تحریر:ابنِ ریاض
چند روز قبل کی بات ہے کہ ہمیں ایک گروپ میں ایک مقابلہ پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس کے بعد ہم نے اس پر تبصرے بھی پڑھے ۔ اس پر ہمیں اپنی پچھلے سال والی ایک تحریر یاد آ گئی۔ پچھلے برس ایک روز ہمیں ایک بہت محترم ہستی نے فرمائش کی تھی کہ اسی روز ہی ایک فکاہیہ تحریر چاہیے ۔چونکہ ہم انھیں انکار نہ کر سکتے تھے سو جلدی جلدی جو من میں آیا لکھ دیا۔ اب مزاح ہر وقت تو نازل ہونے سے رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری طرح بری طرح پٹ گئی۔ یہی حال مقابلے والی تحریر کابھی تھا۔ اس تحریر سے کچھ باتیں سیکھیں جن کا آج اعادہ یہ تحریر کروا رہی ہے۔
سب سے اہم اور ضروری بات یہ کہ مقابلہ جیتنا ضروری نہیں ۔ہم نے آج تک نہیں سنا کہ اقبال غالب یا معروف مصنفین مقابلے میں حصہ لیتے تھے تاہم ان مقابلوں سے انسان کو اپنی کسی قدر خامیوں کا ضرور علم ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے مقابلے میں تحریر اگر بھیجیں تو مکمل تیاری کے ساتھ اور اچھی تحریر بھیجیں۔ پرانے لکھنے والے ایسے مقابلوں میں تحریریں تفریح طبع کے لئے بھیج دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ان کا کام پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہوتے ہیں سو ان کا سارا معیاری کام پس پشت چلا جاتا ہے اور نیا قاری انھیں اس تحریر کی وجہ سے جاننے لگتا ہے جو انھوں نے اپنے دفتر یا گھر کے کسی اہم معاملے کو موخر کر کے لکھی ہو اور اس میں املا کی غلطیاں بھی درست کرنے کا موقع نہ ملا ہو۔یوں بھی مقابلوں میں موجود تنقید نگار چونکہ خود بھی اس مقابلے میں شریک ہوتے ہیں تو مقابلے میں دوسرے کو چت کرنے یا چت کرنے کی کوشش کرنا کسی صورت بھی ناجائز یا غیر اخلاقی نہیں کہا جا سکتا تاوقتیکہ تنقید تحریر پر ہو مصنف پر نہیں۔
اس مقابلے میں البتہ مصنف/مصنفہ کا تعارف ابتداء میں کروا کر بھی ان کے ساتھ کسی قدر زیادتی کی گئی ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ منتظمین کا مقصد ان کی عزت افزائی ہی تھا لیکن یہ تعارف قاری کی امیدوں کو بھی دو چند کر دیتا ہے۔یہ تعارف تحریر کے بعد ہونا چاہیے تھا بلکہ زیادہ بہتر تھا کہ مقابلے کے اختتام پر تمام مصنفین کا تعارف کروایا جاتا اور ان کا شکریہ ادا کیا جاتا۔
ایک اور نکتہ جو ہم نے مقابلوں میں محسوس کیا ہے وہ یہ کہ لکھنے والے ہر میدان میں طبع آزمائی کرنے اور ہر مقابلے میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ چونکہ وہ لکھتا ہے تو اسے نثر نظم سب پر ہی عبور ہوگا۔ جب کسی کو دعوت دی جاتی ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ آپ تو ویسے ہی مصنف/شاعر ہیں آپ کے لئے کیا مشکل ایک مقابلے میں حصہ لینا؟ کچھ لکھنے والے خود بھی اِدھر اُدھر جہاں مقابلہ دیکھا وہیں جا پہنچتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دوسری صنف میں بھی قابلیت کا اندازہ ہو جائے گا اور اگر اس میں اچھا رد عمل سامنے آ گیا تو اس شعبے میں بھی طبع آزمائی کر لیں گے۔ حالانکہ کوا چلاہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ اقبال نے کوئی ناول نہیں لکھا۔نظم نظیر اکبر آبادی کی ہی آج تک مشہور ہے اور غزل میں غالب ضرب المثل ہے۔ نظم میں غالب کو کوئی جانتا ہی نہیں۔ انتظار حسین اور منٹو کو آپ افسانوں کی وجہ سے جانتے ہیں جبکہ ناولوں کے میدان میں وہ گمنام ہیں۔ ابن انشاء کے علاوہ دو چار لوگ ہی ہوں گے جنھیں ہم ادب کا آل راؤنڈر کہہ سکتے ہیں۔ سو بہتر یہی ہے کہ جس شعبے میں میلان ہو اسی کوزیادہ وقت دیا جائے تو نتیجہ کہیں بہتر ہو سکتا ہے۔
چونکہ کرکٹ کا بھی ہمیں ضرورت سے زیادہ شوق ہے تو مثال یہاں سے بھی لے لیتے ہیں۔جاوید میانداد یا انضمام الحق پاکستان کے دو بہترین بلے باز ہیں لیکن دونوں مڈل آرڈر میں کھیلتے رہے ہیں اور بلے باز ہونے کے باوجود اوپنر نہیں تھے۔ اسی طرح شعیب اختر سے کہا جائے کہ آپ زبردست باؤلر ہو مگر یہ پچ سلو گیند بازوں کے لئے سازگار ہے تو آپ آج ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرنے کی بجائے مشتاق احمد کی سپیڈسے گیند کرو؟ یا تیز پچ پر آفریدی یا ثقلین سے کہا جائے کہ آج تم نے تیز فاسٹ باؤلنگ کرنی ہے۔ اسی طرح بلاشبہ اظہر علی پاکستان کے موجودہ قابل اعتماد بلے بازوں میں ابتدائی نمبروں پر ہیں مگر انھیں ٹی ٹونٹی میں نہیں کھلایا جاتا کیونکہ وہ اس کھیل کے کھلاڑی نہیں ہیں۔یہی حال دنیا کے تیز ترین انسان یوسین بولٹ کا ہے۔ وہ رنر ہی ہیں لیکن اگر انھیں میراتھن میں بھگایا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اس میں وہ کارکردگی نہیں دکھا سکتے جو وہ سو میٹر میں کرتے ہیں۔
دوسرا پڑھنے والے بھی مصنف کو اگر اس کی پسندیدہ یا قدرتی میلان والے شعبے میں دیکھیں گے تو انھیں کچھ نیا اور منفرد ملنے کے امکانات ہیں۔مقابلوں میں حصہ لینا ایسا ہی ہوتا ہے جیساقومی ٹیم میں کھیلنے والے لیگوں میں کھیلتے ہیں۔ وہ پیسے کمانے کے لئے لیگیں کھیلتے ہیں اور ہمارے دوست تفریح کے لئے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس میں بھی کچھ ایسی تحاریر ہوتی ہیں جو تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔بلکہ اگر کہا جائے تو ہر فنکار کے ایک دو شاہکار ہی ہوتے ہیں جو اس کو امر کرتے ہیں۔ تاہم اہم چیز فنکار کا اپنے کام سے مطمئن اور پرسکون ہونا ہے۔ فنکار کا کام اگر اسے خود سکون و ذہنی آسودگی نہیں دے رہا تو دوسروں پر خاک اثرکرے گا۔یوں بھی فنکار کا کام محنت کرنا ہے۔ اثر تو اس میں اللہ نے ڈالنا ہے۔کبھی بہت پیارا کام کسی کی توجہ نہیں پاتا اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اس کشمکش میں ہوتا ہے کہ اپنی یہ کارکردگی کسی کو دکھانے کے قابل بھی ہے کہ نہیں مگر تقدیر اسی کارکردگی کو اس کی پہچان بنا دیتی ہے۔
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اتر گیا
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 6th, 2020
زمرہ: سنجیدہ تحریریں, صفحہ اول تبصرے: کوئی نہیں