کرکٹ میں امپائروں کا کردار «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • کرکٹ میں امپائروں کا کردار

    تحریر: ابنِ ریاض

    کچھ روز قبل ہمارے دوست شہزاد فاروق کی سلیم ملک کی سالگرہ پر ایک پوسٹ نظر سے گزری۔اس میں انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سلیم ملک نے گیند پھینکی۔ آؤٹ کی اپیل کی۔ امپائر زیادہ متاثر نہ ہوا تو سلیم ملک بولے’میاں صاحب وکٹ دی لوڑ اے'(یعنی میاں صاحب وکٹ کی ضرورت ہے) اور امپائر نےپھر انگلی کھڑی کر دی۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے میاں اسلم نام کے ایک پاکستانی امپائر تھے اس زمانے میں۔

    ہم نے جب کرکٹ دیکھنا شروع کی تو میزبان ملک کے ہی امپائر ہوا کرتے تھے۔ 1994 میں ہر ٹیسٹ میں  ایک غیر جانبدارامپائر کھڑا کرنا شروع کیا گیا اور دونوں غیر جانبدار امپائر کا آغاز تو اکیسویں صدی میں ہی شروع ہوا۔ ایک روزہ میچوں میں تو اب بھی ایک ہی غیر جانبدار امپائر ہوتا ہے اور ٹی ٹوینٹی میں دونوں مقامی امپائر ہوتے ہیں۔

    شہزاد فاروق نے امپائرز کے حوالے سے وہ پوسٹ نہیں کی تھی وہ سلیم ملک کے متعلق ان کا تبصرہ تھا مگر تینتیس چونتیس سال میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہر ملک کے امپائر اپنی ہی ٹیم کی حمایت کرتے ہیں۔ انیس بیس کا فائدہ ہمیشہ انھی کی ٹیم کو ملا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستانی امپائر دوسروں سے قدرے بہتر رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں پاکستان جتنی ہوم سیریز شاید ہی کسی اور ملک نے ہاری ہوں۔ ظاہر ہے امپائرز کے فیصلے بھی اس میں شامل تھے۔

    ویسٹ انڈیز 1980 اور نوے کی دہائی کے وسط تک دنیا کی بہترین ٹیم تھی۔ مگر ان کے امپائرز نے بھی ان کا ہمیشہ ساتھ دیا۔12 اپریل 1990 کو ویوین رچرڈنے انگلینڈکے خلاف ٹیسٹ میں اپنی اپیل سے اتنا پریشان کیا کہ انھوں نے ناٹ آؤٹ کا فیصلہ بدل کر انگلینڈکے بلے باز بیلی کو آؤٹ قرار دیا۔ 1988ء میں پاک ویسٹ انڈیز سیریز ایک ایک سے برابر رہی تھی۔اس میں بھی ان کے امپائروں کا بڑا کردار تھا۔عبدالقادر کی گیندوں پر کئی آؤٹ انھوں نے نہیں دئیے تھے اور بمشکل ویسٹ انڈیز یہ سیریز ڈرا کر پایا تھا۔ پھر 2000ء کی سیریز میں ویسٹ انڈیں امپائر  بلی ڈاکٹروو نے تاریخ دھرا کر دوبارہ پاکستان کو سیریز جیتنے سے محروم کر دیااگرچہ اس میں نیوزی لینڈ کے ‘ڈگ کووی’ نے بھی ایک پکا آؤٹ نہیں دیا اور پھر دو رن آؤٹ بھی جبکہ دونوں بلے باز ایک ہی اینڈ پر تھے ہمارے کھلاڑیوں نے ضائع کر دئیے مگر بہرحال مقامی امپائر نے اپنی ہی ٹیم کا ساتھ دے کر اپنی حب الوطنی ثابت کر دی۔

    بھارت کی طرف نظردوڑائیں تو ہمیں یاد پڑتا ہے کہ نوے کی دہائی میں ہم نے میں میلکم مارشل کی آپ بیتی کا اردو ترجمہ پڑھا تھا۔  اس میں انھوں نے اپنے دورہ بھارت کا ذکر کرتے ہوئے ان کے امپائرنگ کے معیار کے متعلق  لکھا تھا کہ بھارت میں جب تک بولر وکٹیں نہ اڑا دے اور امپائر نے اسے ‘نو بال’ نہ دیا ہو تب تک آؤٹ نہیں لیا جا سکتا۔ 1999ء کی پاک بھارت سیریز ابھی ذہنوں میں تازہ ہے جب چنائی ٹیسٹ میں ڈریوڈ کا امپائر نے آؤٹ نہیں دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ وسیم اکرم نے اگلی ہی بال پر ڈریوڈ کو کلین بولڈ کر دیا۔ ورنہ اتنے بڑے کھلاڑی کو تو ایک ہی ایسا چانس چاہیے ہوتا ہے۔ دہلی ٹیسٹ میں میچ کی چوتھی اننگز میں انیل کمبلے کے پہلے ہی اوور میں آفریدی نے دو چھکے جڑ دئیے تھے پھر کپتان نے ان کا اینڈ تبدیل کیا۔اس اینڈ پر مقامی امپائر تھے۔ ان کے کچھ فیصلوں کے باعث انیل کمبلے اننگز میں دس وکٹیں لینے والے دوسرے گیند باز بن گئے۔

