تحریر: ابنِ ریاض
ایک زمانہ تھا کہ سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو انسان رضائے الہی سے وفات پا جاتا تھا۔بعد ازاں سائنس ترقی کرتی گئی اور نئے نئےمرنےکے طریقے و علاج دریافت ہوئے،طب کی نئی نئی شاخیں بنیں اور مختلف مشکل ناموں والے ماہرین (سپیشلسٹ) بڑھے۔ اب توسر درد بھی ہو تو دس قسم کے ماہریں کو دکھانا پڑتا ہے تب ثابت ہوتا ہےکہ سردرد ہی ہے۔ مزید نئی نئی بیماریاں بھی وجود میں آتی گئیں۔ اب تو ایسی ایسی بیماریاں دریافت ہوئی ہیں کہ انسان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس بیماری کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔بچپن میں چھ موذی بیماریوں کے ٹیکے تو لگاتے جاتے ہیں مگر جو بیماریاں اچانک آ پھوٹیں ان کا کیاعلاج ہو۔ ڈینگی، کانگو وائرس پھر برڈ فلو اور اب کرونا وائرس۔ کرونا وائرس چین میں پھیلا ہے اوراب تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں زندگیاں لے چکا ہے مگر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ کرونا عشق کاہی متبادل ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا حال یہاں بھی ہےیا پھر چین والے اس کے علاج میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ممکن ہے آبادی کم کرنا چاہتے ہوں۔ ورنہ پاکستان کے اپنے شہریوں کو واپس نہ بلانے کے اعلان پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ پاکستان سے اس مرض کے تدارک کے ماہرین بھی طلب کرتے۔ شایداس لئے طلب نہیں کیے ہوں گے کہ پھر آدھا پاکستان چین میں ہوتا۔ لیکن بڑے مقصد کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔
چین کے اب تک اس وائرس پر قابو نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اجتماعی سوچ نہیں ہےوہ سائنس دانوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں کہ وہی ان کی ناؤکو پار لگائیں گے۔ انجام کار ان کی ناؤ ہے کہ گرداب میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں ہر فرد ہی ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔خاکم بدہن اگرایسی آفت ہمارے ملک میں آتی تو اس کے تدارک کے لئے پوری قوم ایک ہوجاتی۔ مساجد میں اجتماعی دعائیں کروائی جاتیں۔ اللہ والے بزرگ استخارے شروع کر دیتے۔ کسی نہ کسی بزرگ کو خواب میں کسی ولی یا قلندر کی زیارت ہوتی جو آ کر کہتے کہ مجھ سے قوم کا یہ حال نہیں دیکھا جا رہا سو میں تمھیں اس بیماری کا علاج بتاتا ہوں ۔ اس مرض کے شکار کو ستو یا گنے کے رس میں اجوائن اور کالی مرچ پیس کر پلائیں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ان بزرگ کی آنکھ کھلتی۔ وہ اپنے مرید خاص کو خواب سناتے اور مرید یہ واٹس ایپ کر دیتا اپنے گروپ میں صدقہ جاریہ کہہ کر۔ صبح تک پورا ملک شفا یاب ہو جاتا۔
پیروں کی بھی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے۔ وہ بھی عوام کے لئے بالعموم اور اپنے مریدین کے لئے بالخصوص اس سردی میں بھی کسی گندے جوہڑ میں ایک ٹانگ پر ساری رات کھڑے ہو کر چلا کاٹتے جس کے نتیجے میں انھیں مؤکل ایک خاص تعویز دیتے جس کو پانی میں گھول کر پینے سے صرف ایک ہفتے میں کرونا کا شکار مریض صحت یاب ہو جاتا۔
پروفیسر اللہ دتہ بنگالی جادو کے جوڑ توڑ کے ماہر بھی اس موقع پر خدمت خلق میں پیچھے نہیں رہتے۔وہ آنکھیں بند کر کے عجیب زبان میں کچھ پڑھتے اور مریض اوراس کے لواحقین کوبتاتے کہ دشمنوں نے جان لیوا وار کیا ہے اور گھر کے صحن میں کھدائی کرنے پر کپڑے کا ایک پُتلا جس پر سوئیاں چبھی ہوں گی نکلے گا۔گھر جا کر کھدائی کرنے پر واقعتہً پُتلا مل جاتا اور کال کر کے پروفیسر سے درخواست کی جاتی کہ اس کاتوڑ کر دیں۔ پروفیسر انھیں بتاتا کہ علم انتہائی سخت ہے اوراسے مؤکلوں کو بہت کچھ دینا پڑے گا سو وہ ایک لاکھ روپیہ اور کالے بکرے کی سری( پہن کی سری نہیں ) لے کر کرونا وائرس سے نجات دلا دیتا۔
