تحریر: ابنِ ریاض
یہ ذکر ہے دوکرداروں کا جن کے خاندانی حالات میں کوئی مماثلت نہیں ۔
18 جولائی 1935 ء کو راجشاہی میں پیدا ہونے والے سرفراز رفیقی کے تین بھائی اور ایک بہن تھی۔ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ان کا بچپن قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا دور تھا۔ بارہ برس کی عمر میں جب وہ متحدہ ہندوستان کی اسکاؤٹ ریلی کے ساتھ فرانس تھے تو انھیں پاکستان کے قیام کی خبر ملی۔اس نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔اس لڑکے نے دو مسلمان سکاؤٹس کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ وہ بھارتی پرچم کو سلامی نہیں دیں گے بلکہ اپنی جداگانہ حیثیت میں پاکستانی پرچم تلے کھڑے ہوں گے۔سرفراز کی خوشی و انبساط دیکھتے ہوئے ریلی میں موجود دو لڑکیوں نے ان کی ہدایات کے مطابق عجلت میں ایک جھنڈا بنایا جس میں سفید رنگ نیچے اور چاند اور ستارہ الگ الگ کونوں میں تھے ۔ یہ پاکستان سے ان کی محبت کا پہلا ثبوت تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے بھائی اعجاز رفیقی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔بعد ازاں اعجاز رفیقی ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے تھے۔سلیکشن بورڈ کے نزدیک ان کے جنگجو ہواباز بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے تاہم ان کا اعتماد، انگریزی پر عبور اور چھوٹی عمر میں بیرون ملک دوروں کے باعث ان کا انتخاب کیا گیا اور انھوں نے 1953 میں سلیکشن کمیٹی کے اندازوں اور رپورٹوں کو باطل ثابت کرتے ہوئے بہترین پائلٹ کی ٹرافی جیت لی۔بیرون ملک تربیت کے دوران ایک مرتبہ ایک تقریب میں تمام شریک ممالک کے روایتی کھانے رکھے گئے مگر پاکستان کو نظر انداز کر دیا گیا۔سرفراز رفیقی کے لئے یہ بات برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ انھوں نے عشائیے کا بائیکاٹ کر دیا اور منتظمین پر واضح کر دیا کہ انھیں یہ امتیازی سلو ک گوارا نہیں ۔اس سلوک کی نسبت وہ تربیت چھوڑ دینے کو ترجیح دیں گے۔ معاملہ بڑھ گیا مگر سرفراز رفیقی معذرت سے کم کسی بات پر راضی نہ تھے۔ بالآخر منتظمین نے اپنے رویے کی سر عام معذرت کی۔ سرفراز نے ثابت کیا کہ انھیں اپنا اور ملک کا وقار ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔سرفراز شادی کے معاملے میں بھی غیر روایتی ثابت ہوئے۔انھوں نے اپنے والد کی پسند کی امیر کبیر اور زیادہ جہیز لینے والی لڑکی ٹھکرا دی اور پھر انھیں قسمت نے اپنی پسند کی شادی کی مہلت نہ دی۔
یونس حسن اپنے والدین کا اکلوتے تھے۔ وہ یکم جون 1935ء کو پانی پت میں پیدا ہوئے شادی کے اٹھارہ سال بعد ماں باپ کی جھولی اللہ نے بھری تھی۔ اس زمانے میں شادی کے اٹھارہ سال بعد والدین نانا دادا بن چکے ہوتے تھے۔والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے اور بہت منتوں مرادوں سے پایا تھا سو ان کی پروش بہت ناز و نعم میں ہوئی۔ ان کےلڑکپن میں ہی پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعرے سن کر وہ بھی جوان ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا اور جھنگ میں سکونت اختیار کی۔اس نوزائیدہ ملک کو اندرونی و بیرونی مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ اپنے ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے دفاعِ وطن کے لئے پاک فضائیہ منتخب کی۔تاہم عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد پاک بھارت حالات کشیدہ ہوئے تو رضاکاروں کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لئے عمر کی حد میں نرمی کر دی گئی۔