تحریر:ابنِ ریاض
طارق عزیز مرحوم پاکستان میں ان گنتی کے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذات میں انجمن ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز و مقبول عام شخصیت تھے۔ اگر کہا جائے کہ آج پاکستان ٹیلی ویژن نے آج اپنی آواز کھو دی ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ اس ادارے کو انھوں نے خود سینچا اور پروان چڑھایا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر سب سے پہلے جن کی تصویر آئی اور جن کی آواز لہرائی وہ طارق عزیز مرحوم ہی تھے۔ وہ ٹیلی ویژن کے ابتدائی اناؤنسر اور نیوز ریڈر بھی تھے۔ٹیلیویژن کے کئی ڈراموں اور کئی فلموں میں انھوں نے اداکاری بھی کی۔ وحید مراد مرحوم کی فلم ‘سالگرہ’ کے مشہور گانے میں ‘یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے ‘ میں وہ واضح ہیں۔ تاہم انھیں لازوال شہرت میزبانی سے ملی۔ ‘نیلام گھر’ جو ایک معلوماتی تفریحی پروگرام تھا وہ کئی دہائیاں پاکستان ٹیلی ویژن پر چلتا رہا۔ اس کے کئی نام بدلے گئے کبھی اس کو طارق عزیز شو کر دیا گیا تو کبھی بزم طارق عزیز مگر تین چار دہائیوں تک یہ ملک کا مقبول ترین پروگرام رہا۔نیلام گھر کو پاکستان کا پہلا گیم شو کہا جاتا ہے اور طارق صاحب سے ہی متاثر ہو کر آج کل گیم شو ہو رہے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ طارق عزیز صاحب کا وہ محض گیم شو نہیں تھا وہ ایک تربیتی پروگرام تھا۔آپ اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھےاور آپ کویقین ہوتا تھا کہ پروگرام میں کوئی ایسا موقع نہیں آئے گا جب آپ کو اپنی فیملی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔
جن لوگوں کا بچپن 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں گزرا وہ اس بات سے خوب آگاہ ہیں کہ ہم لوگوں کی تربیت میں والدین اور بزرگوں کے علاوہ حکیم سعید، ابن صفی، مظہر کلیم و اشتیاق احمد کے ساتھ طارق عزیز مرحوم کا کتنا زیادہ اور اہم کردار ہے۔آج کل کے گیم شو میں پڑھا لکھا ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ آپ خود کو عجیب اور شرمندہ ہی محسوس کریں گے جبکہ طارق صاحب کے شو میں پروگرام میں انعام پانے کے لئے سوال کا جواب دینا ضروری تھا جتنا مشکل سوال ہوتا انعام بھی اتنا ہی بڑا ہوتا۔ کار کے سوالات کے جوابات دینا تو گویا سی ایس ایس کرنا ہوتا۔ بلکہ کار کے لئے کھیلنے والے سے زیادہ ہم خود اور ہال میں موجود تماشائی ٹینشن میں ہوتے کہ اللہ کرے اس کا جواب ٹھیک ہو اور اسے اس کی محنت کا پھل مل جائے۔طارق عزیز صاحب کے پروگرام سے ہم نے جانا کہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔
۔ہمیں یاد ہے کہ ہم تیسری جماعت میں پڑھتے تھے تو ایک سوال پوچھا تھا طارق صاحب نے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں کتنے برس حکومت کی ؟اس کا جواب ہماری معاشرتی علوم کی کتاب میں موجود تھا تو ہم نےجواب دے دیا۔ گھر واے حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگے تو ہمیں فخر کا ااحساس ہوا اور اب کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ سوالوں کے جواب دے پائیں ۔ یوں ہم ٹارزن، عمرو عیار کے علاوہ اب حالات حاضرہ اور جنرل نالج کی کتابیں بھی پڑھنے لگے۔ طارق عزیز صاحب بھی جو سوالات پوچھتے وہ بھی یاد کرتے اور کوشش کرتے کہ لکھ لیں تا کہ آئندہ کبھی پوچھے تو ہمیں جواب معلوم ہو۔ اپنے سکول کالج اور یونیورسٹی دور میں کئی کوئز مقابلوں میں حصہ لیا اور بعض جگہ انعامات بھی لئے تو اس کا سارا سہرا طارق صاحب کے نیلام گھر کے سر ہے۔
