تحریر: ابنِ ریاض
ہمارے دوست محمد پرویز بونیری پٹھان ہیں مگر ان کی اردو سن کر کوئی بھی انھیں پٹھان ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔تذکیر و تانیث کی غلطیوں سے پاک اورعمدہ الفاظ کا چناؤان کے خاص اوصاف ہیں۔اردو کے قدر دان اور خیر خواہ ہیں اور اس کی ترویج و ترقی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک فیس بک صفحہ’کاروان اردو زبان’کے نام سے بنا رکھا ہے۔ کاروان اردو زبان اردو کے نفاذکے حوالے سے عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کے دو سال مکمل ہونے پر 8 ستمبر کو ‘یومِ قومی زبان’ منا رہی ہے۔ اردو زبان سے ہماری وابستگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم کالم اردو زبان میں ہی لکھتے ہیں۔
اردو ہماری قومی زبان ہے تاہم اسے کبھی قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ کئی مرتبہ سرکاری سطح پر اردوکو دفتری و سرکاری زبان بنانے کی قراد دادیں منظور ہوئیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خواص تو کیا عوام بھی اردو بولنے سے کتراتے ہیں بلکہ انگریزی ہمارے اندر ایسے رچ بس گئی ہے کہ ہم ہر جملے میں نادانستہ کئی الفاظ انگریزی کے بول جاتے ہیں اور انگریزی میں ہی خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں۔
مقتدرہ قومی زبان مختلف الفاظ کے اردو تراجم کرتا ہے مگر وہ اتنے مشکل اور ادق ہوتے ہیں کہ عام لوگ انھیں استعمال کرنے کی بجائے انگریزی کے الفاظ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے جامعہ اردو اسلام آباد میں گزارے دن یاد آ رہے ہیں کہ وہاں دفتری زبان اردو تھی۔ہمیں جب وہاں تقرری کا حکم نامہ ملا تو وہ ہم کھول کے بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ ہمیں نوکری ملی ہے یا ایک اور جامعہ نے بے آبرو کر کے پروانہء رخصت تھما دیا ہے۔ آپ بھی تقرر نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ اوپر جامعہ کا مونوگرامہے۔ اس کے نیچے دائیں ہاتھ پر تاریخ اور بائیں ہاتھ حوالہ نمبر ہے۔ اس کے نیچے ذرا واضح کر کے دفتری اعلامیہ لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد درج ذیل عبارت ہے۔ حاشیے میں الفاظ کے معنی ہم نے تحریر کیے ہیں تا کہ عبارت سمجھنے میں آسانی ہو۔
جناب ۔۔۔۔۔۔۔ کا تقرر بحیثیت لیکچرار( ٹیلی کام) بی پی ایس 17 میں کر دیا گیا ہے۔موصوف نے سول سرجن کی طرف سے جاری کردہ طبی موزونیت کا صداقت نامہ( میڈیکل سرٹیفیکیٹ) پیش کر دیا ہے۔
لہذا موصوف کو مورخہ ۔۔۔۔۔۔ سے رجوع بکار ( کام میں شامل ہونے )کی اجازت دی جاتی ہے۔
نقل برائے اطلاع
ذاتی معتمد(پرسنل سیکرٹری) شیخ الجامعہ
ناظم حسابات( اکاءونٹس آفیسر) اسلام آباد
افسر تنقیح(آڈٹ آفیسر)
شخصی مسل(ذاتی فائل)
ایمانداری سے بتائیں کہ اردو میں ایم اے کرنے والا بھی ان میں سے کتنے الفاظ سے واقف ہو گا کجا کہ ہم جیسا انجینئر کہ جس کی اردو اور انگریزی دونوں ہی واجبی ہوتی ہیں اور انھیں صرف تکنیکی اصطلاحات ہی سمجھ آتی ہیں۔ ہمیں جامعہ اردومیں جس شعبے میں بھیجا گیا وہاں فاصلاتی مواصلات کی تختی لگی تھی جس کے معنی ٹیلی کام ہیں۔ جامعہ میں ڈھائی سال کے دوران کئی بار اردو کے نفاذکے لئے خطوط آئےاور ظاہر ہے کہ نوکر کی تے نخرہ کی۔ انتظامی امور والوں کو خطوط آتے اور وہ تمام شعبوں کے حوالے کر کے بری الذمہ ہو جاتے۔ہم بھی پڑھ کے رکھ دیتے اور لیکچر انگریزی میں ہی دیتے کہ ہر اصطلاح نہ تو اردو میں ہے اور اگر ہے توہمیں معلوم نہیں، معلوم ہوتی بھی تو طلباء تو یقیناً ناقواقف تھے تو اردو میں بتانے کا فائدہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اگر تھرمامیٹرکو آلہ حرارت پیما کہہ دیتے تو پوری کلاس کبھی ہمارا منہ دیکھتی اور کبھی ایک دوسرے کا۔ لڑکے ایک دوسرے سے اس کا مطلب پوچھنے کے بہانے راز و نیاز شروع کر دیتے اور کلاس کو دوبارہ ڈھب پر لانا مشکل ہو جاتا سو ہم نے اردو سے محبت کے باوجود لیکچر ہمیشہ انگریزی میں ہی دیا۔