اس مرتبہ ان کو منتخب کر لیا گیا۔ قدرت جب نوازنے پر تیار ہو تو دنیاوی قانون و ضابطے خود اپنی راہ بدل لیتے ہیں۔اپنی تربیت مکمل کر کے وہ جنگجو پائلٹ بن گئے۔ اب انھیں ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا مقدس مشن سر انجام دینا تھا۔ انھیں اپنے انتخاب پر فخر تھا۔تربیت مکمل کرنے کے فوراً بعد اس کی شادی ہو گئی۔ والدین کے صبر کا پھل اللہ نے انھیں جلد پوتوں کی صورت میں دیا۔ اللہ نے یونس حسن کو دو بیٹوں سے نوازا۔ بڑا بیٹا دو سال اور چھوٹا بیٹا ابھی پیدا ہی ہوا تھا کہ سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی۔ وہ اپنے نومولود بیٹے کو دیکھنے بھی نہ جا سکے۔
اگست 1965 کے آخر میں پاک بھارت تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ جنگ کی چنگاری کسی بھی لمحہ بھڑک سکتی تھی۔ پاک افواج انتہائی تیار حالت میں تھیں ۔سرفراز رفیقی سکواڈرن لیڈر اور یونس حسن فلائٹ لیفٹننٹ کے عہدوں پر جا پہنچے تھے۔یکم ستمبر کو چھمب کے مقام پر پاک بھارت بری افواج ایک دوسرے سے نبزد آزما تھیں کہ بھارتی افواج نے اپنی مدد کے لئے فضائیہ کی مدد لی۔اس وقت رفیقی اپنے ساتھی کے ساتھ فضا میں موجود تھے۔انھیں دشمن کے طیاروں کی پیش قدمی روکنے کا کہا گیا۔ فضائی جنگ بری وجنگ سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ زمین پر آپ کو آڑ مل سکتی ہے مگر فضائی جنگ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ بس اللہ کا کرم ہوتا ہے اور ہواباز کی مہارت۔اندازے کی معمولی سی غلطی کا انجام جان لیوا ہو سکتا ہے بلکہ اکثر تو لاش بھی نہیں ملتی۔ جب رفیقی اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں پہنچے تو بھارت کے چھ طیارے موجود تھے جبکہ پاک فضائیہ کے دو۔ تاہم کچھ ہی دیر میں بری افواج کے سامنے بھارت کے پانچ طیارے زمین بوس ہو چکے تھے۔رفیقی نے ابتدائی دو طیارے گرا کر پاکستان کا بھارت کے خلاف اسکور کھولا تو ان کے ساتھ فلائٹ لیفٹننٹ بھٹی نے بھی دو شکار کیے جبکہ ایک طیارہ انتہائی نیچی پرواز کے دوران زمین سے جا ٹکرایا۔ ایک طیارے کا پائلٹ اپنے ساتھیوں کا حشر دیکھ کر جان بچا کر واپس چلا گیا۔
چھ ستمبر کو باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی۔ بھارتیوں کا خیال تھا کہ پاکستان تر نوالہ ہے اور چند گھنٹے یا چند دنوں میں وہ پاکستان کو دوبارہ بھارت میں ضم کر لیں گے مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھوں نے شیروں کی کچھار میں ہاتھ ڈال دیاہے۔ پوری قوم کے دل غصے سے لبریز تھے۔کیا بڑھے کیا جوان ، کیا فوجی اور کیا عوام سب کا ارادہ تھا کہ بھارت کو وہ سبق سکھانا ہے کہ آئندہ وہ ایسی حرکت کا سوچ بھی نہ سکے۔شاہینوں کے جذبات بھی اس سے مختلف نہ تھے۔ انھیں اپنے بوڑھے والدین، بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچے سب بھول گئے۔اس ایک ہی دھن سوا ر تھی کہ دشمن کو سبق سکھانا ہے ۔