طارق صاحب سکول و کالج کے طلباء کو بلوا کر شاعری کا مقابلہ بھی کرواتے تھے۔ بچوں کو بلاواسطہ ادب کا شوق پیدا کیا انھوں نے اور اچھی شاعری کی تہذیب کی۔ اگر کوئی غلط شعر یا بے وزن شعر پڑھتا تھا تو وہ اس کی اصلاح کر دیا کرتے تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے تو کیا ہی خوبصورت انداز تھا ان کا شعر پڑھنے کا۔جب شعر پڑھتے تھے تو دل چاہتا تھا کہ پڑھتے ہی رہیں وہ۔ گویا شاعر نے اسی لئے غزل نظم لکھی ہے کہ طارق عزیز اسے پڑھ کر امر کر دیں ۔ تارڑ صاحب فرماتے ہیں ‘ طارق عزیز کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔۔ ایک لیجنڈ کا دوسرے لیجنڈ کو کیا ہی خوبصورت خراج عقیدت ہے۔
ہر شعبے(کھیل،سیاست،فنون لطیفہ،طب) سے کامیاب مہمانوں کو بلوانا اور پھر ان سے ان کی کامیابی کے راز پوچھنا اوراپنے ناظرین تک پہنچانا تا کہ وہ بھی ان سے سیکھ کر اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ان ہی کی طرح کامیاب ہو سکیں، یہ ان کی اپنے پاکستانی عوام سے محبت ہی تو تھی ۔ کتابوں کا شوق ہو،شاعری کی سمجھ ہو یا کامیاب لوگوں سے سیکھنا طارق صاحب نے نئ نسل کی تربیت میں اپنا کردار بخوبی نبھایا۔کئی نسلیں طارق صاحب کی مقروض ہیں۔انسان دوستی بھی ان کی ایک نمایاں صفت تھی۔ طارق صاحب نے خیراتی مقاصد کے لئے کئی ٹیلی تھونز بھی کیں۔
طارق عزیز کا میزبانی کا انداز بھی جداگانہ تھا۔ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں آپ کا طارق عزیز کا سلام پہنچے اب بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔طارق صاحب اپنے پروگرام میں ایک سوال پر بلیک اینڈوائٹ ٹی وی دیا کرتے تھے جو الیکٹرا کمپنی کا تھا۔ہمارا چھوٹا بھائی اسے اٹریکٹا کہتا تھا۔جوں ہی کوئی سوال جواب کا جواب دیتا طارق عزیز صاحب اپنی پرجوش آواز میں اور ہاتھ اونچے کر کے نعرہ لگاتے’ الیکٹرا’یعنی جواب درست ہے اور الیکٹرا آپ کا ہوا تو ہمارا بھائی بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر اٹریکٹا کہتا تھا۔ اب بھی ہم کسی سے کچھ پوچھیں اور وہ ٹھیک بتائے تو ہم الیکٹرا کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔
طارق عزیز کے ایک انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا تھا۔اس میں ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اداکاری صداکاری اور میزبانی کہاں سے سیکھی تو انھوں نے کہا ‘ ہمارے زمانے میں کوئی ادارے تو تھے نہیں بس ہمیں شوق تھا وہی مہمیز بنا اور ہم خود رو پودے کی طرح بڑھتے چلے گئے۔’ بلاشبہ وہ خود رو پودے کی طرح اگے اور کسی ادارے سے تربیت حاصل نہیں کی مگر اپنے شوق و محنت سے اس مقام پر جا پہنچے کہ جہاں انھیں خود ادارے کا درجہ حاصل ہو گیا۔