    سری لنکا میں امپائرنگ کا یہ معیار تھا کہ 1985-86 کی سیریز میں عمران خان ٹیم کو لے کر بطور احتجاج میدان میں بیٹھ گئے تھے اور کھیلنے سے انکار  کر دیا تھا۔

    آسٹریلوی امپائر از خود ہی مرلی دھرن کو نو بال قرار دیتے رہے۔ 1989-90 کی پاک آسٹریلیاسیریز کے پہلے میچ میں پہلی باری میں پاکستان ٹیم شاید سو رنز ہی بنا پائی تھی اور چوتھی اننگز میں پاکستان کو سوا چار سو کا ہدف ملا۔ پاکستان نے مقابلہ شروع کیا اور اعجاز احمد نے سینچری اور جاوید میانداد نے نصف سینچری بنائی اور پاکستان نوےرنز سے ہارا۔تاہم اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس اننگز میں کارل ریکمین کی گیندوں پر پانچ کھلاڑی ایل بی ڈبیلو قرار دئیے گئے جن میں سے زیادہ فیصلے مشتبہ تھے۔ 1999 کے ہوبارٹ ٹیسٹ میں لینگر والا کیچ نہ دینا تو کسی کو نہیں بھولا ہو گا۔اس کے علاوہ بھی 2006ء کی سیریز میں ایک ٹیسٹ میں پونٹنگ کو شروع میں آؤٹ نہیں قرار دیا گیا اور بعد ازاں وہ ڈبل سینچری کر گیا۔

    برطانیہ کی بات کریں تو وہ کرکٹ کو شرفاء کا کھیل کہتے تھے اور خود کو اس کا بانی قرار دیتے ہیں مگر 1992 کی پاک برطانیہ سیریز میں گراہم گوچ کے دو دو فٹ لمبے آؤٹ نہیں دیئے گئے۔ ڈیوڈ شیفرڈ  نے تو موقع بموقع پاکستان کے خلاف فیصلے دئیے۔ 1999ء کے عالمی کپ کے فائنل میں انضمام کا آؤٹ اور2004 میں  ہالینڈ میں پاک آسٹریلیا فائنل میں دو لگاتار اوورز میں انضمام و یوسف کو غلط آؤٹ دے کر پاکستان سے فتح چھین لی گئی۔ بعد ازاں شیفرڈ کے پاکستان کے خلاف فیصلے دینے کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔تاہم یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ 1999ء کے عالمی کپ میں پاکستانی امپائر جاوید اختر نے انگلینڈ اور بھارت میں ہونے والے میچ میں جو فیصلے دئیے تھے وہ بھی انتہائی حیران کن بلکہ افسوس ناک ہی کہے جا سکتے ہیں۔

    اب غیر جابندار امپائرز اور ٹیکنالوجی کا دور ہے سو اگر امپائر اس طرح کا کوئی فیصلہ کریں تو ٹیموں کے خلاف ریویو یعنی نظرِ ثانی کی سہولت موجود ہوتی ہے تاہم اب بھی اس میں انیس بیس ہوتا ہے اور اس سے میچ کا نتیجہ بدل لیا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال حالیہ پاکستان آسٹریلیا سیریز میں دیکھنی کو ملی جب پہلے ٹیسٹ میں محمد رضوان کو ایک نو بال پر آؤٹ قرار دیا گیا۔ ری پلے میں باؤلر کی ایڑی کریز پر تھی سو گیند نوبال تھی مگر تھرڈ امپائر نے اسے قانونی قرار دے کر محمد رضوان کو گھر بھیج دیا۔اگلے روز  نسیم شاہ کی ایک گیند ڈیوڈ وارنر کے بلے کو چھو کر وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی۔ ری پلے میں نسیم شاہ کا پاؤں بھی اتنا ہی باہر تھا جتنا آسٹریلوی گیند باز کا مگر اس مرتبہ گیند غیر قانونی ٹھہری اور پھر وارنر نے اپنی بیٹنگ سے میچ بلکہ سیریز کا پانسہ ہی پلٹ ڈالا۔ ایسی ہی امپائر کی غلطی 2019ء کے عالمی کپ کے فائنل میں اوور تھروز کے معاملے پر  بھی ہوئی تھی اور اس کا فائدہ بھی اتفاق سے میزبان ٹیم کو ہی ملا۔

     

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