سچ منہ سے نکل جاتا ہے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • سچ منہ سے نکل جاتا ہے

    تحریر: ابنِ ریاض

    اردو ادب میں سچ اور جھوٹ پر بھی محاورے ہیں۔ ان میں سے دو اس وقت ہمارے ذہن میں ہی۔ ایک تو یہ کہ ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں۔ بلاشبہ سانچ کو  آنچ نہیں پڑتی کیونکہ وہ ساری سچ بولنے والے کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل مند لوگ کہتے ہیں کہ سچ بولو اور بولتے ہی دوڑ لگا دو۔ دوسرا محاورہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ نہیں ہوتے ہوں گے مان لیا مگر جس رفتار سے یہ سفر کرتا ہے، اس کو دیکھ کر تو اس محاورے پر یقین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

    سیاست دانوں کے متعلق عمومی رائے یہ ہے کہ یہ جھوٹ کے  پُتلے ہوتے ہیں اور باتوں اورچرب زبانی سے اپنا کام نکالتے ہیں۔ووٹ سے پہلےعوام  کا ہاتھ ہلاتے ہیں (ملاتے ہوئے) اور ووٹ کے بعد عوام کا اعتماد۔تاہم ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ بول بالا سچ کا ہی ہوتا ہے کیونکہ اکثر سچ از خود بولنے والے کے منہ سے پھسل جاتا ہے۔ عام لوگ اسے زبان کا پھسلنا سمجھتے ہیں مگر ہمیشہ زبان نہیں پھسلتی، بعض اوقات ان میں معنی کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے۔ اور بقول وارثی صاحب

    شعلہ ہوں بھڑکنے کی گزارش نہیں کرتا

    سچ منہ سے نکل جاتا ہے کوشش نہیں کرتا

     ہم نے بھی چند شعلہ بیاں سیاست دانوں کو سچ بولتے دیکھا ہے اور وہ بھی سرِ عام۔ بعضوں نے تو اپنی ہی پارٹیوں کو خوب لتاڑا تو کچھ دوسروں کے گن گانے لگے۔  ایسے ہی کچھ واقعات ہم آپ لوگوں کے گوش گزار کرتے ہیں

    فیصل رضا عابدی نے ایک بار جوش خطابت میں اپنے صدر آصف علی زرداری کی قریب قریب دعائے مغفرت کروا دی۔وہ یوں کہ فرمایا کہ اللہ آصف علی زرداری کو جنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جنت پر انھیں بریک لگ گئی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سمجھتے ہوں کہ اپنے صدر کی ابھی سے بخشش کی دعا کروا دینا ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ ایسے ہی منظور وسان نے ایک بار زرداری صاحب کے متعلق کچھ ایسے ارشادات گوش گزار کیے ‘ آصف زرداری صدرِ پاکستان، پارٹی کے چور’۔

    مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی آپس میں دشمنی و مخالفت کوئی ڈھکی چھپی نہیں مگر ‘اصل میں دونوں ایک ہیں’  کا ہمیں تب پتہ چلا جب عمران خان صاحب نے اپنی ایک تقریر میں عوام سے کہا کہ وہ باہر جائیں اور شیر پر ووٹ لگائیں۔ مسلم لیگ ن والے بھی اس خیر سگالی میں پیچھے نہ رہے اور ان کے خیبر پختون خواہ کے رہنما صابر شاہ نے بدلے میں اپنی ہی پارٹی سے ‘ گو نواز گو’ کے نعرے لگوا دیئے۔

    منظور وسان نے سندھ اسمبلی میں کرپشن سے متعلق کسی کے سوال کے جواب میں  فرمایا کہ سندھ حکومت سے جتنا ہو سکے کرپشن کرتی ہے۔ کرپشن سے متعلق ہی جاوید چودھری کے ایک پروگرام میں سابق حکومت کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ کرپشن کی سب کو اجازت ہونی چاہیے یہ کیا کہ کسی کو موقع ملتا ہے اور کوئی کرپشن سے محروم رہتا ہے۔ ان صاحب کی مساوات پر بے اختیار آنکھیں بھر آئیں اور دل نے گواہی دی کہ ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں دوسرے کا خیال ہےاور جو اقبال کے اس شعر کو حقیقت بنتا( خواہ بدعنوانی میں ہی ہو) دیکھنا چاہتے ہیں

