتی قرار دے رہے ہیں تو چند ایسے بھی ہیں کہ جو ان کی کچھ غلطیوں اور ماضی کی بنا پر کافر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی وفات کو خوش خبری قرار دے رہے ہیں انکو بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے
    دشمن مرے تے خوشی نہ کریے
    سنجاں وی مر جانا 
    ہم پاکستانی از خود ہی کسی کو جنتی تو کسی کو جہنمی قرار دینے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ میرے رب کا اختیار ہے اور قیامت میں اعمال گنے نہیں تولے جائیں گے۔اگر اعمال گنے جاتے تو شیطان مردود کیوں ہوتا اور حبشی حضرت حمزہ کو شہید کرنے کے باوجود صحابی کیسے بن پاتا؟ سو جنید جمشید بلکہ ہر شخص کا معاملہ ہمیں اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے مگر اس سب کے باوجود جنید صاحب کے سر اس بات کا سہرا ہے کہ  عین عروج میں انھوں نے موسیقی کو غلط جانا تو اس کو چھوڑ دیا حالانکہ وہ ان کا ذریعہ معاش تھا اور جو رستہ ٹھیک لگا اس کو چن لیا۔ اس وقت یقیناً انھیں علم نہیں ہو گا کہ وہ یہ سب چھوڑ کر بھی بہت اچھی اور قابلِ رشک زندگی گزاریں گےاور ان کےچاہنے والوں کا حلقہ اگر زیادہ نہیں تو اتنا تو رہے گا ہی جتنا کہ دورانِ موسیقی تھا۔بلاشبہ یہ کوئی معمولی عمل نہیں۔ ہم سے تو فیس بک نہیں چھوڑی جاتی کجا کہ اتنی بڑی قربانی۔
    کل جب سے یہ واقعہ ہوا ہے دو باتیں ذہن سے چپک گئی ہیں۔ ایک تو سورۃ لقمان کی آخری آیت کہ کوئی زی روح نہیں جانتا کہ اس نے کس زمین(مقام) پر جان دینی ہے۔ جنید صاحب ساری دنیا گھومے۔ پہلے موسیقی کے سلسلے میں ۔ بعد ازاں تبلیغ کے لئے۔ عین ممکن ہے کہ وہ حویلیاں یا ایبٹ آباد بھی گئے ہوں مگر ان کے بعید ترین گمان میں بھی یہ نہیں ہو گا کہ کسی روز وہ ایک چھوٹے سے علاقے کے ایک ہسپتال میں ایسے پڑے ہوں گے کہ ان کو پہچاننا مشکل ہو گا۔
    دوسرا خیال جو باوجودکوشش کے جھٹک نہیں پا رہا وہ یہ کہ جنید صاحب ایک انتہائی خوبصورت آدمی تھے۔ خوبصورت نین نقش۔ لمبا قد۔گورا رنگ اور متناسب جسم۔ مرد ایسے حسین بہت ہی کم ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر جی نہ بھرے۔بلکہ محمود ہاشمی صاحب کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے ہیرو کے متعلق سوچتے تھے اور لکھتے تھے تو جنید جمشید ان کے ذہن میں ہوتے تھے۔ ایسا آدمی کہ جو سینکڑوں لوگوں میں پہچانا جائے بلکہ میرے ایک بھارتی دوست نے بتایا کہ انھوں نے دوران عمرہ جنید جمشید کو دیکھا تھا۔ گویا کہ ہزاروں لاکھوں میں پہچانا جانے والا۔ یہ بات بھی بالکل  حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ اگر حویلیاں کے اکثر لوگ انھیں جانتے اور پہچانتے ہوں مگر ا للہ کی مصلحتیں اللہ ہی جانتاہے کہ اتنے خوبصورت اور وجیہہ مرد کو ایسا کر دیا کہ وہ باقی سب لاشوں کے ساتھ موجود ہے اور پہچانا نہیں جا رہا۔ چھ سات لاشیں ورثاء کے حوالے ہوئی ہیں اور باقی سب ناقابلِ شناخت ہیں۔اس کا پتہ بھی ڈی این اے سے ہی چلے گا اور اس کام میں قریب ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔ یہ ان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے عبرت ہے کہ اس دنیا کی ہر شے وہ دولت ہو صحت ہو حسن ہو شہرت ہو سب کو زوال ہے۔ ہر  شے عارضی ہے سب دھوکہ ہے فریب ہے
    سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
    اس عشق میں ہم نے جو کھویا ہے جو پایا ہے
    جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
    سب مایا ہے
    اس موقع پر میر انیس کا ایک قطعہ بھی بے اختیار یاد آ گیا۔
    اس وقت بھائی کام آئے گا نہ فرزند
    عرصہ نہیں،کھل جائے گا جب آنکھ ہوئی بند
    وہ کام کرو کہ جس سے خدا ہو رضامند
    ہشیار کہ ہونا ہے تمھیں خاک کا پیوند
    اپنی نہ کوئی ملک نہ املاک سمجھنا
    ہونا ہے تمھیں خاک یہ سب خاک سمجھنا

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