تحریر: ابنِ ریاض
کہتے ہیں کہ ادارے اور کھیل ملک کی صورت حال کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی حالت سے اس ملک کی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شاید کھلاڑیوں کو اسی لئے ملک کا سفیر کہا جاتاہے۔تاہم جتنی کرکٹ کی صورت حال ملکی حالت کے مشابہہ ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔واقعی تبدیلی آنے والی نہیں ہے تبدیلی آ چکی ہے۔
حکومت اور کرکٹ دونوں کی باگ دوڑ میانوالی کے نیازیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دونوں خالص پاکستانی ہیں۔ اس سے قبل بھلے ان عہدوں پر پاکستانی ہوں مگر ان پر الزام یہی لگتا تھا کہ ان کے مفادات غیروں سے وابستہ ہیں۔تاہم نیازیوں کی حب الوطنی پر کون شک کر سکتا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے اپنی معیشت اور کرکٹ بورڈوں نے اپنی ٹیم کو مصنوعی طور پر اٹھا رکھا تھا۔ اب یہ حقیقت میں اس کو اٹھانے کے لئے کوشاں ہیں مگر کسی چیز کو اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اتار کر نیچے رکھا جائے۔ سو اب جو یہ انتہائی مایوس کن حالت ہے یہ کچھ ہی عرصے کی مہمان ہے۔ پچھلے سال سے ٹیم کی کارکردگی متاثر کن نہیں مگر آسٹریلیا میں حالیہ سیریز میں تو حد ہی گئی۔ تاہم کہا یہی جاتا ہے کہ رات جتنی اندھیری ہو سویرا اتنا ہی قریب ہوتا ہے۔اس دورے میں پاکستان ٹیم کو ایسی ہی تاریکی دکھائی دی تاہم ایک بات مثبت بھی تھی جس پر اتنی تاریکی میں کسی کی نظر ہی نہیں پڑی۔ وہ یہ کہ ہم نے ایک باری دے کر ان سے ہر مرتبہ دو باریاں لیں۔ افسوس کی بات ہے کہ متعصب میڈیا کو یہ کامیابی نظر ہی نہیں آ رہی۔
اس حکومت کے آنے سے ملک کے وقار میں اضافہ ہوا ہے تو مصباح کےآنے سے پاکستان ٹیم کی عزت بڑھی ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سبز رنگ کے احترام میں آسٹریلیا والوں نے اپنے تمام گراؤنڈز ہی سبز کر دئیے تھے۔ میرٹ پر منتضب ٹیم کی شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری پچھلی ٹیموں کو پچھلے دو عشروں میں ٹیسٹ سیریز میں ہر مرتبہ تین صفر کی مارپڑی لیکن اس مرتبہ چونکہ ٹیم میں بھی کرپشن نہیں تھی تو آسٹریلیا بمشکل دو صفر سے کامیاب ہوا ہے۔ اگر ایسے ہی حالات نہیں تو بعید نہیں کہ اگلی مرتبہ آسٹریلیا محض ایک صفر سے کامیاب ہو۔
حکومت کا خیال ہے کہ جو پیشہ ور ہوتے ہیں انھیں اپنے شعبے میں بدعنوانی کرنے کے تمام طریقے آتے ہیں ۔ سو ایمانداری کا طریقہ یہ ہے کہ ایسا بندہ شعبے/ ادارے میں لگایا جائے جس کا اس سے تعلق نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ایسا شخص متعصب نہیں ہوتا۔ وہ سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ان اقدامات سے بدعنوانی کی جڑ پر ضرب لگتی ہے۔ اب حکومت کی یہی حکمت عملی قومی ٹیم کی نئی انتظامیہ نے بھی اپنا لی ہے۔ پاکستان ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلے بازوں کی کوچنگ وقار یونس نے کی ہے اور گیند بازوں کو مصباح الحق نے اپنے تجربات سے نوازا۔
حکومت نے کرتار پور راہداری کھول کے دنیا بھر کے سکھوں کے دل جیت لئے ہیں۔ پاکستان کے عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے اور دنیا اب ہماری وسیع القلبی کی قائل ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت اور کپتان کے اس فیصلے کے سفیر کھلاڑی بھی ثابت ہوئے جنھوں نے ایک سکھ(یا شاید ہندو) کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ واقعہ تو آپ کو معلوم ہ ہے کہ کچھ کھلاڑی کھانا کھانے ایک ٹیکسی میں گئے۔ ڈرائیور نے انھیں پہچان لیا اور کرایہ لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر کھلاڑیوں نے اسے اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ پاکستان ٹیم کے چند کھلاڑیون ننے اس ڈرائیور کا دل تو جیتا ہی ، پوری ٹیم نے بھی وارنر کا دل جیت لیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے اسے رنز بنانے میں بھرپور مدد کی۔ گیند بازوں نے اسے وہیں گیندیں کرائیں جہاں اسے رنز بنانے میں کوئی مشکل نہ ہو۔ فیلڈروں نے بھی مقدور بھر ساتھ دیا۔ اگر کبھی اتفاق سے فیلڈروں نے اس کا کیچ پکڑ لیا تو گیند بازوں نے ان کی اس کوتاہی کی تلافی کے لئے خود ہی پائون کریز سے آگے کر لیا تا کہ آؤٹ ہو کر اس کا کیریئیر نہ ختم جائے۔ وہ ہمارے اخلاق کریمانہ کا قائل ہو گیا۔ اب وارنر ہر کسی کے آگے گرین شرٹس کے گن گاتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی ٹیم ہے تو وہ پاکستان ہے۔ بھلا یہ کوئی معمولی کامیابی ہے؟
بڑے نیازی نے پنجاب کا چارج عثمان بزدارکو دیا اور کرکٹ والوں نے بھی کپتانی اظہر علی کو دے دیں۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ضرورت سے زیادہ شریف ہیں۔ دونوں سے اپنا اپنا ادارہ چلایا نہیں جا رہا اورپس منظر میں موجود افراد ہی صوبے اور ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ بزدار اور علی کی خوبیاں کسی کو نظر نہیں آتیں بلکہ نیازیوں کو خود ان کا دفاع کرنا پڑتاہے۔
گزشتہ چند سالون سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کھیل اور سیاست الگ رکھے جائیں۔ تاہم بھارت کھیلوں میں بھی سیاست کا قائل ہے۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے ایک بہانے تو کبھی دوسرے بہانے سے انکار کرتا رہا ہے۔ بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں بھی ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور سو نخروں اوردھمکیوں کے بعد بادلِ نخواستہ کھیلنے کی حامی بھرتا ہے۔اس کے برعکس ہماری گزشتہ بورڈز کے سربراہان کا بس نہیں چلتا تھا کہ بھارت والوں کے پاؤں پکڑ کر اپنی عزت کا واسطہ دے کر انھیں کھیلنے پر قائل کر لیں ۔ تاہم نئی حکومت کا تو منشور ہی یہی ہے کہ ملک کی عزت ہر چیزپر مقدم ہے اور کسی سے بھیک نہیں مانگنی۔ بس انھیں صرف یہ بتایا جا سکتا ہے کہ ہمارا خزانہ خالی ہے۔ اس قومی غیرت کا اثر ہماری کرکٹ ٹیم پربھی پڑا ہے اور جلد اس کے اثرات دکھائی دیں گے۔ اس وقت کچھ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن ابتدائی کارکردگی کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس مرتبہ عالمی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ہم خود بھارت کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیں گے اور بھارت چاہ کربھی ہمیں کھیلنے پر مجبور نہ کر پائے گا ۔