بسوں میں میٹھی گولیاں بیچنے والوں کو بھی قوم کا درد جاگتا اور وہ اس کا درماں ڈھونڈنے نکل پڑتے۔ دو تین روز بعد وہ بھی خالص جڑی بوٹیوں کے مرکب کا ایک سفوف تیار کر لیتے۔ اور بس میں موجود افراد کو بتاتے’ کرونا وائرس حکیم لقمان کے زمانے میں بھی تھا اس زمانے میں اسے ‘کارچانا’ کہا جاتا تھا۔ حکیم لقمان نے ‘ طبِ لقمانی’ میں اس مرض کی علامات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو ہوبہو کرونا کی علامات سے مشابہ ہیں۔ دواخانہ خاص و عام نزد ریلوے اسٹیشن کے قمر دہلوی چالیس برس سے لاعلاج بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ان کے مجرب نسخوں سے بنی ہے یہ دوائی جس میں چالیس مختلف جڑی بوٹیوں کا رس موجود ہے۔اس کی دو گولیاں کھانے سے کرونا وائرس جسم سے یوں نکلے جیسے سابق وزیر اعظم پاکستان سے۔ آزمائش شرط ہے۔ دیکھیے دوا پر قیمت لکھی ہوئی ہے سو روپے۔کسی دکان سے یہ آپ کو سو روپے سے کم میں نہیں ملے گی مگر اس وقت کمپنی کی مشہوری اور ہر خاص و عام تک کرونا کا علاج پہچاننے کے لئے صرف ٹوکن فیس لوں گا ، بیس روپے بیس روپے’۔یوں بیس روپے میں کرونا وائرس اپنے انجام کوپہنچ جاتا۔
ہومیوپیتھک والے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔رنگ برنگ کی میٹھی میٹھی گولیاں دیتے کہ انھیں کھانے سے کرونا اند ر ہی مر جائے گا۔ استفسار پر معلوم ہوتا کہ گولیاں انسان کو میٹھی اور اچھی محسوس ہوتی ہیں مگر وائرس کے لئے یہ زیرِ قاتل ہیں۔
عام آدمی جب کسی کی عیادت کو جائے تو وہ بھی دعا کے علاوہ حسبِ توفیق مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔وہ بتاتا کہ ا سکے فلاں رشتہ دار کو کرونا ہو گیا تھا۔ اس نے نہار منہ ایک چمچ خالص شہد اور آدھ چمچ کلونجی کا مرکب ایک ہفتہ استعمال کیا۔ اب مرض کاشائبہ تک نہیں۔عام عوام کرونا وائرس کے خلاف شہر شہر ریلیاں بھی نکالتی۔ چائنہ والوں کو اس کا خیال تک نہیں آیا۔
چین کے بچے بھی ہمارے بچوں کے مقابلے میں بہت سست ہیں۔ ہمارے بچے اپنے حصے کاجہاد کرتے۔ فیس بک پر اسٹیٹس لگاتے اور دوسروں سے کہتے کہ اس پیغام کو آگے بھیجو یہاں تک کہ کرونا وائرس تک پہنچ جائے۔ چینیوں کی ایسی کوئی پوسٹ ہماری نظر سے تو نہیں گزری۔ہو سکتا ہے انھون نے چینی زبان میں کوئی پوسٹ لگائی بھی ہو مگر کرونا کو چینی زبان تھوڑی آتی ہے جو اس پر کچھ اثر ہو۔
بھلا ہسپتال بنانے سے بھی وائرس کا خاتمہ ہوا ہے ۔ اس سے تو ہمیں سابق وزیر داخلہ یاد آ گئے جنھوں نے دہشت گردی سے بنٹنے کا دلچسپ طریقہ دریافت کیا تھا کہ دہشت گردوں کو کھلا چھوڑ دو اور عوام کے موبائل فون بند کر دو۔ہسپتال بنانا بھی ایسا ہی ہے کہ مریضوں کو ہسپتال میں بند کر دیا اور کرونا کو کھلا چھوڑدیا۔ ہسپتال بنا ہی لیا تھا تو کوئی وزیر اس کا افتتاح تو کرتا تا کہ کرونا کو بھی معلوم ہوتا کہ حکومت و عوام ایک ہی صفحے پر ہیں۔
ڈاکٹروں کو بھی کرونا کے خلاف گانا بنانا چاہیے تھا۔ سارے ڈاکٹر سفید اوور آل پہنتے اور ناچ ناچ کر گاتے ‘کرونا جا جا جا’۔کرونا شرم سے ہی چلا جاتا۔
چین کی حکومت بھی شاید سوتیلی ہے۔اسے عوام کا خیال ہی نہیں۔عوام کو یہ تو بتا دیتی کہ یہ پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔حکومت تو ہماری ہے عوام دوست۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اپنی وزارت کو حکم دیتے کہ جلد از جلد کرونا اینٹی وائرس تیار کیا جائے۔
وزیر اعظم بھی کرونا کو للکارتے۔ ‘اوئے کرونا تجھے چھوڑوں گا نہیں’۔ ساتھ ہی اپنے عزم مصمم کا ارادہ کرتے کہ کسی وائرس کو این آر او نہیں ملے گا بلکہ کرونا کا نام تو ای سی ایل میں ڈال دیا جاتا کہ نقصان کرنے کے بعد بھاگ نہ سکے۔عوام کے بعد حکومت کے اتنے وار اور ایسا سلوک دیکھ کر کرونا وائرس ادھ موا تو وہیں ہو جاتا۔ اپنی بچی کھچی ہمت مجتمع کر کے لاہور ہائی کورٹ چلا جاتا جو اسے میرٹ پر بیرون ملک بھج دیتی۔یوں پاکستان بیماریوں سے پاک ہو جاتا۔
چین والو نہ سیکھو پاکستان سے اور بھگتو۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: فروری 10th, 2020
زمرہ: طنزو مزاح, طنزومزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: anti virus, china, corona virus, Korona Virus, prime minister, science and technology, viruses