خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

    تحریر:  ابنِ ریاض

    آج آپ کے گروپ کی ایک پوسٹ نظر سے گزری۔ گو پوسٹ تو کل کی ہے مگر ہماری نظر سے آج گزری اور دفتری مصروفیات کی بنا پر فوری جواب نہیں دے پائے۔ اس میں یہاں کی ایک منتظم ‘ فیم انجم’ پیج کے قوانین پر عمل کرنے پر زور دے رہی ہیں اور یہ بات بالکل بجا ہے ۔ کیونکہ ان کا مقصد آپ پر قدغن لگانا نہیں بلکہ تمام ممبرز کو سہولت پہنچانا ہی ہوتا ہے۔

    یہاں پر دوسری مرتبہ  یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مرد حضرات کو باہر کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اور جن دو آئی ڈیز کا ذکر کیا گیا ہے وہ اتفاق سے اسی خاکسار کی ہیں۔ ابن ریاض کے قلمی نام سے ہم لکھتے ہیں اور عمران احمد ہمارا اصلی نام ہے۔ یہاں پر ہم پوسٹ اسی ابن ریاض کے نام سے ہی کرتے ہیں بلکہ تمام فورمز پر۔ مگر بندہ بشر ہیں کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی پوسٹ اچھی لگی یا کوئی تبصرہ کرنا پڑا تو کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو دوسری آئی ڈی سے ہو گیا۔ اس فورم پر ہم نے گنتی کے تبصرے کیے ہیں۔ دو بہنوں نے اپنے نو مولود بچوں کی تصاویر پوسٹ کی  تھیں جو کہ واقعی  بہت پیارے تھے ماشاء اللہ تو ہم نے مبارکباد لکھا۔ ایک اور صاحبہ نے اپنے بھائی کے ایکسڈنٹ کی خبر دی اور دعا کا کہا تھا سو ہم نے بھی کار خیر میں حصہ ڈالا۔ تبصرہ ہم صرف اپنی پوسٹ پر کرتے ہیں۔ جو کہ ہمارا انشائیہ ہوتا ہے۔ جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند ثانیوں کے لئے قارئین  کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہو جائے کہ اس دور پر آشوب میں جبکہ سب دکھ، درد، تکلیف اور موت بانٹ رہے ہیں ہماری نظر میں کسی کی مسکراہٹ کا سبب بننا بھی صدقہ ہے۔ کسی کو پی ایم کر کے تنگ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس فورم پر موجود اکثر لڑکیوں سے عمر میں بڑی  تو میری اپنی سٹوڈنٹس ہیں۔

    یہاں ہم نے اپنا آپ اس لئے بیان کیا کہ ہمارا نام لیا گیا تھا۔ ابھی یہ فرض کر لیتے ہیں کہ خواتین کو واقعتًا کچھ لوگوں نے تنگ کیا ہو۔ایسا ہونا ممکن ہے اور اس بات میں بہرطور وزن ہے مگر اس بنا پر انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ تمام مردوں کو اس فورم سے نکال باہر کرو تو ہماری نظر میں پھر بھی یہ مطالبہ جائز نہیں اور اسے تعصب پر مبنی ہی سمجھا جائے گا۔

    ہمارا اندازہ ہے کہ یہاں موجود زیادہ تر لڑکیاں طالبات ہیں اور انھیں عملی زندگی کا اتنا تجربہ نہیں۔ ایک شخص یا چند افراد کے فعل کا سب کو ذمہ دار ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر مغرب والے جو سب مسلمانوں کو ہی انتہا پسند گردانتے ہیں، وہ بھی حق بجانب ہیں۔ کسی کا فعل اس کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق اس کی تربیت اور صحبت سے ہوتا ہے نہ کہ مذہب، وطن، قبیلے اور جنس سے۔ یاد رکھیے کہ مکہ میں ابوجہل بھی تھا۔ اور قریش سے ہی تعلق تھا اس کا۔ اور ہندہ بھی ایک عورت تھی جس نے وہ کام کیا کہ کوئی مرد بھی نہ کرے۔

    ابھی آپ نے عملی زندگی میں قدم نہیں رکھا۔ عملی زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔ کسی کالج یا یونیورسٹی میں کسی لڑکی کا داخلہ ہو جائے۔  نوے فیصد سے زائد ادارے میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے۔ اور مخلوط اداروں میں ہر قسم کے لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اگر کسی لڑکے کے ساتھ کسی کا مسئلہ ہو گا تو کیا وہ یہ کہے گی کہ اس کو نکالیں گے تو میں پڑھوں گی۔ یا پھر اپنی پڑھائی کی قربانی دے گی؟ کیا ایسا کر کے وہ اس بندے کا نقصان کرے گی یا اپنا؟

    پھر کیا جہاں خواتین ہوتی ہیں کیا وہاں مرد نہیں ہوتے؟ کیا محلے میں اگر کوئی خراب اور ناپسندیدہ شخص ہو تو لڑکیاں اپنا گھر بار چھوڑ دیں گی یا اس شخص کو نکال کر دم لیں گی۔

