تحریر: ابنِ ریاض
ایک ایسی شخصیت کہ جس پر لکھنا یقیناً قلم کے لئے ایک اعزاز ہے۔ ایک ایسا شخص کہ جو اسلام کی سچی روح تھا اور پاکستان کا اصلی و حقیقی چہرہ بلکہ بہت محترم جناب محمود ظفر ہاشمی کے ناول’میں جناح کا وارث ہوں’ کی حقیقی وعملی تصویر۔ ایک ایسا شخص کہ جس پر نہ لکھیں تو قلم کا حق ادا نہیں ہو گا۔ وہ شخص عبدالستار ایدھی کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
ایک بندہ جس نے اتنا کام تن تنہا کیا جو شاید کئی ملکوں کی حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ایدھی مراکز ہیں اور بنیادی سہولتوں سے مزین۔ حتٰی کہ ہیلی کاپٹر ایمبولینس سروس بھی۔ان کی خدمات محض پاکستان تک محدود نہیں تھیں بلکہ کہیں زلزلہ آیا ہو، سیلاب ہو یا کوئی اور آفت ایدھی سروس وہاں مدد کے لئے موجود۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ جذبہ سچا ہو تو نہ پیسے ووسائل کی قلت آڑے آتی ہے اور نہ تنہا ہونے کا خوف دامن گیر ہوتا ہے۔ لاکھوں بے آسرا، یتیموں ، بیواؤں اور بزرگوں کو کئی عشروں تک بلا معاوضہ چھت اور کھانا مہیا کرنا معمولی خدمت نہیں۔ایدھی ہومز میں بچوں کو محض رکھا اور کھلایا پلایا ہی نہ گیا بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا گیا۔ ان میں سے کتنے ہی بچے آج پاکستان کے مفید اور ذمہ دار شہری ہیں۔ لاکھوں پاکستانی ان کی وفات پر یتیم ہوئے اور انھیں تب احساس ہوا کہ باپ کا سایہ کتنا اہم ہوتا ہے۔
ایدھی مراکز پر اکثر ایک جھولا بھی ہوتا ہے۔ اس کا مقصد بہت واضح اور آسان ہے کہ اگر بچہ پال نہیں سکتے تو اس کو جھولے میں ڈال دو۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس پر بہت اعتراض تھا کہ ایدھی تو بے حیائی و غیر ازدواجی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ اب غلط حرکت کرنے والے اب بچوں کو پیدائش کے بعد جھولے میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ بات دراصل یہ ہے کہ کیا جب یہ جھولے نہیں تھے یا جن علاقوں میں جھولے نہیں ہیں وہاں یہ حرکات نہیں ہوتیں ؟؟ ایدھی نے توکسی کو نہیں کہا کہ ایسی حرکات کرو بلکہ اس نے تو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ نہ کرو۔ دو غلط کام مل کر ایک درست کام نہیں بن جائیں گے۔
ان کی خدمات سے متعلق ہمیں ایک واقعہ یاد آیا۔ایک مرتبہ ایدھی صاحب کہیں جا رہے تھے تو رستے میں انھیں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔ ان سے سامان لے لیا اور جانے لگے تو ان میں سے ایک ڈاکو نے انھیں پہچان لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس شخص کا مال واپس کر دو۔دوسرے ڈاکو اس کی بات سن کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ ایسا کیوں؟ اس نے کہا کہ جب ہم لوگ کسی پولیس مقابلے میں مارے جائیں گے اور ہماری لاشیں ہمارے گھر والے بھی اٹھانے سے انکار کر دیں گے تو یہی وہ شخص ہے جو انھیں اٹھائے گا، غسل دے گا اور پھر تدفین کرے گا۔یہ سن کر ڈاکوؤں نے ان سے معذرت کی، ان کا اسباب انھیں واپس کیا اور لوٹ گئے۔
پچھلے سال ہم نے بہت سے دوستوں کو اردو کے قاعدے کی ایک تصویر کی شراکت کرتے دیکھا گیا جس میں حرف ض سے ٖلفظ ضعیف بنایا گیا تھا اور ضعیف کو واضح کرنے کے لئے ایدھی صاحب کی تصویر لگائی گئی تھی۔ وہ تصویر ہمارے زمانے میں بھی تھی۔ اگرچہ معترض کا اعتراض مناسب تھا کہ ضعیف لفظ پر ان کی تصویر لگانا زیادتی تھی کیونکہ بھلے ان کی عمر زیادہ تھی مگر وہ نوجوانوں سے زیادہ جوان تھے۔
