میں پہلی بار مضمون لکھ رہی ہوں اور اس کی وجہ یہ موضوع ہے۔ میں نے کبھی مضمون نہیں لکھا اس لیے اگر غلطیاں ہوں تو معاف کر دیجیے گا۔
شادی کے بارے میں میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ شادی مردوں کے لئے ہنسی مذاق کا نام ہے۔ اس موضوع پر آپ لوگوں کو بے شمار لطیفے اور محاروے ملیں گے کہ جن میں مردوں کو مظلوم اور ہم عورتوں کو ظالم دکھایا جاتا ہے۔ شوہر برتن دھوتا ہے، گھر کی صفائی کرتا ہے، کھانا پکاتا ہے اور بیگم صرف کھانا کھاتی ہے اور اخبارات و رسائل پڑھتی ہے اور اپنے شوہر پر رعب ڑالتی ہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے تو وہ عورت پر ظلم بھی کرتا ہے اور پھر مظلوم بھی بنتا ہے۔
ہم عورتوں کی زندگی خوابوں سے عبارت ہوتی ہے۔ ہم خواب دیکھتی ہیں اور انھی خوابوں کے سہارے جیتی ہیں۔ ان میں سے ایک خواب جو کہ ہمارے بچپن میں ہی ہمارے دماغ میں ڈال دیا جاتا ہے وہ شادی کا ہے۔ بچپن میں ہی کسی دیکھے ان دیکھے سے منسوب کر دی جاتی ہیں ہم لڑکیاں۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی ہوش سنبھالتے ہی گھر والوں کو فکر پڑ جاتی ہے ہماری شادی کی۔ گھر والی بڑی بوڑھیاں خوش ہو کر شادی کے بعد سکھی رہنے کی دعا دیتی ہیں اور سہیلیاں مذاق کرتی ہیں تو بھی شادی سے متعلق- اور یوں یہ باتیں ہمارے دماغ میں گھر بنا کر رہنے لگتی ہیں۔ اور ہم جب کبھی پریشان ہوتی ہیں تو ایک امید کہ شاید شادی کے بعد زندگی بدل جائے ہمارے لئے جینے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔
مگر شادی کتنی مشکل اور تکلیف دہ ہے اس کا احساس جب رشتے آنا شروع ہوتے ہیں تو ہی ہو جاتا ہے۔ جب ہمارا رشتہ دیکھنے والوں کے سامنے ہماری شناخت پریڈ کروائی جاتی ہے۔ ہمیں ایسے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے کہ جیسے قربانی کے لئے گائے یا بکری لینی ہو اور دکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ہماری جنس مطلب کہ عورتیں ہی اس کام میں آگےآگے ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی اتنی خوبصورت نہیں تو کیا اسے کسی اور خدا نے بنایا ہے؟ کیا وہ اپنی مرضی سےایسی پیدا ہوئی ہے؟ لڑکی کے جذبات ا حساسات کا خیال کیے بغیر اور اس کی دوسری صلاحیتیں دیکھے بغیر انکار کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔
مگر ابھی کہاں جی؟ اگرخوش قسمتی سے لڑکی ان کے حسن و سیرت کے معیار پر پوری اتر بھی جائے تو انکار کی اور وجہیں بھی تو ہیں۔ جیسے کہ اس کے والدین زیادہ جہیز دینے کی طاقت نہیں رکھتے یا پھر یہ کہ لڑکی زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے۔اور ایسی ہی دوسری بہت سی وجوہات کہ جن کی وجہ سے آج اتنی لڑکیاں غیر شادی شدہ بیٹھی ہیں۔ مطلب یہ کہ جو محمدﷺ کی سنت تھی وہ ہی اتنی مشکل بنا دی گئی تو معاشرے میں خرابیاں تو پیدا ہونی ہی ہیں۔اب اگر تیس تیس برس تک لڑکا چھوڑ لڑکی کی شادی نہیں ہو پاتی تو کون ذمہ دار ہے؟
اب اگر لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو بھی مشکلیں ختم نہیں ہوئیں۔ بلکہ یہ تو آغاز ہے ننگے پیر جلتے انگاروں پر چلنے کا۔ شادی چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہوتی ہے۔ جس
کے لئے اپنا گھر بار چھوڑا وہی چند دن بعد اجنبی بننے لگتا ہے۔ اور اگر نہ بنے تو بھی ساس نندیں تو بنا ہی ڈالتی ہیں۔ ان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ بیوی نے بیٹا اور بھائی قابو کر لیا ہے اور بیٹا ہمیں ٹائم نہیں دیتا۔ حالانکہ وہ خود بھی بیٹیوں والے ہی ہوتے ہیں۔ اور ساسیں تو خود ان حالات سے گزر کر آئی ہوتی ہیں پھر بھی کیوں وہ ایسا ہی کرتی ہیں؟ سارا دن بیوی کوہلوں کے بیل کی طرح کام کرتی ہے گھر کا ۔ اپنی بیماری و صحت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ساس نندوں کی خدمتیں کر کے بھی ان کے طعنے سنتی ہے اور جب شام کو میاں کو بتائے تو وہ بھی اسی سے ناراض ہوتا ہے کہ سارا دن کرتی ہی کیا ہو اور دفتر سے گھر پہنچے نہیں کہ پہنچ گئیں اپنا شکایتوں کا پنڈورہ لے کے۔ کوئی بتائے کہ اس سے بھی بات نہ کریں تو کس سے حال دل کہے وہ بیگم
