علاقائی کرکٹ میں بہتری وقت کی اہم ضرورت «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • علاقائی کرکٹ میں بہتری وقت کی اہم ضرورت

    تحریر: ابنِ ریاض
    آپ کے مشاہدے میں اکثر یہ بات آئی ہو گی کہ پاکستان میں اچانک ایک آدمی اٹھتاہے اور وہ دنیا کو حیران کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دیکھیے کہ انھوں نے پاکستان کو ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا۔ عبد الستار ایدھی صاحب ہیں کہ اپنی ذات میں ایک پورا ادارہ تھے۔ نصرت فتح علی خان اور ارفع کریم کو بھی ان میں شا مل جانیے اور اگر کھیلوں کی بات کریں کرکٹ’ ہاکی اور سکواش میں پاکستان کھلاڑیوں نے ایک مدت تک پوری دنیا کو اپنے فن سے حیران کیے رکھا۔ موضوع کو مزید محدود کر کے اگر کرکٹ پر بات کر لی جائے توحنیف محمد ، فضل محمود، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم ، عبد القادر، وقار یونس، ثقلین مشتاق، سعید انور، انضمام الحق کی ایک دنیا آج بھی معترف ہے۔
    پچھلے کچھ سالوں سے ایسے حیرت انگیز کھلاڑیوں کی پیداوار انتہائی کم ہو گئی ہے۔ پاکستان جو کہ تیز گیند بازوں کی وجہ سے مشہور تھا، اب کوئی ایسا بالر نہیں دکھائی دے رہا جو میچ اچانک بدل لے۔ بلے باز تو ویسے ہی خال خال ملتے ہیں ہمیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں ہماری شکستوں کے تناسب میں از حد اضافہ ہوا ہے۔
    اس کی بنیادی وجہ ہمارے ملک کی علاقائی کرکٹ کی زبوں حالی ہے۔ دنیا بھر میں اپنی علاقائی کرکٹ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ یہ وہ نرسری ہوتی ہے جس سے اچھے پودے نکل کر تناور درخت بنتے ہیں۔تاہم ہمارے ہاں اس کےساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ہمارے سلیکٹرز نے کبھی علاقائی میچ دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔اخباری کارکردگی ہی ٹیم منتخب کرنے کے لئے کافی گردانی جاتی ہے۔
    ہماری ہاں بورڈ اور کھلاڑیوں کی نظر میں بھی علاقائی کرکٹ  تحقیر کا نشان ہے۔ جب کوئی کھلاڑی قومی ٹیم میں آ جاتا ہے تو وہ اسے بھول ہی جاتا ہے کہ کبھی یہیں کی گئی محنت کے نتیجے میں ہی آج وہ ٹیم میں ہے۔ سو جب قومی ضرورت سے فراغت ہوتی ہے تو اس میں اشتہارات اور دوسری لیگیں ان کی موجودگی کی متمنی ہوتی ہیں۔ اگر کبھی صحت کے مسئلے کی وجہ سے ٹیم سے باہر رہنا پڑے تو کسی غیر اہم مقابلے میں دو چار اوورز گیند بازی یا بلے بازی کر کے اپنا فرض پورا کر دیا جاتا ہے اور اپنے صحتمند ہونے کی سند وصول کر لی جاتی ہے۔
    اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے نو آموز کھلاڑی کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی کرکٹ کا شگاف باقی ٹیموں کے کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں کے کھلاڑیوں کے لئے اپنی علاقائی کرکٹ میں شرکت لازمی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آسٹریلیا یا برطانیہ کے علاقائی کرکٹ کے کھلاڑی اپنے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں تو وہ اپنے تجربات ان کو منتقل کرتے ہیں۔ ان کا کھلاڑی جب سمتھ، روٹ یا ولیمسن کو گیندکرتا ہےتو اسے پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کیا ہوتی ہے اور اس میں کیسے بلے بازوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسی طرح جب بلے باز میک گراتھ، شین وارن، اسٹین کو کھیلتے تو انھیں اندازہ ہوتا کہ بین الاقوامی کرکٹ میں ان کا واسطہ کیسے کیسے گیند بازوں سے پڑنے والا ہے۔اس کے برعکس ہمارا نیا کھلاڑی ان باتوں سے زیادہ واقف نہیں ہوتا۔وہ بین الاقوامی کھلاڑیوں سے قومی ٹیم کے نیٹ میں ہی ملتا ہے اور اس کو بھی ہمارے کھلاڑی جتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ بھی سبھی کو معلوم ہے۔