تمام جامعات میں کچھ اساتذہ ہوتے ہیں جو کہ جامعہ کے ملازم نہیں ہوتے۔ تاہم جامعہ ان کی خدمات کسی مخصوص مضمون کے لئے حاصل کرتی ہے اور اس کی انھیں اجرت دی جاتی ہے۔ انھیں عرفِ عام میں وزیٹنگ ٹیچرز کہا جاتا ہے۔جامعہ اردومیں ہمارے دور میں ہی ان کی اجرتوں کے لئے کچھ کام ہوا کہ ان اساتذہ کی اجرت قرب و جوار کی جامعات میں دی جانے والی اجرت سے کم تھی۔انتظامیہ متفق ہوئی اور ان کی نئی اجرتوں کا اعلامیہ جاری ہوا۔وہ اعلامیہ اردو میں تھا۔ وہ جس نے پڑھا وہ ہنس ہنس کر دوہرا ہو گیا کیونکہ اعلامیے میں وزیٹنگ ٹیچرز کو ‘گشتی اساتذہ’ لکھا گیا تھا۔اس عزت افزائی پر اکثر اساتذہ تو جامعہ ہی چھوڑ گئے۔
ایسا صرف جامعات میں ہی نہیں ہوتا۔باقی ادارے بھی اس سے مبرا نہیں۔ سرکارتو حکم دے دیتی ہے لیکن محکموں کے لئے مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک بار سرکار نے اردو میں تختیاں لگانے کا حکم دیا۔ کسی محکمے میں جب سب کی تختیاں لگ گئیں تو ایک بوائلرانجینئر اپنا استعفٰی لے کر اپنے باس کے پاس گیا کہ یا تو میری تختی ہٹا دیں یا میرا استعفٰی قبول کر لیں کیونکہ اس کی تختی پر لکھا تھا ‘ مہندس دیگی’۔ بڑی مشکل سے تختی ہٹانے پر وہ مانا۔
چند روز قبل کی بات ہے کہ پنجاب میں نئے اساتذہ کی تربیت جاری تھی۔ انھیں اردو میں چارٹ(کھانے والی نہیں ) بنانے کا کہا گیا اور اس کا موضوع تھا ‘آفیشل کمیونیکیشن’۔ اساتذہ کے ہاتھوں کے طوطے تو کیا کبوتر چڑیاں سب ہی پھر کر کے اڑ گئے کہ وہ ایک بھی نقطہ اردو مین بیان نہ کر پائے۔آخرکار نگران سے اجازت لے کر پورا چارٹ انگریزی میں بنایا۔
یہ غیر سرکاری اور عوام کی صورت حال ہے۔ محض قراردادیں پاس کرنے سے نفاذ نہیں ہو جاتا۔ لوگوں کو بتدریج اس تبدیلی کے لئے تیار کیا جائے۔
۔فوری طور پر تو اردوکا نفاذ دیوانے کا خواب ہی ہےتاہم کچھ اقدامات کیے جائیں تو اردو جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔ مقتدرہ قومی زبان کو ایسے الفاظ رائج کرنے چاہییں جو چھوٹے ہوں اور بولنے میں سادہ ہوں۔ اس کے علاوہ معزز عہدوں کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سےگریز کیا جائے کہ جن میں منفی معنی پوشیدہ ہوں۔ ایسے الفاظ کی ترویج کے لئے میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ میڈیا ایک طاقتور آلہ ہے نئے خیالات کی ترویج کا۔ پچھلے چند سال میں میڈیا نے کیسے داڑھی والوں کو دہشت گرد اور مسلمان ممالک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ثابت کیا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسی میڈیا سے ہمیں اردو کی ترویج کا کام لینا چاہیے۔سکولوں میں اردو کو عام کیا جائے۔ معاشرتی علوم اور اسلامیات اردو میں ہی ہونی چاہیں۔ اردوکے الفاظ کو عام کریا جائےاور ان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ شعراء اور مصنفین کو اردو زبان کے الفاظ کے استعمال کی ترغیب دی جائے۔میڈیا پر بھی اردو کو رائج کیا جائے۔ پروگراموں کے میزبانوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اردو کے الفاظ استعمال کریں ورنہ ان کے پروگرام کی ریٹنگ کم کر دی جائے۔ ایسے کچھ اقدامات سے ہی اردو کا نفاذممکن ہے ورنہ پرویز جیسے لوگ انفرادی سطح پر کوشش کرتے رہیں گے جس سے اردو زندہ تو رہے گی مگر ایسے ہی جیسے کوئی مریض وینڑی لیٹر پر ہوتا ہے، بڑھے اور پھلے پھولے گی نہیں۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: جولائی 10th, 2020
زمرہ: طنزو مزاح, طنزومزاح تبصرے: کوئی نہیں
ٹیگز: boiler engineer, islamabad, urdu, urdu university