    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

    شرجیل میمن نے اپنی پارٹی پر ایک بار یہ کہہ کر بجلی گرائی کہ ‘ ہر انتخاب میں دھاندلی پیپلز پارٹی کی جانب سے کی جاتی ہے’۔ سچ صرف پیپلز پارٹی کی میراث نہیں۔ رانا ثناء اللہ کو جب اس کا علم ہوا تو انھوں نے بھی اپنی پارٹی کی تعریف کچھ یوں کی ۔۔۔۔۔۔’مسلم لیگ ن نہ ایک سیاسی جماعت ہے نہ ہم نے اسے ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا۔ یہ ایک ابن الوقت لوگوں کا گروہ تھا’ یہ ایک مفاد پرست لوگوں کا گروہ تھا۔ یہ ایک لوٹا لیگ تھی جو پرویز مشرف نے اپنے مفادات کے لئے بنائی تھی’۔اسے کہتے ہیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ایک  جلسے میں تقریر کرتے ہوئے بلاول کی پھوپھی  کو مطلوبہ تعداد میں شہید نہیں  مل رہے تھے تو انھوں نے گنتی پوری کرنے کے لئے بلاول کو ہی شہید کہہ دیا۔

    یہ سب باتیں اور واقعات ہمیں اس وزیرِ اعلٰی سندھ جناب قائم علی شاہ صاحب کے اسمبلی میں دہیے گئے بیان پر یاد آئے ہیں جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ حکومت’ جنید جمشید’ کے قاتلوں کو گرفتار کر لے گی۔’جنید جمشید صاحب کی تو بیان سن کر سٹی ہی گم ہو گئی ہوگی جنید صاحب کو اپنی فکر لاحق ہو گئی ہو گی۔

    جبکہ ان کے چاہنے والوں نے بھی سائیں جی کو بے نقط سنائی ہوں گی اپنے اپنے دلوں میں اور جنید صاحب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ تاہم ہماری رائے میں یہ بیان ہرگز بھی زبان کی پھسلن یا حماقت نہیں بلکہ ان کے سیاسی تدبر کا آئینہ دار ہے۔  کس کو علم نہیں کہ جنید جمشید اس وقت مشکل صورت حال میں ہیں۔ ان کا ایک بیان وجہ تنازعہ بن چکا ہے، اگرچہ اس پر انھوں نے سر عام معذرت بھی کی مگر بعض سنگ دل لوگوں کو یہ بھی گوارا نہیں اور اسلام آباد ہوائی اڈے پر بھی ان کے ساتھ ایک نا خوشگوار صورت حال پیش آ چکی ہے سو وزیر اعلٰی کا بیان اسی ضمن میں ہے۔ انھوں نے یہ کہہ کر کہ حکومت جنید جمشید کے قاتلوں کو گرفتار کر لے گی کہہ کر قاتلوں کو تنبیہہ کر دی ہے کہ جنید جمشید کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھنا۔ یہی تمھارے حق میں بہتر ہے ورنہ قانون حرکت میں آ جائے گا۔ جنید جمشید کو ان کا مشکور ہونا چاہیے۔

    قائم صاحب نے اپنے اس بیان سے امجد صابری مرحوم کے قاتلوں کا بھی انجام بتا دیا ہے کہ ان کا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بزدل بھی تھے۔ حملے کی قبل از وقت اطلاع تو دی نہیں، ہاں بعد میں ذمہ داری قبول کر کے پھنے خان بن جاتے ہیں مستزاد یہ کہ  پولیس کے آنے کا انتظار بھی نہیں کیا۔ نام پتہ بھی نہیں چھوڑا کہ پولیس خود آ کر ان سے ملاقات کر لیتی۔  اس بے فیضے دشمن کولوں بہتر دشمن اکیلے

    ٹیگز: , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