طارق صاحب کی ایک زبردست خوبی پاکستان نے محبت تھی۔ ان کا پروگرام دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں سے شروع ہوتا ہوا پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنا نعرہ تو شاید ہی کسی نے لگایا ہو۔ یہ سب انھیں ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد کو پاکستان سے اتنا عشق تھا کہ ان کا نام ہی عبدالعزیز پاکستانی ہو گیا۔ نعرے لگانے والے تو بہت ہیں مگر عمل سے ثابت کوئی کوئی کرتا ہے۔ طارق صاحب نے اپنی مِلک پاکستان کے نام کر کے ثابت بھی کر دیا کہ اس مٹی سے محبت محض زبانی نہیں عملی ہے۔
طارق عزیز علم و دانش کا سمندر تھے۔ جب وہ کسی موضوع پر رائے دیتے تھے تو وہ صائب ہوتی تھی۔جب کسی موضوع پر بولتے تھے تو کوزے میں دریا بند کر دیتے تھے۔ معلوماتِ عامہ کا تو وہ سمندر تھے ہی ساتھ شاعر کا حساس دل بھی رکھتے تھے سو اللہ نے انھیں بین السطور دیکھنے کی صلاحیت دی تھی۔ اس کے علاوہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، پہننا اوڑھنا، ان کا انداز گفتگو اور اس میں بولی جانے والی میٹھی ادبی اردو(جو آج کے میزبانوں میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی)، ان کی قابل رشک صحت اور فٹنس ( پچاس ساٹھ برس کی عمر میں بھی وہ سوال کا جواب لینے کے لئے سیڑھیاں نوجوانوں کی طرح بھاگ بھاگ کر چڑھتے تھے)، ان کی تہذیب شائستگی اور رکھ رکھاؤ ، ان کا اپنے مہمانوں اور ناظرین سے رویہ یہ سب قابل تعریف و قابل تقلید ہیں۔
طارق عزیز ایک عہد ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کی وفات پر یہ کہنا کہ ان کا خلا پورا نہیں ہو سکتا ایک روایتی جملہ ہے مگر طارق صاحب ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ بات تکلف نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ آج پاکستان کےکروڑوں لوگوں کے بچپن کی ایک سنہری یاد رخصت ہوئی۔ فیس بک اور میڈیا پر طارق صاحب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ اس دوران کوئی متنازع بات تاحال ہم نے نہیں دیکھی۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے سبھی طبقوں میں یکساں طو ر پر مقبول تھے۔ہم نے بلاشبہ طارق عزیز صاحب سے بہت کچھ سیکھا سو ہمارے لئے تو وہ استادوں کی جگہ تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ہم خود کئی بھارتی اداکاروں ، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کے مداح ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور یہ کہ ہر انسانی محترم ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی اداکار کی خود کشی کی بحث میں دو انتہائی اہم پاکستانی مرحومین نظر انداز ہو گئے۔ ان میں صبیحہ خانم کو تو سب جانتے ہی ہیں یا کم ا ز کم نام تو سن ہی رکھا ہو گا جن کا کردار پاکستانی فلمی صنعت میں خودکشی کرنے والے بھارتی اداکار سے کہیں زیادہ ہے مگرہمیں ان سے متعلق کوئی تحریر کوئی پوسٹ نظر نہیں آئی۔ اسی طرح 14 جون کو 1965ء کی جنگ میں بھارتی طیارہ گرانے اور1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں 3 اسرائیلی طیارے گرانے والے پائلٹ سیف الاعظم انتقال کر گئے۔ بھلے وہ بنگلہ دیش چلے گئے تھے مگر ان کی یہ خدمات پاکستان کے لئے ہی تھیں۔ ہم زبان سے تو ‘Proud to be a Pakistani’ کہتے ہیں او ریقیناً ہمیں فخر بھی ہو گا پاکستانی ہونے پر تاہم ممکن ہے کہ ہمارے ہیرو سرحد پار ہوں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کر دیا جائے او ر ان کی بھی طارق عزیز مرحوم کے ہمراہ مغفرت کی دعا کر دی جائے۔