اپنی زندگی میں ان سے سادہ انسان نہیں دیکھا۔ ملیشیا کا ایک سوٹ اور عام سی چپل۔ظاہری طور پر کمزورو نحیف سا وجود،بکھری ہوئی سفید داڑھی اور ٹھیک سے اردو بھی نہیں بول پاتے تھے مگر اس جسم میں ایک انتہائی توانا دل تھا جو ہر قسم کے حالات میں اپنے لوگوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ پاکستان اور اپنی مٹی سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور خودداری کا یہ عالم کہ انھوں نے اپنے بیرون ملک علاج کے لئے بھی کسی سے مدد لینا گوارا نہ کی اور پاکستان میں ہی اپنا علاج کروایا۔
ایثار کا پیکر کہ اپنا تن من دھن قربان کر دیا۔وصیت کی کہ میرے بعد میرے اعضاء بھی مریضوں کو لگادینا۔ ادارہ ایسا بنایا کہ جس کی فرض شناسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے بانی کی وفات کے روز بھی ان کے مراکز کھلے رہے، ایمبولینس چلتی رہی اور مستحقین اور میتوں کو ان کی منزل تک پہچاتے رہی۔ ان کی ساکھ کا یہ عالم تھا کہ انھیں کبھی ٹیلیویژن یا میڈیاپر اپنے اشتہار ات چلا کر اپنی خدمات کا تذکرہ کرنے اور لوگو ں سے صدقات و عطیات کی اپیل کرنے کی ضروت پیش نہیں آئی۔ان کاکام اتنا زیادہ اور اتنا واضح تھا کہ لوگ از خود ان کے ادارے کی مدد کرتے تھے۔
نوبل پرائز کی بدقسمتی ہے کہ ان کے حصے میں نہیں آیا۔ہماری رائے ہے کہ یہ اعزازات خواہ قومی ہوں یا بین الاقوامی ان کا انتخاب کرنے والے مکمل غیر جانبدار نہیں ہوتے۔ ان کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں کیونکہ کئی مرتبہ یہ اعزازات ایسے لوگوں کو دئیے گئے ہیں جنھوں نے امنِ عالم کو خراب کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ ایدھی صاحب کو اگر نوبل انعام مل جاتا تو یہ اس انعام کے لئے اعزاز ہوتا کہ وہ ایدھی صاحب کے سینے پر سجتا مگر اس کے مقدر میں نہ تھا۔ ہمیں نوبل پرائز سے ہمدردی ہے۔
ایدھی صاحب سے لوگوں کی والہانہ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ان کی نماز جنازہ نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں ادا کی گئی۔ ظاہر ہے کوئی تنگ جگہ جم غفیر کے لئے ناکافی تھے اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ ان کی میت کو گارڈآف آنر ٌپیش کیا گیا۔ کسی غیر فوجی و غیر سیاسی شخصیت کو گارڈ آف آنر دینے کا یہ پہلا موقع تھا اور اس کا مستحق ایدھی صاحب کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ایدھی عبدالستار صاحب کی ذات(کاسٹ) تھی مگر وہ ذات اب ایک نام سے پہچانی جاتی ہے۔ پاکستان میں شاید پچانوے فیصد لوگوں کے ذہن میں ایدھی کا لفظ سن کر ایک ہی شخصیت کا خاکہ بنتا ہے اور وہ عبدالستار کے علاوہ کوئی نہیں۔
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
ملکوں کی پہچان ڈاکٹر’انجینئر، صنعت کار اور دیگر پیشہ ور نہیں ہوتے۔ یہ لوگ ملک کی ترقی کا جزو ضرور ہوتے ہیں مگر ملکوں کی پہچان ایدھی جیسے انسان نواز ہوتے ہیں-
ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ہمارے بچے ڈاکٹر انجینئر اور دیگر شعبوں میں تو جانا چاہتے ہیں مگر انسانیت ہماری فہرست میں شاید شامل ہی نہیں ہے۔ ہم نے کسی بچے کو ایدھی بننے کی خواہش کرتےنہیں دیکھا۔ معاشرےکے انحطاط کے لئے کیایہ وجہ کافی نہیں ؟
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جولائی 7th, 2020
زمرہ: شخصیات تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: Edhi, Edhi foundation, guard of honor, national stadium, Nobel Prize, Pakistan