بات ختم کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گی کہ شادی تو ایک سنت ہے یہ کیوں اس قدر مشکل بنا دی گئی ہے کہ لڑکیوں کی بڑی تعداد اس سے محروم ہے۔ خواتین کی بھی روحانی و جسمانی ضروریات ہیں اگر انھیں جائز طریقے سے پورا نہیں ہونے دیا جائے گا تو معاشرے میں بےحیائی اور بے راہ روی ہی پھیلے گی ناں۔ اور جو ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ان کا حل بھی اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔ پہلی صورت میں شادی ثواب ہے ورنہ شادی عذاب ہے۔
نوٹ:تحریر انتہائی سنجیدہ ہے مگر اس کا پس منظر اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ تحریر 2010 یا 2011 کی ہے۔ ایک فورم پر ہم اور ابن نیاز اکٹھے تھے اور وہاں مہینے بعد تحریر ی مقابلہ ہوتا تھا جس میں تحاریر بغیر نام کے شائع کی جاتی تھیں۔جیتنے والوں کے علاوہ مصنف کا ٹھیک اندازہ لگانے والوں کو انعام ملتا تھا۔ ہمارا انداز بیاں چونکہ کچھ جداگانہ ہے ( سمجھنے میں تو کچھ حرج نہیں ہے) انجام کار تحریر لگنے کے دو منٹ بعد ابن نیاز کا تبصرہ ہوتا تھا کہ ہو نہ ہو یہ تحریر ابنِ ریاض کی ہے۔اگر ابن نیاز لیٹ ہو جاتا تو کوئی اور یہ نیکی کما لیتا۔یعنی لکھنے پر انعام ملے نہ ملے ٹھیک اندازہ لگانے کا انعام ہماری تحریر پر ہمیشہ جیت لیا جاتا تھا۔ہمیں بہت برا لگتا کہ دکھ سہے بی فاختہ اور انڈے کوے کھائیں۔ایک مرتبہ درج بالا موضوع دیا گیا اور کہا گیا کہ اس پر مزاح لکھنا ہے۔ہم نے جب بھی پوزیشن کے لئے کوئی کام کیا وہ ہمیشہ پٹ گیا سو ہم نے لڑکپن میں ہی اس کام سے توبہ کر لی تھی۔چونکہ پوزیشن لینا ہمارا مطمع نظر نہیں تھا بلکہ ابن نیاز کو شکست ِ فاش دینا چاہتے تھے سو ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم لڑکی یعنی شادی شدہ عورت کی کتھا بیان کریں گے اور سنجیدہ مضمون لکھیں گے۔ ساتھ ہی ابن نیاز و ہمنواؤں کو مزید بھٹکانے کے لئے ابتداء میں ہی لکھ دیا کہ یہ میری پہلی تحریر ہے (جنس مخالف کے حساب سے لکھنے کی واقعی پہلی تحریر تھی یہ بلکہ اب تک بھی ہے)۔
انداز مختلف تھا اور ہم نے بھی راہ سے بھٹکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی سو نتیجہ بھی حسبِ حال نکلا۔کوئی بھی نہ پہچان پایا تا ہم لڑکوں نے اعتراض کیا کہ یہ تحریر چونکہ مقابلے کے اصول کے خلاف تھی تو اسے شامل کیوں کیا گیا۔ کچھ نے کہا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں’ اچھے مردوں کی بھی کمی نہیں (گویا کہہ رہے ہوں ہمیں ہی دیکھ لیں )۔اس کے برعکس فورم کی لڑکیوں نے اس تحریر کو خوش آمدید کہا۔ شادی سے پہلے ہی آٹھ آٹھ آنسو بہائے۔ہمارے انداز تحریر کی تعریف کی اور کہا کہ فورم کو ایک اور نئی ہونہار مصنفہ مل گئی۔ایک لڑکی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگران کے اختیار میں ہوتا تو وہ اس تحریر کو اول قرار دیتیں۔
سب نئی مصنفہ کو جاننے اور اس کو خوش آمدید کہنے کےلئے بیقرار تھے۔ہم سب کے تبصرے پڑھ رہے تھے اور لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ساتھ ہی خود کو داد بھی دی کہ ہم خاتون بن کے بھی لکھ سکتے ہیں۔بعد ازاں جب نتیجہ نکلا تو ہماری توقعات کے عین مطابق ہماری یہ تحریر بھی پٹ گئی مگر نئی مصنفہ کا نام پڑھ کر ابن نیاز سمیت سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جنوری 12th, 2020
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: کوئی نہیں