    علاقائی کرکٹ کی سب سے اچھی مثال جنوبی افریقہ کی ہے۔ نسلی تعصب کی وجہ سے اس ملک پر بائیس سال بین الاقوامی کرکٹ پر پابندی رہی مگر وہاں کی علاقائی کرکٹ اتنی مضبوط اور منظم تھی کہ آتے ہی وہ عالمی کرکٹ کی صفِ اول کی ٹیموں میں شمار ہونے لگی۔
    ہمارے ہاں زیادہ ٹیمیں بنا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے معیار میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ ہوتا اس کے برعکس ہے۔ ٹیمیں کم ہونی چاہیے۔اور کھلاڑی کو ان میں شامل ہونے کے لئے بھی محنت کرنی پڑے۔ان کو اپنی سبز ٹوپی کو اہمیت کا احساس دلایا جائے۔ ہر کسی کو ٹیسٹ یا انٹر نیشنل کھلاڑی کی کیپ نہیں ملنی چاہیے۔ کم از کم چار پانچ سال مسلسل اچھی کارکردگی دکھانے والا کھلاڑی انتخاب کے لئے زیرِ غور لایا جائے اور پھر اسے اپنی اہلیت دکھانے کے بھرپور مواقع بھی ملنے چاہییں۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے درجن بھر سے زائد کھلاڑیوں کو ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کیپس دیں مگر ایک دو ناکامیوں کے بعد انھیں گھر بھیج دیا گیا۔ ایسا شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہو۔
    علاقائی کرکٹ میں پیسوں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔علاقائی کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے علاوہ ایمپائروں اور کوچز کی تنخواہ انتہائی کم ہے۔ اس کو بہتربنائے بغیر معیار کیسے بلند ہو سکتا ہے؟ اس کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو علاقائی کرکٹ میں رقم ڈالنی پڑے گی۔ اس سلسلے میں مخیر حضرات اور سپانسرز سے مدد لی جا سکتی ہے۔ بلکہ پاکستان سپر لیگ میں ٹیمیں خریدنے والے حضرات کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ علاقائی کرکٹ کی کسی ایک ٹیم کی بھی سرپرستی کریں۔ اس ٹیم کے میدان کو بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق برقرار رکھیں۔ اس سے نئے کھلاڑیوں کو گیند روکنے اور کیچ کرنے کے لئے ڈائیو لگانے کی ترغیب ملے گی مزید براں جب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی ہو گی تو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
    اس کے علاوہ انڈر انیس، انڈر تئیس کی ٹیمیں بنائی جائیں اور اس ٹیم کے بیرون ممالک کے دورے رکھے جائیں تا کہ انھیں بین الاقوامی ٹیموں کے خلاف ان کے گھر میں کھیلنے کا تجربہ حاصل ہو سکے۔
    نئی حکومت نے علاقائی کرکٹ کا نیا نظام متعارف کروایا ہے جس میں محکموں کی بجائے علاقائی ٹیمیں ہوں گی۔ اس کے بین الاقوامی کرکٹ پر ثمرات کا اندازہ تو کچھ عرصے میں ہو گا مگر ابتدائی دھچکا یہ ضرورلگا ہے کہ بہت سے فرسٹ کلاس کھیلنے والے کھلاڑی بے روز گار ہو گئے ہیں۔اس کا سدِ باب ہونا چاہیے۔ ہماری رائے تو یہ تھی کہ ہمارےاداروں پر مشتمل علاقائی نظام نے ہمیں پچاس برس تک دنیا کے بہترین کھلاڑی دئیے سو اسی میں موجود خامیوں کو دور کرنا چاہیے تھا تاہم اب نیا نظام آیا ہے تو اسے بھی کچھ سال چلنے دینا چاہیے تا کہ اس کی خوبیوں اور خامیوں کا ٹھیک سے اندازہ ہو سکے۔

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