    بہت سی خواتین نوکری پیشہ ہیں۔ بعض کا ارادہ بعد از تعلیم نوکری کرنے کا ہے۔  اور جیسے ہمارے ملک کے موجودہ حالات ہیں، بعید از قیاس نہیں کہ گھر چلانے کے لئے دونوں افراد کا نوکری کرنا مجبوری بن جائے۔  کچھ لڑکیوں کو تو ہم بھی جانتے جو اپنا جہیز بنانے کے لئے نوکری کر رہی ہیں ۔ ہم اس کے حق میں نہیں مگر یہ بہرحال تلخ حقائق ہیں۔ اور جتنی مشکل آج کل نوکری کا حصول ہے، کیا پھر وہ لڑکیاں ایسی صورت حال میں نوکری چھوڑ دیں گی؟

    اللہ تمام لڑکیوں کو اپنے گھروں میں خوش رکھے۔ مگر کیا خواتین کو شادی کے بعد مسائل پیش نہیں آتے۔ انھوں سسر کی بجائے زیادہ مسئلہ اپنی ساسوں سے ہوتا ہے۔ تو ان کو بھی نکلوانا ہے کیا؟ کچھ خواتین ایسا کر بھی گزرتی ہیں مگر کیا یہ ٹھیک ہے؟

    اس سب کے کہنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ خود کو حالات کے سہارے چھوڑ دیں اور ہاتھ پائوں ہی نہ ہلائیں۔ آپ ابھی سے خود کو مضوط بنانا شروع کر دیں۔ ان مسائل کو آپ اپنے خود کو  مضبوط بنانے کے لئے صرف کیجئے۔ کوئی آپ کو تنگ کرے تو آپ اسے بلاک کر سکتی ہیں۔ آپ اس کو رپورٹ کر سکتی ہیں۔ اپنی اکائونٹ سیٹنگ ایسی کر دیجیے کہ محض  آپ کے اکائونٹ میں موجود افراد ہی آپ  کو پیغام دے پائیں۔ بجائے آپ دوسروں پر پابندی لگائیں آپ ایسا کردار اپنائیں کہ کوئی آپ کو تنگ کرنے کی جرات ہی نہ کرے۔  اپنے مقصد کو ملحوظ خاطر رکھیے۔ یاد رکھیے کہ رستے میں آنے والے ہر کتے کو آپ پتھر مارنا شروع کر دیں گے تو منزل پر کبھی پہنچ نہیں پائیں گے۔

    یوں بھی ہمارے معاشرے میں عورت کو ہر معاملے میں مظلوم پیش کر کر کے اسے احساس کمتری کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے ڈرامہ، ناول اور کالم ہٹ ہو جاتا ہے مگر اس سے خواتین کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیے تو آپ کو کامیاب خواتین بھی نظر آئیں گی۔ اب تو خواتین پائلٹ بن رہی ہیں، فوج میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ اس سے آپ یہ جان سکتی ہیں کہ صلاحیت کے اعتبار سے عورت کم نہیں بس اس کی جسمانی ساخت مختلف ہے کہ اسے تخلیقِ آدم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

    اگر آپ کو ہمارے اور دوسرے مردوں کے جانے سے کچھ فائدہ ہوتا ہے تو سو بسم اللہ۔ ہم چلے جاتے ہیں۔ اس فورم نے چونکہ ہمیں شناخت دی کہ ہمارا پہلا انٹرویو یہیں شائع ہوا تو ہم  اس فورم کی قدر کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایسے بہت سے فورم بنے اور ختم ہو گئے۔یہاں کی منتظمات اچھا کام کر رہی ہیں۔ کوئی نہ کوئی  سلسلہ شروع کر کے اراکین  کو مصروف رکھتی ہیں۔شکر ہے کہ یہ چار ہو گئیں ورنہ پہلے ہمیں ان کا خیال آتے ہیں’ پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار’ نجانے کیوں یاد آ جاتی تھی۔ اب بھی ان کو چاہیے کہ چار سے پانچ نہ ہوں، سیدھا چھ ہو جائیں۔ بات ضمنًا کہیں سے کہیں چلی گئی۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر ان منتظمات کو پڑھائی یا شادی یا کسی اور مصروفیت کی بناء پر اس فورم سے ناتا توڑنا پڑا تو یہ فورم یا صفحہ جو بھی کہہ لیں ایسا ہی ہو جانا جیسا کہ بعض اور فوت شدہ فورمز۔ ابھی فرحانہ ناز ملک کو رحلت فرمائے چار ماہ بھی نہیں ہوئے اور ان کے صفحہ قبرستان کا منظر پییش نہیں کر رہا۔ جیسے مہینوں سالوں بعد کوئی قبر پر فاتحہ پڑھنے آتا ہے، ویسے ہی اب وہاں کوئی نئی پوسٹ لگتی ہے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