رفیقی اور یونس حسن میں کچھ قدریں مشترک بہر حال تھیں۔ان میں فضائیہ سے تعلق ، اس وقت سرگودھا میں تعیناتی ، انتہائی پیشہ ور جنگی ہوابار ہونا اور ملک کے دفاع کا غیر متزلزل جذبہ شامل تھے۔چھ ستمبر کو انھیں شام ساڑھے پانچ بجے ہلواڑہ پر حملہ کا ہدف ملا۔یہ حملہ کچھ اس طرح تھا کہ اسی وقت ایک اور ٹیم نے پشاور سے اڑ کر پٹھانکوٹ پر حملہ کرنا تھا جبکہ تیسری ٹیم نے سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی قیادت میں آدم پور کو تباہ کرنا تھا ۔ ہر ٹیم میں آٹھ آٹھ طیاروں نے شامل ہونا تھا۔پشاور والی ٹیم تو اپنے وقت پر اڑی اور بھارت کے طیاروں کو اٹھنے کا موقع دئیے بغیر ہی انھیں ڈھیر کر دیا اور پٹھانکوٹ کا ہوائی اڈہ تباہ کر دیا۔تاہم سرگودھا بیس کے طیارے اپنی بری فوج کو لاہور میں مدد دینے میں مصروف تھے سو وہ وقت پر ان دو مشنز کے لئے تیار نہ کیے جا سکے۔ کچھ تاخیر سے ایم ایم عالم بھی اپنی ٹیم کے ساتھ آدم پور گئے مگر اب دشمن تیار تھا سو مقابلہ ہوا تو وہ دشمن کا ایک طیارہ گرا کر واپس آ رہے تھے۔اس کے علاوہ اس مشن پر آٹھ طیاروں نے حصہ لینا تھا مگر اس وقت صرف چار طیارے ہی دستیاب تھے۔ ان میں سے ایک کا انجن خراب ہو گیا۔سو تین طیارہ رہ گئے مگر مشن کی اہمیت کے پیش نظر رفیقی اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ہی جانے پر تیار ہو گئے ۔
شام کے ملگجی اندھیرے میں تین شاہین دشمن کے ایک اہم مرکز پر حملہ کرنے روانہ ہوئے۔ ان کا قائد سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی تھا جو دلیری میں اپنی مثال آپ تھا۔اس کے ساتھی فلائٹ لیفٹننٹ یونس حسن اور فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری تھے۔ ان تینوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ موت کے منہ میں ہاتھ دینے جا رہے ہیں کہ دشمن نہ صرف تعداد میں کئی گنا زیادہ تھا بلکہ اس کے جہاز اور اسلحہ بھی کہیں زیادہ بہتر تھا۔ اس کے علاوہ پٹھانکوٹ پر ہونے والے حملہ کے بعد اب دشمن مزید حملوں سے بنٹنے کے لئے تیار تھا۔ بظاہر یہ شاہین اور ممولہ کا مقابلہ تھا تبھی تو دشمن کا خیال تھا کہ یہ سر زمین ان کے چند حملوں کی مار ہے۔ پاکستانی سرحدکے قریب انھیں ایم ایم عالم کی ٹیم واپس آتی دکھائی دی انھوں نے فضا میں بے شمار بھارتی طیاروں کی موجودگی کی خبر دی تاہم ہواباز یکسو اور پرسکون تھے۔ وہ دشمن کے جدید طیاروں سے مرعوب تھے اور نہ ہی اسلحہ کی زیادتی سے فکرمند ، انھیں تو دشمن کو اس کی ناپاک جسارت کا دندان شکن جواب دینا تھا۔ وہ نیچی پرواز کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں جا گھسے تاہم اندھیرے اور بلیک آؤٹ کے باعث اپنا ہدف نہ ملا۔ کچھ دیر انھوں نے ہوائی اڈا تلاش کیا مگر ناکام رہے۔انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا مگر ابھی پلٹے نہ تھے کہ ان کے مقابل دشمن کے نصف درجن طیارے آ گئے۔ سیسل چودھری نے قائد کو اطلاع دی کہ لیڈر دشمن ہمیں گھیر رہا ہے۔ سرفراز رفیقی نے کمال سکون سے جواب دیا۔’ فکر نہ کرو ہم ایک ایک کو چن کر ماریں گے۔’ ان کی بات نے ان کے ساتھیوں کے حوصلے بلند کر دیئے اور جنگ سے پہلے جو ایک انجانا اعصابی دباؤتھا وہ جوش و جذبے میں بدل گیا۔انھوں نے واپسی کا ارادہ ترک کیا اور دشمن سے یہیں دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا کہ مقصدتو دشمن کی قوت کم کرکے اس کو جانی مالی اور بالخصوص نفسیاتی نقصان پہنچانا تھا۔یونس کے جہاز کی ایک فالتو ٹینکی نہ گری جس سے جہاز متوازن نہ رہا مگر اس سے ان کی استقامت میں کوئی فرق نہ آیا اور وہ مقابلہ کرنے لگے۔پاکستانی شاہینوں نے ابھی دو طیارے گرائے تھے کہ دشمن کے مزید آٹھ طیارے اپنے ساتھیوں کی مدد کے لئے آ پہنچے۔ پاکستانیوں کے تین قدیم سیبرز طیاروں کے مقابل دشمن کے درجن سے زائد جدید ترین مگ تھے۔ چند منٹ بعد آسمان بھی حیرت میں تھا کہ سیبرز نے مگز کو آگے لگایا ہوا تھا اور تاک تاک کر نشانہ لے رہے تھے کہ پاکستانی دستے کے لیڈر رفیقی کے جہاز کی گنیں جام ہو گئیں۔ اس موقع پر رفیقی واپس چلا جاتا اور اپنی جان اور جہاز دونوں بچا لیتا تو وہ حق بجانب تھا مگر رفیقی نے تمام عمر غیرت و حمیت کے ساتھ گزاری تھی۔اپنے ساتھیوں کو مشکل میں چھوڑنا اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔ یاد رہے کہ لڑائی میں دوسرے پر حملہ کرنے کی نسبت اپنا دفاع کرنا اور جہاز بچانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔انھوں نے ایسا فیصلہ کیا جس کی تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انھوں نے سیسل چودھری سے کہا کہ وہ ان کی جگہ قیادت سنبھالیں۔خود انھوں نے سیسل چودھری کے جہاز کے عقب کی حفاظت شروع کر دی۔تا کہ کوئی اس پر بے خبری میں حملہ نہ کر دے اور انھیں ہدایات دینا شروع کر دیں۔اس فیصلے کے انجام سے وہ بے خبر نہیں تھے مگر وہ اسلاف کی زریں روایتوں کے امین بھی تھے۔
ان کے ساتھیوں نے ایک ایک کر کے جہازوں کو نرغے میں لے کر گرانا شروع کر دیا ۔ اسی لڑائی میں قائد پیچھے رہ گیا اور دشمن طیاروں کا نشانہ بن گیا۔ دونوں ہوابازوں نے اپنےقائد کو شہید ہوتے دیکھا تو وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔انھوں نے پھر دشمن طیاروں کو گھیر گھیر کر گرانا شروع کر دیا۔ نصف درجن کے زیادہ جہازوں کا صفایا کیا۔اسی دوران دشمن کا ایک بم خواجہ یونس کے طیارے کو لگا اور وہ بھی مادرِ وطن پر نثار ہو کر اپنے لیڈرسے جا ملے۔ انھیں گوارا نہ ہوا کہ ان کا قائد دشمن کی سرزمین پر اکیلا رہے۔ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ جب یونس کا جہاز ہٹ ہوا تو انھوں نے سنبھالنے کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ وہ واپس نہیں پہنچ سکتے تو انھوں نے اپنا جہاز ہوائی اڈے پر ہی گرا دیا جہاں موجود کچھ اور طیارے بھی ان کے جہاز کے ملبے کے ساتھ تباہ ہو گئے۔ وللہ اعلم بالصواب ۔ فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اکیلے ہوئے تو دشمن کے طیاروں کے جھرمٹ کو جل دیتے ہوئے واپس آ گئے۔انھوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شاندار کارنامے انجام دئیے اور اپنے دو ساتھیوں کی روایت کو خوب نبھایا۔ ان کا واپس آنایوں بھی ضروری تھا کہ وہ اس معرکتہ الآراء مقابلے کے عینی شاہد تھے اور سیسل چودھری کی بدولت ان کے کارناموں سے دنیا واقف ہوئی ۔
بادی النظر میں ہلواڑہ کا یہ مشن ناکام تھا۔ ٹیم کو یہ اڈا مع جہازوں کے تباہ کرنا تھا جس میں وہ ناکام رہی۔تاہم اگر گہرائی میں دیکھا جائے تو اس حملے نے پاکستان کی 1965ء کی جنگ میں فتح کی بنیاد رکھ دی تھی۔ معذور سیبرز طیاروں کے ساتھ ہمارے تین ہوابازوں نے جس طرح درجن بھر مگ جہازوں کا مقابلہ کیا اور قریب نصف کو زمین بوس کیا اسکی نظیر ملنا مشکل ہے۔علاوہ ازیں یہ سب ان کے گھر میں بلکہ ان کے ائیر بیس کے اوپر ہوا جسے وہاں کے لوگوں اور فوجیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔اس سے دشمن کے دل میں پاک فضائیہ کی ہیبت بیٹھ گئی۔ پاک فوج کے تین ہوابازوں نے اپنے کردار سے ہمت ، حوصلے ،ٹیم ورک، مقصد سےوابستگی، قیادت اور قائد کے احکامات کی تکمیل کی تشریح کی اور مشعل راہ ٹھہرے۔
قسمت کی ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سرفراز رفیقی کو آخری مرتبہ اس سرزمین پر آنا نصیب نہیں ہوا جس کا جھنڈا وہ اپنے لڑکپن میں بیرون ملک لہرا رہے تھے تاہم اس جھنڈے اور اس سرزمین سے وفا انھوں نے آخری سانس تک نبھائی۔جبکہ یونس کو قضا دوبارہ اس خطے میں لے گئی جہاں اپنی زندگی کا ابتدائی دور گزار کر انھوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی تھی۔
یہ دونوں جانباز ساڑھے پانچ عشروں سے دشمن کی سرزمین میں کسی نامعلوم مقام پر محو ِ استراحت ہیں۔ اہم دنوں کی مناسبت سے ملک میں موجود شہیدوں کی آرام گاہوں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں ان کے مزاروں پر گارڈ کے دستے سلامی دیتے ہیں اور ان کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں ۔یقینا ً ہمارے شہداء اس سب کے بلکہ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں مگر ہلواڑہ کے شہداء اور دیگر دشمن زمین پر محوِ استراحت شہداء کی اول تو قبریں ہوں گی ہی نہیں ، انھیں کسی ویران مقام پر کسی گڑھے میں دبا دیا گیا ہو گا اور جیسے شہر پھیلے ہیں شاید اب ان گڑھوں کا بھی وجود نہ ہو۔ ان پر کوئی پلازہ بنا چکا ہو یا کوئی اور کثیر المنزلہ عمارت۔اگر بالفرض محال ان شہداء کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی قبرستان میں سپرد خاک کر بھی دیا گیا ہو تو غیر ملک میں بقول بہادر شاہ ظفر
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں
کی عملی تفسیر ہوتے ہیں ۔ اگرچہ ہمارا عقیدہ اور یقین ہے کہ شہید زندہ ہیں اور وہ اللہ پاک کے ہاں نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر دنیا دار شخص ہر چیز کو دنیا کی نظر سے ہی دیکھتا ہے بعض اوقات۔دنیا وی تفاوت پر حیرت و افسوس ہوتا ہے۔سرفراز رفیقی کو اور یونس حسن کو بعد از شہادت بالترتیب ہلال جرات و ستارہ جرات سے نوازا گیا مگر ہمارے خیال میں تو وہ نشانِ حیدر کے مستحق تھے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ نشان حیدر کا معیار کیا ہے ۔ شاید انھیں ہی نشان حیدر ملتا ہے جن کی باقیات ملک میں واپس لائی جاسکیں ۔ مگر پھر ہم سوچتے ہیں کہ شہداء کو ان دنیاوی چیزوں سے کیا مطلب؟ انھیں اللہ کے ہاں جو نشان حیدر ملا ہو گا وہ ساری دنیا کے نشان حیدر اس پر وار دیں تو بھی اُس نشان حیدر کی گرد کو بھی نہ پہنچ پائیں یہ دنیاوی اعزازات۔
ہم نے اب تک ویلنٹائن ڈے نہیں منایا اور نہ ہی آگے ارادہ ہے۔ تاہم یہ سوچا ہے کہ اس روز آئندہ ہر سال ہم کسی ایسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کریں گے جن کا ہماری زندگی میں کوئی کردار ہے۔ جن سے ہم نے کچھ سیکھا ۔ سو اس ویلنٹائن پر ہماری عقیدتوں کے پھول ہمارے ان ہیروز کے نام اور ان کے لئے بہت دعائیں کہ اللہ ان شہداء اور دیگر کے درجات بہت بلند کرے ۔ ہمارا ارادہ ان دونوں میں سے کسی ایک ہواباز پرلکھنے کا تھا ۔مگر ایک پر لکھتے اور دوسرے پر نہیں تو یہ زیادتی ہوتی سو ہم نے دونوں پر لکھنے کو ہی مناسب سمجھا ۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہلواڑہ مشن پر جانے والے تینوں ہوابازوں کی عمریں بمشکل تیس سال تھیں ۔ ان کے بھی خاندان تھے۔ انھیں بھی اپنے گھر والوں سے محبت تھی اور یہ بھی اپنے پیاروں کی ذراسی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے۔یہ ہواباز محض پاک فوج کے لئے مشعل راہ نہیں بلکہ ہم سب اور بالخصوص ہمارے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو اچھے نمبر نہ آنے پر ،نوکری نہ ملنے پر، اپنی پسند کی شادی نہ ہونے پر خودکشی کرلیتے ہیں یا خود کو نفسیاتی مریض بنا لیتے ہیں ۔جو ایک ناکامی سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔ ان ہوابازوں نے بتایا کہ ز ندگی ارفع مقاصد کے حصول کی سعی کا نام ہے اور اپنے کردار سے ثابت کیا کہ مقاصد جتنے بڑے ہوں قربانیاں بھی وہ اتنی ہی بڑی مانگتے ہیں۔